اس ہفتے لکھنے کو تو بہت کچھ تھا مثلا سانحہ بلدیہ فیکٹری میں جلائے جانے والے مزدوروں کے نامزد قاتلوں اور سہولت کا روں کے خلاف عدالتی فیصلہ – اس فیصلے پر یہ سوچ کر کہ عدلیہ کی توہین ہونے پر کوئی نوٹس نہ مل جائے ، لکھنے والے اور بولنے وا لے محتاط رد عمل دیتے ہیں ، لیکن منہ میں لڈو رکھ کر بیٹھنے پر ہمارا دل نہیں مانتا – اس عدالتی فیصلے میں روا رکھے جانے والے جانبدارانہ روئیے نے عدالتی نظام پر بھی بے شمار سوالات کھڑے کر دیے ہیں – سانحے میں شہید ہونے والے تو اپنی جان سے گئے مگر ان کے لواحقین جو آٹھ سال سے اس فیصلے اور انصاف کے منتظر تھے وہ اپنے شہیدوں کے پیچھے اسی انتظار میں تھے کہ ہمیں کم از کم انصاف تو ملے گا ، مگر عدالت کے اس فیصلے نے انہیں بھی زندہ درگور کردیا ہے -اس فیصلے میں مجرموں اور مجرموں کے سہولت کا روں اور بھتے کاحکم دینے والوں کو جس قسم کی چھوٹ دی گئی اور انہیں مکھن میں سے بال کی طرح بچالیا گیا اس پر ان شا اللہ آئندہ کالم میں حقائق پر مبنی شواہد کے ساتھ بات کروں گا – آج کا کالم حقوق کراچی کے حوالے سے ہے جس میں کوئی تیس برسوںکے بعد کراچی کی سیاسی فضاء میں ایک خوشگوار تازگی کا احساس پیدا ہوا ہے –
اگرچہ کراچی ہمیشہ سے ہی پاکستان کے لئے معاشی اور سیاسی اعتبار سے بہت اہم رہا ہے اس کے باوجود کراچی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سوتیلے پن سے بھی کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا – کراچی کو تیس پینتیس سالوں سے لسانی اور مذہبی منافرت کی آگ میں ڈال کر یہاں استحصال کیاجاتا رہا اور اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لئے سونے کی چڑیا سمجھ کر رکھا گیا – دودھ دینے والی گائے کو اس حالت میں رکھا گیا کہ سوکھے بھوسے کو ترسا دیا گیا – جب بھی یہاں کے حقیقی مسائل پر بات کی گئی اسے لسانی اور مذہبی رنگ دے کر کسی اور رخ پر ڈالا جاتا رہا ، جس کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ اور کراچی سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادتیں اور سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی حکمران ہیں – سب سے پہلے جو ڈاکہ کراچی پر مارا گیا وہ تھا اس کراچی کو جو دارلخلافہ کراچی تھی اس دارلخلافہ کو اسلا م آباد لے جایا گیا -تاکہ اس شہر کی سیاسی حیثیت کی ختم کیا جاسکے – پھر یہ کراچی جو 1834 سے لیکر 1956 تک کی بلدیہ یعنی اس وقت کی میونسپل کمیٹی میں اپنی حدود رکھتا تھا اور کراچی کی جغرافیائی حدود گھارو تک محیط تھیں اسے انتظامی یونٹس کے نام پر کاٹا پیٹا جاتا رہا اور پھر ایک ایسا کراچی ہمیں دیا گیا جس کے سارے اختیارات سندھ کی حکومت نے اپنے پاس رکھ لئے ، حالانکہ پرویز مشرف کے دور آمریت تک کسی نہ کسی طور پر شہری بلدیاتی حکومت کا تصور موجود تھا – لیکن یہ شہری آزادی بھی حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور سارے اختیارات سلب کرکے صرف ڈھانچہ بلدیہ کے ہیلے کیا گیا- کوٹہ سسٹم کے نام پر چالیس سال قبل جس غیر اخلاقی نظام کی بنیاد رکھی گئی آج عمران خان کی حکومت نے یہاں کے سیاسی نمائندوں کو ساتھ ملا کر جن میں متحدہ قومی موومنٹ ، پیپلز پڑتی اور اسٹیبلشمنٹ سب کے سب شامل ہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں لائے بغیر ایک بل کے ذریعے ہمیشہ کے لئے لاگو کردیا – افسوس ک مقام یہ ہے کہ اس فیصلے میں جو تین مرتبہ بڑھایا گی ا اس میں متحدہ قومی موومنٹ کی مرضی شامل تھی ، جب کہ اس کے خلاف ہی ایم کیو ایم معرض وجود میں آئی تھی -نوکریوں کا معاملہ اس قدر سنگین اور تکلیف دہ ہے کہ اس پر کوبات کرنے کے لئے تیار نہیں -اسی طرح انفراسٹرکچر ، سڑکوں کی زبوں حالی ، کراچی جیسے شہر میں پبلک ٹرا نسپورٹ کا نہ ہونا شرم کا مقام ہے – سرکلر ریلوے کا تمام نظام مفلوج ہوچکا ہے ، پینے کے لئے صا ف پانی ،بجلی اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی جیسے بے شمار مسائل ہیں جن پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے علاوہ کبھی سنجیدگی سے بات نہیں کی گئی – اور محض اپنے اقتدار کے دوام کےلیے کراچی کے وسائل کو چاروں ہاتھوں پیروں سے لوٹا گیا – یہاں تک کہ جب بارش نے ایک ہفتے تک کراچی کو دریا بنائے رکھا ایسے میں عمران خان کی حکومت غیر ملکی آقائوں کو خوش رکھنے اور آئی ایم ایف کا ٹا رگٹ پورا کرنےکےنام پر کے الیکٹرک کو اربوں روپے کی مراعات دیکر کراچی والوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چین لینے کے درپے رہے -ایسے نازک ترین حالات میں جماعت اسلامی کراچی کی بیدار مغز قیادت نے ان تمام اہم ترین مسائل کی آواز بلند کی اور ایک حقیقی جدوجہد کا آغاز کیا – یہ محض ایک دن کاجلسہ یا ریلی نہیں تھی بلکہ کراچی کے لئے تمام مسائل کےحل کے لئے ایک سیاسی جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے اور اس کو اسی زاویے کے ساتھ لیا جانا چاہیے -اصل بات تو یہ ہے کہ کراچی میں بااختیار شہری حکومت ہی تمام مسائل کا حل ہے اس کے لیے سندھ حکومت کا موجودہ بلدیاتی ایکٹ منسوخ کیا جانا چاہیے ، اور کوٹا سسٹم ختم کرکے کراچی کے شہریوں کو میرٹ کی بنیاد پر ملازمتیں دی جا نی چاہئیں۔جماعت اسلامی کراچی کے تحت 27ستمبر کو شاہراہ قائدین پر ہونے والے عظیم الشان اور تاریخی حقوق کراچی مارچ میں 14نکات پر مشتمل ’’اعلان کراچی‘‘ کے عنوان سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر کراچی کی درست مردم شماری کرائے اور حکومت سندھ اس کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کرے۔
نئی منصفانہ مردم شماری
کراچی کی آبادی کسی بھی صورت 3کروڑ سے کم نہیں لہٰذا کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں اور یونین کونسلوں کی تعداد اس ہی حساب سے متعین کی جائے۔ کراچی وفاقی حکومت کو اس کے بجٹ کا تقریباً 55 فیصد اور حکومت سندھ کو تقریباً ً95فیصد ادا کرتا ہے۔ کراچی سے جمع شدہ ریونیو کا کم از کم15فیصد حصہ کراچی پر خرچ کیا جائے۔
کوٹا سسٹم
کوٹا سسٹم فوری طور پر ختم کیا جائے اور ہر سطح پر داخلے اور نوکریاں صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر دی جائیں۔
کراچی کے نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں
سرکاری اداروں میں کراچی کے نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں ۔ کراچی کی اسامیوں پر جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر بھرتی بند کی جائے کراچی کے اداروں میں مقامی افرادکو اسامیوں پرتعینات کیا جائے۔
با اختیار لوکل گورنمنٹ سسٹم
موجودہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء بد نیتی پر مبنی ایک غاصبانہ اور ناکارا قانون ہے اس کی بنیاد پر سندھ کے بلدیاتی اداروں کے وسائل اور اختیارات حکومت سندھ نے غصب کر لیے ہیں ۔ یہ آئین کے آرٹیکل 140-A کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس کی جگہ با اختیار لوکل گورنمنٹ سسٹم (شہری حکومت کا نظام ) نافذ کیا جائے۔ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیںیونین کمیٹیوں کی تعداد 3کروٖ ڑ آبادی کے حساب سے مقرر کی جائے۔
کراچی -میگا میٹرو پولیٹن سٹی کا درجہ
کراچی کو میگا میٹرو پولیٹن سٹی کے طور پر خصوصی حیثیت دی جائے۔ میئر کا انتخاب براہِ راست کرایا جائے۔ تمام ترقیاتی اورسہولیات فراہم کرنے والے اداروںواٹر اینڈ سیوریج بورڈ،کے ڈی اے،ایل ڈی اے،ایم ڈی اے ، ایل اے آر پی،بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور تمام کنٹونمنٹ بورڈ وغیرہ کو کراچی میگا میٹرو پولیٹن گورنمنٹ کے تحت دیا جائے۔
کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیا جائے
کے الیکٹرک کراچی کے عوام کے لیے انتہائی اذیت رساں ادارہ بن گیا ہے۔ ایک جانب بد ترین لوڈ شیڈنگ دوسری جانب اوور بلنگ اور دیگر مدات میں لوٹ مار کرتا ہے کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں کو بجلی کی فراہمی میں مکمل ناکام ہو گیا ہے، اس ادارے کی بنیادبے ایمانی اور بد دیانتی پر مبنی نجکاری ہے ۔اس ناقص نظام کے نتیجے میں ہر بار بارشوں میں متعدد افراد کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔حکومت فوری طور پر اس کا کنٹرول سنبھال کر کے الیکٹرک کا فرانزک آڈٹ کرا ئے اور لوٹی ہوئی رقم بر آمد کی جائے۔ کراچی میں بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام سے ایک کمپنی کی اجارہ داری ختم کی جائے۔نجکاری کی صورت میں حکومت کے شیئر 51 فیصد سے کم نہ ہوں۔ کراچی کی شہری حکومت کو اس میں حصہ دار بنایا جائے۔
پانی کی فراہمی کا منصوبہ کے فور
پانی کی فراہمی کا منصوبہ کے فور 2007ء میں نعمت اللہ خان کے دور میں شروع ہوا۔ اس کے تینو ں فیز آئندہ ایک سال میں مکمل کیے جائیں۔ اس ہی طرح نکاسی آب کے منصوبے 3 S-کو بھی فوری طور پر مکمل کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت اس پر سیاست کرنے کے بجائے اپنا اپنا حصہ فوری ادا کریں۔
پیکیج کی خیرات نہیں حق دیا جائے
ہنگامی بنیاد پر کراچی کی سڑکیں ، بجلی، پانی اور سیوریج کے نظام کی بحالی کے انتظامات کیے جائیں۔ کراچی سے ملنے والے ریونیو کا بڑا حصہ کراچی کی صنعت اور تجارت کا مرہون منت ہے۔حکومت کراچی کی صنعت اور تجارت کے فروغ کے لیے خصوصی سہولتیں فراہم کرے بجلی گیس اور پانی کی ضرورت کے مطابق فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
انفرا اسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ – سر کلر ریلوے ، ٹرام سسٹم کی بحالی
انفرااسٹراکچر بالخصوص سڑکیں فوری طور پر تعمیر کی جائیں۔ تجاوزات کے نام پر ڈھائی گئی دکانوں کا متبادل فراہم کیا جائے۔ کورونا سے متاثرہ تاجروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے۔ حکومت تعلیم کے نام پر تجارت کی حوصلہ شکنی کرے۔ سرکاری جامعات ،کا لجز اور اسکولوںکا معیار اور تعلیمی اداروں کی عمومی حالت بہتر بنائی جائے۔ طلبہ کے لیے ٹرانسپورٹ کے پوائنٹس سسٹم اور کرایے میں رعایت کو بحال کیاجائے۔ تعلیمی اداروں میں فوری یونین انتخابات کرائے جائیں۔ فیسوں میں کمی کی جائے۔با صلاحیت طالب علموں کو تعلیم کے لیے مالی وسائل فراہم کیے جائیں ۔ کراچی شہر میں ٹرانسپورٹ کا بد ترین نظام ہے۔ شہری بوسیدہ بسوں کی چھتوں اور چنگچی رکشوں میں سفر پر مجبور ہیں۔ سڑکیں بد ترین حالت میں ہیں ۔ نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کے لیے مکمل ماس ٹرانزٹ پروگرام بنایا گیا تھا جس میں سر کلر ریلوے ، ٹرام سسٹم، شہر کے لیے 5000 جدید بسیں ، مختلف مقامات پر فلائی اوور ، انڈر پاس اور 2 منزلہ سڑکیں شامل تھیں۔ حکومت فوری طور پر اس پروگرام پر عمل درآمد کا اہتمام کرے۔ ملیر ایکسپریس وے کی فوری تعمیر کی جائے۔
امن و امان اورر پولیس اصلاحات
کراچی کے شہریوں پر مشتمل پولیس فورس کا قیام
شہر میں امن و امان کی صورت انتہائی مخدوش ہو گئی ہے مجرم اپنی مرضی سے چھپتے ہیں اور جب چاہتے ہیں واردات کرتے ہیں۔ کراچی میں پولیس اور تھانے کا نظام درست کیا جائے۔کراچی کے شہریوں پر مشتمل پولیس فورس تشکیل دی جائے۔ بلا لحاظ تنظیمی و سیاسی وابستگی مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں ۔ عدالتی نظام کو فعال اور مؤثر بنایا جائے تا کہ بلا تاخیر انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔شہر میں بے گناہ قتل ہونے والے افراد بالخصوص سانحہ 12مئی، 9اپریل اور بلدیہ فیکٹری میںجلائے جانے والے شہدا کے قاتلوں کو حکومت کیفر کردار تک پہنچانے کا انتظام کرے۔
صحت عامہ اور سرکاری ہسپتال
۔3 کروڑ آبادی کے اس شہر میں سرکاری سطح پر صحت کی انتہائی ناکافی اور ناقص سہولیات میسر ہیں یا پھر تجارتی بنیاد پر قائم مہنگے اسپتال ہیںجہاں عام آدمی علاج کا تصور بھی نہیں کر سکتا عام آدمی کے لیے سرکاری اسپتالوں کے دھکے ہیں یا زندگی بھر بیماری کے ساتھ گزارہ۔شہر میں فوری طور پر ہر ضلعے میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل بڑے اسپتال بنائے جائیں۔ نعمت اللہ خان کے دور میں قائم کیے گئے 18چیسٹ پین سینٹرز بحال کیے جائیں۔ شہریوں کو سستے اور معیاری علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ دوائوں کی قیمت میں اضافہ واپس لیا جائے۔
ہاؤسنگ اسکیم اور سوسائٹیوں کی دھوکے بازی
کراچی میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد مختلف ہائوسنگ اسکیموں اور سوسائیٹیوں کی دھوکے بازی یا زمینوں پر قبضے کی وجہ سے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو چکی ہے کوئی ادارہ بشمول عدالت ان کی داد رسی نہیں کر رہا۔ حکومت فوری طور پر اس کا نوٹس لے اور متاثرین کو زمین یا ان کی کل رقم کی واپسی کو یقینی بنائے ۔ کچی آبادیوں میں بنیادی انسانی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے۔
کھیل کے میدان اور پارکس کی بحالی اور تعمیر نو
نوجوانوں میں صحت مندانہ رجحانات کے فروغ کے لیے حکومت کھیلوں اور غیر نصابی سرگرمیوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرے۔تباہ حال کھیلوں کے میدان اور پارکس فوری بحال کیے جائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے ان چودہ نکات کو سینٹ میں قرارداد کی صورت میں پیش کرکے یہاں پچاس برس سے قابض سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ،متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ سمیت سب کو ہی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے – دیکھنا یہ ہے کہ یہ تمام جماعتیں کراچی کے حقوق کی اس جدوجہد میں جماعت اسلامی کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کی حمایت کرتی ہیں یا ایوان سے با ہر رہ کر اپنا ووٹ اس کے خلاف استعمال کرتی ہیں ؟ دونوں صورتوں میں کراچی کے لئے سنجیدہ جماعتوں کی حقیقت آشکار ہوجائے گی ۔
حقوق کراچی کے سلسلے میں اب عوامی ریفرنڈم کے بہت بڑے پیمانے پر عوامی بیداری کی لہر پیدا ہونے جارہی ہے – اس مارچ میں ہر زبان بولنے والوں کی شرکت اور ان کی دلچسپی سے تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے کیمپوں میں پریشانی پیدا ہونے لگی ہے – دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے ، مگر یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ کراچی کے عوام اب مزید کسی نئی لولی پا پ کے بجائے اپنے اصل ہمدردوں کی ہی جانب دیکھ رہے ہیں ۔