یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر شخص شاعری نہیں کرسکتا‘شاعری ودیعتِ الٰہی ہے‘ شاعری کے آداب بھی ہمارے علم میں ہیں اور شاعروں کی ذمہ داریاں بھی ہم جانتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے عروج و زوال میں شعرائے کرام حصے دار ہیں‘ یہ لوگ بڑی سے بڑی بات بھی ایک شعر میں کہہ دیتے ہیں‘ اربابِ سخن لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو معاشرہ ان لوگوں کی قدر نہیں کرتا وہ دھیرے دھیرے صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے لہٰذا ہماریِ ملک کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ اربابِ قلم کے مسائل پر بھی توجہ دیں۔ ہر زمانے کی طرح آج بھی شاعری تفریح طبع کا ایک ذریعہ ہے‘ تاہم کراچی میں کورونا کی کمی کے بعد ادبی فضا بحال ہو رہی ہے جو لوگ زبان و ادب کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں ہمیں چاہیے کہ ہم ادبی اداروں کی معاونت کریں۔ ان خیالات کا اظہار سعید الظفر صدیقی نے 20 ستمبر کو بزم یاران سخن کراچی کے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ آج بہت اچھی شاعری پیش کی گئی اس کامیاب مشاعرے کا سہرا بزم یارانِ سخن کراچی کے عہدیداران و اراکین کے سر ہے۔ بزم یاران سخن کے سینئر نائب صدر رانا خالد محمود قیصر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ آج ہم نے رفیع الدین راز کے اعزاز میں یہ محفل سجائی ہے جس کی صدارت سعید الظفر صدیقی کر رہے ہیں۔ ظہورالاسلام جاوید مہمان خصوصی ہیں اور احمد سعید خان نظامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ہماری تنظیم ادبی منظر نامے میں اپنی پہچان رکھتی ہے ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں ادبی تقاریب کرائیں اور ہر علاقے کے شعرا کو پروموٹ کریں۔ آج بھی ہم نے اپنے پروگرام میں لانڈھی‘ کورنگی کے شعرا کو شریک کیا ہے۔ صاحبِ اعزاز رفیع الدین راز نے کہا کہ وہ اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے گھر جا رہے ہیں جس کا انہیں افسوس ہے‘ وہ بزم یاران سخن کراچی کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے اُن کے لیے یہ پروگرام ترتیب دیا۔ آج کا پروگرام بہت سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے جس کے لیے میں میزبان مشاعرہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کے مسائل بڑھ رہے ہیں‘ ہر طبقۂ زندگی کسی نہ کسی مشکل و پریشانی میں مبتلا ہے اس تناظر میں شعرائے کرام میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے اسباب مہیا فرمائے کہ ہم سب پُرسکون زندگی گزار سکیں۔ مشاعرے میں محمد علی گوہر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ احمد سعید خان نے مشاعرے کی نظامت میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تقدیم و تاخیر کے مسائل بھی پیدا نہیں ہوئے انہوں نے کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو خراب نہیں ہونے دیا۔ اپنے جملوں سے شرکائے محفل کو بھی گرماتے رہے راقم الحروف نثار احمد کے نزدیک وہ ایک کامیاب نظامت کار کے طور پر بھی سامنے آرہے ہیں۔ مشاعرے میںرشید خان رشید کے لیے دعائے مغفرت کی گئی جب کہ سلمان صدیقی کی صحت و عافیت کے لیے بھی دعا کی گئی۔ اس موقع پر سعیدالظفر صدیقی‘ ظہور الاسلام جاوید‘ رفیع الدین راز‘ رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ شاہد کمال‘ سلیم فوز‘ سحر تاب رومانی‘ محمد علی گوہر‘ نثار احمد نثار‘ یوسف چشتی‘ شاعرعلی شاعر‘ صفدر علی انشاء‘ رانا خالد محمود قیصر‘ محسن سلیم‘ عارف شیخ‘ تنویر سخن‘ یاسر سعید صدیقی‘ اسحاق خان اسحاق‘ عاشق حسین شوکی‘ علی کوثر کے علاوہ ناظم مشاعرہ احمد سعید خان نے اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے کے بعد حلیم کا اہتمام تھا۔
نسیم انجم کا ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘‘ خوش آئند ہے‘ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
نسیم انجم کو یہ شعر بے حد پسند آیا اور انہوں نے اپنی کتاب کا نام اسی مناسبت سے رکھا۔ بات یہ ہے کہ شاعر و ادیب ایک حساس طبقہ ہے‘ وہ اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے وہ لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اس کو لکھ نہیں پاتے اس کی بے شمار وجوہات ہیں جس کا تذکرہ اس وقت نہیں کیا جاسکتا۔ نسیم انجم نے اپنی کتاب بذریعہ ڈاک بھجوائی کہ جس کا مطالعہ میرے علم میں اضافے کا سبب بنا۔ 608 صفحات پر مشتمل یہ کتاب مئی 2020ء میں شائع ہوئی جس میں سیاسیات‘ ادبیات‘ انٹرویوز اور سماجیات کے عنوانات کے تحت بے حد معلوماتی اور مفید تحریریں شامل ہیں۔ نسیم انجم ایم اے بی ایڈ ہیں۔ درس و تدریس کے علاوہ صحافت سے بھی منسلک ہیںٍ ان کے افسانوی مجموعموں میں دھوپ چھائوں‘ آج کا انسان‘ گلاب فن اور دوسرے افسانے کائنات‘ نرک‘ پتوار‘ آہٹ‘ سرِبازار رقصاں شامل ہیں۔ خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِزن فضاعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی مطالعہ‘ ان کی تنقیدی کتابیں ہیں جب کہ انہوں نے متعدد کتابوں کے تراجم بھی لکھے۔ نسیم انجم پر سرگودھا یونیورسٹی سے فرزانہ کوثر نے ایم فل کا مقالہ لکھا‘ ثنا نذر نے ایم اے کا مقالہ لکھا اور ڈاکٹر سعید حیدر نے ان کی افسانہ نگاری پر ایم فل کا مقالہ لکھا ہے۔ اس کتاب پر آغا مسعود حسین‘ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی‘ پروفیسر خیال آفاقی اور خواجہ رضی حیدر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ نسیم انجم مارچ 2000ء سے تادمِ تحریر ایک مقامی اخبار میں کالم نگاری کر رہی ہیں وہیں ان کے کالموں میں سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور نسائی مسائل کے علاوہ مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے معاملات شامل ہیں پوری دنیا میں اس وقت جو بدحالی اور معاشرتی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان تمام خرابیوں پر نسیم انجم نے قلم اٹھا اور معاشرے کے ذمہ داروں کو خبردار کیا ہے کہ آپ اس طرف توجہ دیں۔آغا مسعود حسین کہتے ہیں کہ نسیم انجم ایک کہنہ مشق کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم بھی ہیں۔ بہ حیثیت کالم نگار انہوں نے پاکسان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اپنا نام اور مقام بنا لیا ہے۔ نسیم انجم اپنے ہم خیال کام نگاروں کے ان تبصروں سے مکمل اتفاق کرتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اخلاقی انحطاط بڑھ رہا ہے جو کہ افسوس ناک صورت حال ہے اس خرابی کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے اس پر بھی بات ہو سکتی ہے تاہم اگر ریاست کے تمام ذمہ داروں نے باہم مل کر عوام کی معاشی ضروریات پوری نہ کیں تو پاکستان میں ایک بحران آسکتا ہے جو ہم سب کو بہا لے جائے گا۔ نسیم انجم نے بہ حیثیت ناول نگار ان موضوعات پر بحث کی ہے جن پر بہت سے قلم کار جرأت نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر معین قریشی کے بقول نسیم انجم کے کالموں کا مجموعہ خوش آئند ہے جس میں اسلامی طرز اور حب الوطنی کے عنوانات نمایاں ہیں۔ وہ دائیں بازو‘ بائیں بازو‘ جدت پسندی‘ قدامت پسندی کے مباحث سے بالاتر ہو کر اپنے مثبت نظریہ کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان کے افسانے‘ تنقیدی مضامین‘ تاثراتی مضامین اور اخباری کالم ابتذال اورانقباض سے پاک ہیں۔ پروفیسر خیال آفاقی کہتے ہیں کہ ہم عصر خواتین کالم نگاروں میں نسیم انجم کا پلڑا بھاری ہے موصوفہ کی تمام تحریری فکشن اور فیکشن کے اصولوں پر پوری اتری ہیں کیوں کہ یہ کالم نگار بھی ہیں اور ناول نگار بھی۔ ان دونوں شعبوں کا مزاج الگ ہے مگر نسیم انجم نے دونوں میں نام کمایا ہے۔ ان کے ہاں سادگی اور بے ساختگی ہے‘ ان کی نگاہ پوری دنیا کے حالات اور واقعات پرہے اور یہ بہت باریک بینی سے ان کا تجزیہ کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔ راقم الحروف نثار احمد نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ہر طبقے کے لیے مفید ہے کیوں کہ اس میں جو عنوانات ہیں وہ معاشرے سے جڑے ہوئے ہیں میں اس کتاب کی اشاعت پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بزمِ جہانِ حمد و نعت کا حمدیہ مشاعرہ
بزمِ جہانِ حمد و نعمت ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جو باقاعدگی سے حمد و نعت کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ یہ ادارہ طویل مدت سے طرحی مشاعروں کا اہتمام کر رہا ہے تاہم کورونا کے سبب لاک ڈائون میں یہ سلسلہ معطل ہوگیا تھا لیکن گزشتہ ہفتے گلستان جوہر میںشارق رشید کی رہائش گاہ پر محسن ملیح آبادی کی صدارت میں طرحی مشاعرہ ہوا جس میں ڈاکٹر شوکت اللہ جوہر‘ رونق حیات اور قمر وارثی مہمانان خصوصی تھے اور مہمان اعزازی جمال احمد جمال تھے۔ شارق رشید نے نظامت کی۔ تلاوتِ کلام پاک کی سعادت نعیم انصاری نے حاصل کی جب کہ سعدالدین سعد نے نعت رسولؐ پیش کی۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے حمدیہ کلام پیش کیا ان میں محمد طاہر سلطانی‘ آسی سلطانی‘ یامین وارثی‘ حامد علی سید‘ رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ عدنان عکس‘ نشاط غوری‘ نجیب قاصر‘ نعیم انصاری‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ محمد زبیر صدیقی‘ تنویر سخن‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ عقیل عباسی ایڈووکیٹ‘ وسیم احمد وسیم اور احسن قدیر شامل تھے۔ رونق حیات نے اپنے اشعار سنانے سے قبل اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈائون کے باعث زندگی کی سرگرمیوں کا ماند پڑنا ایک تکلیف دہ عمل تھا خدا کا شکر ہے کہ کورونا کا زور کم ہو گیا ہے اور زندگی بحال ہو رہی ہے تاہم احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں علم عروض کی پابندیاں لازمی ہیں ورنہ مصرع بحر سے خارج ہو جائے گا۔ آج ایک دو شاعروںکے کلام میں عروضی خامیاں پائی گئی ہیں اس کا سدباب ہونا ضروری ہے۔ رونق حیات کے مشورے کی تائید قمر وارثی نے بھی کی۔ صاحب صدر نے کہا کہ حمد و نعت کی محفلوں میں شرکت باعثِ ثواب ہے اپنے رب کی تعریف و توصیف کرنا عین عبادت ہے جو لوگ حمد و نعت کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کا مشاعرہ بہت کامیاب ہے جس کا سہرا طاہرسلطانی اور ان کے رفقا کو جاتا ہے۔ طاہرسلطانی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کا ادارہ دھیرے دھیرے ترقی کر رہا ہے ہمارے ساتھ جو لوگ تعاون کر رہے ہیں ہم ان کے مشکور ہیں تاہم مالی مشکلات کے باعث ہمارے بہت سے پروگرام متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حمد و نعت کہنا اس اعتبار سے مشکل بھی ہے کہ حمد و نعت میں جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مالک و رازق ہے ہم اس کی بندگی کرتے ہیں لیکن ہمیں محشر میں اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہوگا لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم شریعت پر عمل کریں‘ ہمارے تمام مسائل کا حل قرآن و سنت کی پیروی سے مشروط ہے۔