زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
راحت اندوری ابدی نیند سوگئے۔ انّا للہِ و انّا الیہ راجعون۔ صرف ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں راحت اندوری کے اشعار لوگوں تک پہنچ کر داد حاصل کرچکے ہیں۔ دلاور فگار نے شاعروں کے لیے کہا تھا …
سنا ہے مرنے کے بعد ان کی قدر ہوتی ہے
سو چند دن کے لیے ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
مگر راحت اندوری کو اللہ نے ان کی زندگی ہی میں شہرت، عزت اور بے پناہ دولت سے نوازا۔ 2012 میں کراچی کے عالمی مشاعرے میں راحت اندوری کو سننے کا اتفاق ہوا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب ناظمِ مشاعرہ نے راحت اندوری کو مائک پر آنے کی دعوت دی تو تالیوں کے شور سے مشاعرہ گاہ گونج اٹھی۔ سامعین ان کی شعلہ بیانی اور جذبات سے پُر کلام سے بخوبی واقف تھے۔
اور آتے ہیں جو محفل میں خموش آتے ہیں
آندھیاں اٹھتی ہیں جب حضرتِ جوش آتے ہیں
یقینا یہ شعر جوش نے اپنے لیے ہی کہا ہوگا مگر راحت اندوری جیسی شخصیت بھی ان کے ذہن میں ضرور رہی ہوگی۔ بات ہورہی تھی کراچی کے عالمی مشاعرے کی …درمیان میں جوش کا شعر آگیا‘ ہم واپس کراچی کی مشاعرہ گاہ میں آتے ہیں … راحت اندوری مائک پر تشریف لائے اور اپنے مخصوص انداز میں غزل پڑھنی شروع کی۔ اس غزل کا ایک شعر جس کی اس وقت میری تحریر کو ضرورت ہے حاضرِ خدمت ہے…
دوگز سہی مگر مری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کردیا
اور راحت اندوری سچ مُچ اپنے ہی شعر کی عملاََ تفسیر بن گئے۔
میں اپنی نوجوانی کے دور سے مشاعرے سنتا چلا آرہا ہوں۔ یہ میرا شوق ہے بہت سے شاعروں اور شاعرات کو سنا‘ ترنّم سے پڑھنے والوں کو بھی اور تحت اللّفظ پڑھنے والوں کو بھی مگر تحت میں راحت اندوری جیسا پڑھنے کا انداز میں نے کسی اور شاعر میں نہیں دیکھا۔ مصرعۂ اولیٰ اس انداز سے پڑھتے اور کئی مرتبہ اسے دہراتے کہ سامعین کے اندر ایک تجسّس پیدا ہوجاتا اور جب مصرعۂ ثانی پڑھتے تو بس تالیوں کے شور کے سوا کچھ اور سنائی نہیں پڑتا۔
’’اب کہاں ڈھونڈنے جائو گے ہمارے قاتل‘‘
یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ ایک شاعر کا قتل ہوا ہے اور وہ بھی دورِ حاضر کا ایک عظیم شاعر… قاتل کی تلاش ہے‘ اب قاتل کہاں ملے گا کون اسے تلاش کرے گا اور اگر قاتل مل بھی گیا تو سزا کون تجویز کرے گا… اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جو سامعین کے ذہنوں میں اس وقت تک گردش کرتے رہتے ہیں جب تک موصوفِ محترم دوسرا مصرعہ عنایت نہیں فرما دیتے۔
اسی مصرعہ کو کم از کم چار مرتبہ دہراتے، ہر مرتبہ لہجہ مختلف ہوتا۔ کبھی اونچی آواز تو کبھی مدّھم، کبھی بہت آہستہ تاکہ سامعین کو زیادہ سے زیادہ اپنے ذہن کو استعمال کرنے کا موقع مل سکے… اور ان کے تجسّس اور بے چینی کا پارہ بڑھتا ہی رہے مگر جب مصرعۂ ثانی سامعین کی سماعتوں تک پہنچتا ہے تو بس یوں سمجھ لیں کہ بم پھٹ جاتا ہے… ان کے سارے سوالوں کا جواب خلافِ توقع ملتا ہے…
’’آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو‘‘
لیجیے صاحب دوسرا مصرعہ آگیا اور اپنے ساتھ تالیوں کا وہ طوفان بھی لایا کہ تھمنے کا نام نہیں اس وقت تک جب تک شاعرِ محترم ہاتھ کے اشارے سے اسے روک نہ دیں۔ تو یہ ہیں راحت اندوری مشاعروں کے بے تاج بادشاہ۔ جس مشاعرے میں گئے اپنے زورِ قلم اور زورِ بیان کا لوہا منوا کر ہی لوٹے۔ حبّ الوطنی کے جذبے سے سرشار راحت اندوری کے اشعار نے ان کی ایک الگ پہچان بنادی…
میں جب مرجائوں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا
راحت اندوری کچھ عرصہ انڈین فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہے مگر وہاں کے فلم سازوں سے ان کی نہ بن سکی اور ’’تنگ آ کے آخر ہم نے دیر و حرم کو چھوڑا‘‘ فلم انڈسٹری چھوڑ دی ’’اور الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا‘‘ اور پوری توجہ مشاعروں پر دینے لگے ۔ مشاعروں میں جانے کا سلسلہ ایسا تھا کہ جب گھر سے نکلتے تو گھر والوں کو بھی پتہ نہ ہوتا کہ واپسی کب تک متوقع ہے۔
راحت اندوری کی شاعری کی ایک خاص بات کہ ان کے اشعار میں مشکل اور ثقیل الفاظ کا استعمال بہت کم ہے‘ سادے الفاظ میں بڑی بات کہنا جو سامعین کی عقل میں آسانی سے آجاتی ہے اسے لغت کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ وہ عوام کے شاعر تھے ان کی شاعری عوام کے دل کی آواز ہوا کرتی تھی‘ بقول مرزا غالب…
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
راحت اندوری دنیا سے رخصت ہوگئے مگر اپنے پیچھے جو کلام چھوڑ گئے وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ را ہ ہے‘ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے کہ ان کے خوابوں کو جذبۂ بیداری دے گئے‘ گویا ان کے ہاتھوں میں تلوار دے گئے…
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتّے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
مومن باہر سے چاہے کیسا بھی ہو مگر اس کے اندر محبت کا جو جذبہ ہوتا ہے اپنے اللہ اور اس کے رسول ؐکے لیے اسی کا نام ایمان ہے اور یہی ایک مومن کی پہچان ہے۔ راحت اندوری کا جذبۂ ایمانی ان کے ایک شعر سے عیاں ہے…
مرے اندر سے ایک ایک کرکے سب کچھ ہوگیا رخصت
مگر ایک چیز باقی ہے جسے ایمان کہتے ہیں
احمد آباد کا فساد کوئی زیادہ پرانی بات تو نہیں ہے چند سال قبل کا ایک سانحہ‘ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب جس نے راحت اندوری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ تلملا اٹھے۔
قلم والو سیاسی ظلم کی روداد لکھ دینا
قیامت جب بھی لکھنا ہو تو احمد آباد لکھ دینا
ایک اچھا شاعر معاشرے کی ناہمواریوں پر گہری نظر رکھتا ہے وہ حد سے زیادہ حسّاس ہوتا ہے اس کے دل میں اپنے لوگوں کے لیے ہمدردی ہوتی ہے اس کی حتّی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ خامیوں کا ازالہ ہوسکے ۔ راحت اندوری کے سینے میں بھی اپنے لوگوں کے لیے درد تھا معاشرے کے بگڑتے ہوئے حالات پر تنقید کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔
جو جرم کرتے ہیں اتنے برے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے
حکمرانوں کے خلاف جب بھی کہا ڈنکے کی چوٹ پر کہا نہ انہیں کوئی خوف تھا اور نہ کسی کی پروا۔ نڈر ہوکر کہا کرتے تھے …
دلیر اس قدر کے حکمرانوں کے خلاف کیا طنز آمیز شعر کہہ گئے …
اپنے حاکم کی فقیری پہ ترس آتا ہے
جو غریبوں سے پسینے کی کمائی مانگے
یکم جنوری انیس سو پچاس کو بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے شہر اندور کے ایک بہت ہی غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا راحت قریشی‘ راحت اندوری کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہوگیا، کیا امریکا اور کیا انگلینڈ کوئی بھی ایسا ملک جہاں اردو بولنے والے ہوں وہاں راحت اندوری کے قدم ضرور پہنچے۔راحت اندوری کی زندگی کی پہلی ہمسفر بھوپال سے تعلق رکھنے والی اس وقت کی ابھرتی ہوئی شاعرہ انجم رہبر تھیں۔ پانچ سال تک یہ خوبصورت ساتھ رہا مگر اس کے بعد راہیں جدا جدا ہو گئیں۔ دوسری ہمسفر سیما راحت تھیں جنہوں نے راحت اندوری کا آخری وقت تک ساتھ دیا۔ ستلج اندوری بڑے صاحب زادے ہیں شاعری کے جراثیم ان کے اندر قدرتی طور پر موجود ہیں۔ اندازِبیان میں راحت اندوری کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے راحت اندوری کو عزّت کے ساتھ بے انتہا دولت سے نوازا۔ انتقال کے وقت اپنے پیچھے کوئی پچاس کروڑ مالیت کے اثاثے چھوڑ گئے۔ کاش میر تقی میرؔ اور مرزا غالبؔ کی قسمتیں بھی اللہ میاں نے راحت اندوری جیسی بنائی ہوتیں تو مرزا کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ…
’’ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں کھائیں گے کیا‘‘
مرزاغالب نے کہا تھا …
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے
اللہ کے پیارے نبیؐ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ہر کسی کا اپنا اپنا انداز ہے… راحت اندوری نے بھی اپنے انداز سے پیارے نبیؐ کی شان میں اشعار کہے ہیں ملاحظہ ہوں…
زم زم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبیؐ آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحتؔ
آپؐ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا
راحت اندوری کی غزل کے وہ تین اشعار جس کی سارے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر ساری دنیا میں جتنی شہرت ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جسے شعر و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اردو ٹھیک سے بول سکتا ہے مگر اسے بھی اس غزل کا آخری شعر ذہن نشین ہے۔
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں مالک مکان تھوڑی ہیں
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
اور آخری شعر…
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹّی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
نڈر بے باک سچ کہنا سچّائی پہ قائم رہنا اپنے پیکرِ خاکی میں جان رکھنا‘ نگہ بلند سخن د ل نواز راحت اندوری کی…’’ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘