اخبار پڑھیں یا ٹی وی کی نشریات دیکھیں، ہولناک اور اندوہناک واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں جس سے حساس لوگ ہی نہیں بلکہ ہر ایک کرب کا شکار ہوجاتا ہے… بلکہ یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اس قسم کے واقعات نے لوگوں کو ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار کردیا ہے۔ کبھی معصوم زینب کا دل ہلا دینے والا واقعہ، کبھی مروہ، تو کبھی کسی ماں کی بچوں کے سامنے زیادتی کا واقعہ، کبھی کسی نوبیاہتا دلہن کے قتل کا واقعہ، کبھی ڈاکٹر ماہا کی خودکشی، کبھی ڈاکوئوں کے ہاتھوں سرِ عام نوجوان کا قتل… غرض کہ اسی قسم کے سینکڑوں واقعات آئے دن سننے کو ملتے ہیں۔ چند دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو ایسے واقعات اور حادثات یہ تو نہیں کہوں گی کہ بالکل پیش نہیں آتے تھے، لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ بہت کم سنائی دیتے تھے۔ آج ان واقعات میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، جو ہم سب کے لیے لمحہِ فکریہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے عذاب کو بھی دعوت دے رہا ہے۔ حساس لوگ اس پر غور و فکر کرتے نظر آتے ہیں کہ ایسے واقعات کے رونما ہونے یا ان میں دن بدن اضافے کی وجوہات کیا ہیں۔
مجھ ناقص العقل کی رائے کے مطابق جو وجوہات دماغ کے دریچوں پر نمایاں ہورہی ہیں یقینا آپ میں سے اکثر ان سے متفق ہوں گے۔
سب سے اہم وجہ جو اس تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کررہی ہے، وہ ہے ’’دینی تعلیمات‘‘ سے دور ہونا۔ میرا دین تو ضابطۂ حیات ہے، معاشرتی زندگی کو استحکام اور خوبصورتی بخشنے کے لیے نایاب اصول و ضوابط کی تعلیم دے رہا ہے۔ جہاں عورت کو شرم و حیا، ستر پوشی اور حجاب کی تعلیم دے رہا ہے، وہیں مرد ذات کو بھی نظریں جھکائے رکھنے کی تلقین کررہا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے مقام سے ہم سب واقف ہیں، اسلام نے عورت کو حقارت کی منزلوں سے نکال کر گھر کی ملکہ بناکر اسے تعلیماتِ اسلامی سے تحفظ بخشا۔ آج صرف دین کے اس ایک نقطے کو ہی اپنی ذات میں آراستہ کرلیں تو یقینا ان واقعات میں کمی آسکتی ہے بلکہ ختم ہوسکتے ہیں۔ مذہب اسلام کا کلمہ پڑھنا کافی نہیں، بلکہ اپنے آپ کو مکمل حدودِ اسلامی میں ڈھالنے سے ہی معاشرے میں پاکیزگی آسکتی ہے۔ مرد ہو یا عورت، اسلام کے دائرے میں رہ کر دل میں خوفِ خدا کی وجہ سے ہر چھوٹی یا بڑی برائی اور بدی سے اپنے آپ کو بچائے گا تو ہر ایک کو معاشرے میں تحفظ حاصل ہوگا۔ آج نہ صرف عورتوں اور بچوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے بلکہ مردوں کا بھی۔ کچھ مائوں نے بتایا کہ ہم نے بچوں کی اسکول وین چھڑوا دی ہے کیونکہ اب ہمیں کسی پر اعتبار نہیں رہا، ہم اسکول وین پر بھی بھروسا نہیں کرسکتے۔ کیا یہ اسلامی ملک ہے؟ آج اگر ہمارے ملک میں اسلامی نظام قائم ہوتا تو اس قسم کے واقعات پیش نہ آتے، سرِعام ایسے وحشی درندوں کو پھانسی دی جاتی تو دوسرے عبرت پکڑتے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اسلامی شریعت و تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ یہ اسلامی نظام کی طاقت ہی تو تھی کہ سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانے کے لیے مشہور ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔
دینِ اسلام نے اُن جرائم پر سزائیں مقرر کی ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً چوری، بدی، بدکاری، بے حیائی، شراب نوشی، اغوا، زنا، ڈکیتی، لوٹ مار، رشوت، بہتان وغیرہ… اور یہ وہی جرائم اور برائیاں ہیں جنہوں نے آج ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور جن میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ چند دہائیاں پہلے سعودی عرب میں مکمل اسلامی نظام قائم تھا جس کی وجہ سے وہاں مجرموں کو سرِ عام سزائیں دی جاتی تھیں جس کی وجہ سے وہاں جرائم بالکل نہ ہوتے تھے، لیکن اب وہاں بھی نرمی برتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔
خدا کے ان قوانین کو نافذ کرنا حکومتِ وقت کا فرض ہے، اور ملک میں اہم اداروں اور عمل داروں کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اس اہم فریضے کو ایمان داری سے انجام دینے کے اہل ہیں یا نہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو جب ایک عملدار کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں بھی اس کے ساتھ کام کرچکا ہے تو آپ نے اسے اس عہدے سے یہ کہہ کر ہٹادیا تھا کہ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کے ساتھ کام کرچکا ہے۔ روایات اور واقعات سے واضح ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے چاہے مجرم ان کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو، سزائیں دلوائی ہیں۔ یہ واقعات ہی دوسروں کے لیے باعثِ عبرت تھے۔ آج نہ حکمران اور نہ وہ عملدار ہیں، نہ ہی والدین کی وہ تربیت ہے جو ان جیسے سپوتوں کو پروان چڑھائے۔ 70 فیصد والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی جوان اولاد گھر سے باہر کیا کارنامے سر انجام دے رہی ہے۔ آج چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے جس کے منفی اثرات معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے جانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ہماری نئی نسل ان دجالی فتنوں کی گرفت میں ہے۔ چاہے غریب ہو یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا، ہر ایک اس دجالی فتنے کی لپیٹ میں آگیا ہے، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ غریب بارہ سالہ کزن نے اپنی معصوم چھ سالہ کزن کو ہوس کا نشانہ بنایا۔ صرف چند دن ایسے واقعات پر شور مچانا کافی نہیں، اس کا سدِباب ہونا چاہیے۔ معاشرے میں ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو پاکیزگی کی زندگی نہ صرف گزار رہے ہیں بلکہ آواز بھی اٹھا رہے ہیں، لیکن حکم و آواز کے ساتھ ساتھ اس کے سدباب کے لیے ہر متعلقہ فرد اور محکمے کو اپنا کردار انجام دینا ہوگا۔ گھروں میں والدین کو بھی اپنی ذمہ داریاں خلوص و ایمان داری سے انجام دینا ہوں گی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں قرآن و حدیث کو شامل رکھنا ہوگا۔ میں بار بار ایک بات دہراتی ہوں کہ والدین اپنے بچوں کو برائیوں سے بچنے کی تلقین کریں، احساس دلائیں کہ بدی کے ہر کام پر رب کے سامنے جواب دہی ہوگی۔ میں نے دیکھا ہے کہ والدین کی ایسی تربیت بچوں کو ہر قدم اٹھاتے ہوئے احساس دلاتی ہے کہ آیا ہم کوئی غلط کام یا گناہ کی طرف تو نہیں جا رہے ہیں جس کی وجہ سے آخرت میں ہماری پکڑ ہو! اور یقین رکھیں ایسے بچے آگے چل کر نہ صرف اپنے آپ کو بدی کے کاموں سے بچاتے ہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع بھی کرتے ہیں۔ میرا بیٹا عبداللہ ایک دن آفس کی گاڑی گھر لے آیا کیونکہ ڈرائیور چھٹیوں پر گیا ہوا تھا۔ وہ گاڑی پر صبح آفس کے چند ساتھیوں کو لیتا ہوا جاتا، واپسی پر ان کو چھوڑ کر گھر آتا۔ ایک دن اسے کہیں جانا تھا، اس کے بابا نے کہا کہ آفس کی گاڑی پر جائو گے؟ اس نے کہا کہ بابا یہ گاڑی اور اس کا پیٹرول صرف آفس جانے کے لیے ہی استعمال کرنے کے لیے دیے گئے ہیں، میں اپنی ذاتی مصروفیت میں اسے استعمال کرکے خیانت نہیں کرسکتا۔ مجھے اپنے بیٹے کی اس ایمان داری پر فخر محسوس ہوا اور آنکھوں میں نمی آگئی کہ یااللہ یہ بچے اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھنے کے اہل ہوگئے ہیں۔
لہٰذا میں ان سطور کے ذریعے اپنے ساتھیوں اور قارئین کو یہ ضرور کہوں گی کہ آج کی اہم ضرورت ہے اسلامی تعلیم اور نظامِ شریعت کا نفاذ، والدین کی تربیت، بچوں کو وقت دینا، اسلامی تعلیمات سے ان کو آگاہ کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرنا… اور خدارا بچوں کی پہنچ سے یہ دجالی فتنہ یعنی موبائل دور رکھیں، کیونکہ بہت چھوٹی چھوٹی عمروں میں جبکہ انہیں صحیح اور غلط کی تمیز بھی نہیں، وہ اس موبائل پر بہت کچھ دیکھتے اور اپناتے ہیں۔ میرے پاس ایک ماسی اپنی چودہ سالہ بھتیجی کے ساتھ کام کرنے آتی تھی۔ بچی بڑی معصوم اور صاف ستھری تھی۔ پتا چلا کہ اسے ملازمت کی ضرورت نہیں، اس کے تینوں بھائی اور والدین محنت مزدوری کررہے ہیں اور گزارا ہورہا ہے۔ چند ماہ کے بعد اس لڑکی نے اپنی کمائی سے ایک موبائل خرید لیا۔ ایک آدھ مہینے میں ہی اس موبائل کے اثرات اُس کی شخصیت میں نمایاں نظر آنے لگے، اُس کے طور طریقے مکمل بدل چکے تھے۔ وہ صبح آتی تو اس کی آنکھیں سوجی ہوتیں جیسے رات بھر وہ سوئی نہ ہو، کام میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔ میں نے اس کی پھوپھو سے کہا: اس بچی کا خاص خیال رکھو۔ اس نے کہا کہ ہاں وہ دیر گئے موبائل پر فلمیں وغیرہ دیکھتی رہتی ہے۔ خیر ایک آدھ مہینے میں وہ دونوں کام چھوڑ کر چلی گئیں۔ اس واقعے سے اندازہ لگائیں کہ یہ زہر کس طرح بچوں کی زندگیوں میں سرایت کرسکتا ہے اور اس کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں… دنیا بھی برباد اور آخرت بھی…
دنیا کی اس ناپاکی سے آخرت کی بربادی کے بارے میں احادیث سے واضح ہے، بلکہ ایسے ہی گناہ رب کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔
حضرت معاذؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’خود کو گناہوں سے بچائو، اس لیے کہ گناہ کے ارتکاب سے خدا تعالیٰ کا غضب اترتا ہے‘‘۔
جبکہ گناہوں سے بچنے والوں کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور جو لوگ بچتے ہیں کبیرہ گناہوں سے اور بے حیائی سے، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں، اللہ ان کو قیامت کے دن معاف کردے گا، بخش دے گا۔‘‘
قرآن پاک کے بے شمار ارشادِ باری تعالیٰ اور احادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ یہ مذکورہ بالا گناہ معاشرے کو زہر آلود بناتے ہیں، ایسے ہی گناہوں کی بدولت کسی کی زندگی و آبرو کو تحفظ حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے لیے اور ہر انسان کو چاہے وہ عورت ہو، مرد یا معصوم بچے… انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا، ہر ایک کو اپنی ذمہ داری ایمان داری سے انجام دینا ہوگی۔
خدارا میری اس ارضِ وطن کو سلامت رکھ، اس دھرتی پر رہنے والے ہر شخص کو عزت و آبرو کے ساتھ رکھ (آمین ثم آمین یارب العالمین)۔