ہاجرہ میری دوست ہے، اس کی اکلوتی بیٹی ثنا نے جب ایم اے کرلیا تو اس کی شادی کی فکر ہوئی، ہاجرہ نے مجھ سے ذکر کیا۔ اپنے جاننے والوں میں ایک دو اچھے رشتے تھے، میں نے تعارف کرا دیا۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے ملے۔
ہاجرہ مجھے بتاتی رہی کہ اشتیاق صاحب واپڈا میں ملازم تھے، اچھے لوگ ہیں، ہم غور کررہے ہیں، ان کا بیٹا بھی واپڈا میں ملازم ہے۔ میں نے دعا دی، خدا خیر کرے۔
ایک دن ثنا کا فون آیا ’’خالہ جان مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’بولو چندا، میں سن رہی ہوں۔‘‘
’’نہیں ایسے نہیں، آپ میرے ساتھ چلیں، ہم کہیں باہر پارک میں جاکر بیٹھیں گے۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی! تم میرے گھر آجائو، میں ادھر جارہی ہوں، واپسی پر پک کرلوں گی۔‘‘
’’جی بہت اچھا… ‘‘ ہم گھر آئے، میں نے صغرا کو آواز دے کر کہا ’’جوس کا گلاس لے آئو۔ ہاں اب کہو کیا بات ہے؟‘‘
وہ بولی ’’میرے ساتھ یونیورسٹی میں ایک لڑکا تھا ثمر، ہماری دوستی تھی، لیکن بس کچھ خاص نہیں۔ میں نے کبھی اسے اہمیت نہیں دی، مگر اب اس کے اصرار پر دوچار ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ اپنے والدین کو میرے گھر رشتے کے لیے بھیجنا چاہتا ہے، آپ مشورہ دیں میں کیا کروں؟‘‘
میں نے ایک لحظہ توقف کیا۔ ’’تم اسے اور اس کے خاندان کو کتنا جانتی ہو؟‘‘ میرا پہلا سوال تھا۔
’’بس ٹھیک تھا، پڑھاکو تھا، اس کا کوئی اسکینڈل کبھی نہیں بنا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے شریف تھا، اور دین داری…؟‘‘
’’اس کے بارے میں مجھے کچھ اندازہ نہیں۔‘‘
’’اور اخلاق… مثلاً سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، کسی کا مذاق نہ اڑانا، شائستگی، لباس…؟‘‘
’’ان باتوں کا شادی سے کیا تعلق ہے؟‘‘ وہ چیں بہ چیں ہوکر بولی۔
’’بالکل ہے، ان سے تو گھر کی بنیاد بنتی ہے۔ اس کے پاس جاب ہے؟‘‘
’’ہاں کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ہے، فی الحال 50,000، بعد میں پروموشن کے امکانات بھی ہیں۔‘‘
’’تم اسے پسند کرتی ہو؟ اور تمہارا خیال ہے کہ وہ اچھا جیون ساتھی ثابت ہوگا؟‘‘
’’ہاں خالہ جانی! اس نے وعدے تو خوب کیے ہیں۔‘‘
’’پھر تم اس کے والدین کو گھر آنے دو، دیکھو تمہارے امی ابو کیا فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
’’میں چاہتی ہوں آپ میری سفارش کریں۔‘‘
’’جب تمہاری امی مشورہ لیں گی تو میں کہہ دوں گی، فکر نہ کرو، چلو اب کھانا کھائیں۔ پھر میں تمہیں چھوڑ آئوں۔‘‘
…٭…
ثمر کے والدین آئے، ان کو لڑکی پسند آگئی اور خاندان بھی… مجھ سے ہاجرہ نے پوچھا، میں نے بھی تائید کردی۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں، دھوم دھام سے شادی ہوگئی، میں واپس آسٹریلیا چلی گئی۔ وہاں ہاجرہ کا فون آیا کہ ثنا خوش نہیں ہے، تم اس سے بات کرو۔
میں نے پوچھا ’’بات کیا ہے…؟‘‘
’’تم خود پوچھ لو… وہ فون کرے گی۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ثنا کا فون آگیا۔ کہنے لگی کہ ’’وہ بہت زیادہ اپنی والدہ پر انحصار کرتا ہے، ہر بات اپنی ماں سے پوچھ کر… اس کی اپنی نہ کوئی رائے ہے، نہ فیصلہ کرنے کی جرأت ہے۔ اس کی ساری شاپنگ اس کی امی کرتی ہیں۔ اسے کیا کھانا ہے، کہاں جانا ہے اس کا فیصلہ بھی وہی کرتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں تو بس فالتو ہوں، حتیٰ کہ بال کب کٹوانے ہیں اور کیسا اسٹائل ہونا چاہیے۔ اور ہمارا کوئی خاص تعلق بھی نہیں بن سکا۔ خالہ جان مجھے لگتا ہے وہ چھوٹا بچہ ہے، بڑا ہی نہیں ہوا، اس کے ساتھ زندگی کیسے گزرے گی!
میں اس سے جو بات کروں وہ ماں کو بتادیتا ہے، پھر ناشتے کی میز پر اس کا ذکر کرتی ہیں تو میں شرمندہ ہوجاتی ہوں۔ سخت کنجوس لوگ ہیں۔ میرا دل تنہائی سے گھبراتا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’پریشانی کی بات نہیں، اسے سائیکالوجسٹ کے پاس لے جائو۔ جن بچوں کو بچپن میں بہت زیادہ توجہ ملتی ہے وہ ایسے ہوجاتے ہیں۔ ان شاء اللہ علاج سے ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
وہ بولی ’’اس کے باقی بھائی تو ٹھیک ہیں، وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔‘‘
میں نے تسلی دی اور علاج کا مشورہ دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ اپنی امی سے کہو کہ تمہاری ساس سے مل کر باقی مسائل گفتگو سے حل کرلیں۔
اس کے بعد کوئی خبر نہ ملی کہ کیا ہوا۔ دو ماہ بعد پتا چلا کہ طلاق ہوگئی ہے۔ افسوس ہوا، بڑی پیاری لڑکی تھی اور شادی پر بہت زیادہ اسراف بھی ہوا تھا۔
یہ تو ایک مثال تھی، زیادہ تر یہ ہوتا ہے:۔
غمِ آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتائوں
میرے شوق کی بلندی میری ہمتوں کی پستی
-1 پہلی غلطی: والدین نے درست طریقے سے تحقیق نہیں کی اور بیٹی کی پسند پر بھروسا کرلیا۔
-2 دوسری غلطی: ساس کا رویہ… انہوں نے دھوکا دیا۔ جب بیٹا ذہنی طور پر نارمل نہیں ہے تو دوسرے فریق کو مطلع کریں اور پہلے اس کا علاج کرائیں۔
-3 تیسری غلطی: آپ دوسروںکی بیٹی بیاہ کر لاتے ہیں تو اسے ’’بہو‘‘ نہیں اپنی بیٹی سمجھیں، اس طرح اُس کی بہت ساری باتیں آپ کو تکلیف نہیں دیں گی۔
بہو کو خاندان کا سب سے معزز فرد سمجھا کریں۔ گھر کے کام تو ہوتے رہتے ہیں۔
-4 چوتھی غلطی: کبھی بھی طلاق لینے میں جلدی نہ کریں۔ افہام و تفہیم سے کام لیں۔ بات چیت کریں، غصہ نہ دکھائیں۔ طلاق آخری حربہ ہے، اور حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ ہے۔
جونہی طلاق واقع ہوجاتی ہے عدت پوری ہوتے ہی دوبارہ لڑکی یا لڑکے کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ اگر ساتھ بچے ہوں تو خدارا یہ سوچیں کہ اُن کا کیا قصور ہے؟ وہ تو ماں اور باپ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اُن سے آپ نارمل زندگی نہ چھینیں۔ کچھ کم و بیش پر گزارہ کرلیں۔ کبھی میاں کا مزاج خراب ہے مار پٹائی… کبھی خاتون لاپروا ہے، فضول خرچ ہے، نا فرمان ہے… اور جدائی تک معاملہ جا پہنچتا ہے۔
آج کل طلاق اور خلع کے جتنے مقدمات فیملی کورٹ میں ہیں ایسا نصف صدی میں نہیں ہوا تھا۔ جذباتی فیصلے ہمیشہ دودھ کا ابال، دو تین تلخ و ترش باتیں اور رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کو اٹوٹ بنائیں۔