’’وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔ شعور کی حدود میں قدم رکھتے ہوئے اسی احساس نے ہمیشہ ایک فخر و انبساط عطا کیا کہ واقعتاً جس گھر میں صنفِ نازک ماں کی صورت جنت اور بیٹی کی صورت میں نعمت جس کو عطا ہوجائے وہ گھر آسمان پر دمکتے ستارے کی مانند اور دنیا میں جنت کی مانند ہوتا ہے، اور معاشرے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
میاں بیوی ہی آپس کے رشتے کو مربوط اور مضبوط رکھ سکتے ہیں۔ گھر بنانے میں دونوں کا کردار اپنی اپنی جگہ اہم اور ذمہ دارانہ ہے۔ اگر عورت دینی مزاج لیے ہوگی تو گھر کے بچوں اور دیگر افراد کی تربیت دینی خطوط پر ہوگی، اور یہ کام وہ اس وقت ہی کرسکتی ہے جب کہ مرد اس کا معاون اور مددگار ہو۔
صنفِ نازک طبعاً اور فطرتاً کمزور مخلوق ہے لیکن اس کا وجود خاندان کے لیے کسی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت خاندان کی تعمیر و تشکیل میں ستون کا کردار ادا کرتی ہے جو کہ معاشرے کے لیے اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت تہذیبوں کا ستون ہے۔ اسلام کے مجموعہ قوانین میں عورت کی اس حیثیت کو متعین کرتے ہوئے سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ وہ عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے ہی سے ہو۔‘‘
امر واقع یہ ہے کہ اس ستون کی بنیاد اس گھر، اس پُرسکون و محفوظ ماحول میں ہے جہاں مرد قوام کی حیثیت سے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرے اور عورت اپنے مقام و مرتبے کو پہچانتے ہوئے دل کی خوشی کے ساتھ اپنے حصے کا کام انجام دیے۔
مرد کو قوام، نگہبان، نگران، ذمہ دار یعنی عورت کے تحفظ کے لیے ایسا سائبان بنا دیا ہے کہ جو اسے باپ بن کر تحفظ دے، شوہر بن کر محبت کا معمار بنے، اور بیٹے، بھائی کی صورت میں ایک ایسی پناہ گاہ فراہم کرے جو اسے ہر طرح کی فکر سے آزاد کرکے صرف اپنے خاندان کی تعمیر اور بقا کے لیے فعال کردے۔ اور جب اس قانونِِ قدرت کے خلاف عمل ہوتا ہے تو بگاڑ آتا ہے۔ قدرت اپنی طے شدہ سنت پر عمل کرتی ہے، وہ ہماری خواہش کی پابند نہیں۔ سوسائٹی کے قیام و انتظام کی جو ذمہ داری عورت کو قدرت نے سپرد کی ہے اس میں اگر تنگی پیش آئے گی تو نتیجے میں معاشرت مصائب و آلام کا شکار ہوکر مسخ ہوجائے گی۔ مرد اور عورت کا باہمی محبت کا سرچشمہ مکدر ہوجائے گا اور کائنات میں یہ دونوں جنس آج جس طرح سے مل جل کر مسرت بخش زندگی بسر کررہی ہیں وہ بالکل مفقود ہوجائے گی۔
عورت کا آہنی حصار دینِ فطرت اسلام ہے، جس نے عورت کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ کیا اور ذلت و بے حیائی کی دلدل سے نکال کر عزت و احترام کے اعلیٰ مقام پر بٹھایا، اسے خوب صورت آبگینے قرار دیا۔ عورت انمول موتی کی طرح ہے جس میں شرم و حیا مردوںکے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے، اور یہی شرم و حیا اسلام کی پہلی ترجیح ہے، جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہے کرو۔‘‘
عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیتے ہوئے اسے آنے والی نسل کی تربیت جیسی اہم ذمہ داری سونپی تو مرد کو معاش اور بیرونی معاملات کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’مرد جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گے، اور عورتیں جیسے عمل کریں گی ان کا پھل وہ پائیں گی۔‘‘
مرد اگر ابراہیم بن ادھم بن سکتا ہے تو عورت کو بھی رابعہ بصری بننے سے کوئی شے نہیں روک سکتی۔ اسلام کے نزدیک عورت ایک شمع ہے جو بدتہذیبی کے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کرسکتی ہے۔