فیس بک کی گزشتہ پوسٹ پر ڈاکٹر خورشید عبداللہ صاحب نے عبید اللہ علیم کا ایک فقرہ کمنٹ میں لکھا جو اس زمانے کے جعلی شاعروں کے لئے تھا کہ ” اکثر لوگ جو بہت طمطراق سے مشاعروں اور اسٹیج پر نظر آتے ہیں ، یہ سب ملک ادب کے ناجائز شہری ہیں، ان میں سے کسی کے پاس اقامہ ، ویزا ، پاسپورٹ نہیں ہے.”
اس کا ایک صاف مطلب یہ ہے کہ ادب میں “ایلیئنز” ہر دور کا مسئلہ رہے ہیں اور یہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں اردو شعر کہا جاتا رہا وہاں موجود رہے۔ مجھے یاد ہے اور اس بات کی گواہی کے لئے بہت سے دوست موجود ہیں کہ بیس برس پہلے خلیجی ملک بحرین میں ایک “شاعر” ہوا کرتے تھے جو بڑے دھڑلے سے امجد اسلام امجد کی غزل اپنے نام سے سنایا کرتے تھے اور داد وصول پاتے تھے، ان کا ایک بڑا مضبوط گروپ تھا جو بین الاقوامی مشاعرے کرایا کرتا تھا اور ایک عالمی مشاعرے میں تو ان “شاعر” صاحب نے سلیم کوثر کی موجودگی میں اسٹیج پر امجد کی وہ غزل اپنے نام سے سنائی، اب بے چارے سلیم کوثر کیا کرسکتے تھے، سوائے ٹھنڈی آہ بھرنے کے۔ وہ شاعر موصوف کئی برسوں سے امجد کہ غزل سناتے چلے آ رہے تھے، پھر اسی خاکسار نے وہاں ان کی چوری پکڑی اور شہر بھر میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ بحرین کی کئی سرکردہ ادبی شخصیات اور شعراء جن میں معظم سعید، رخسار ناظم آبادی، احمد امیر پاشا، طاہر عظیم، مختار عدیل، ریاض شاہد اور اقبال طارق میں سے اکثر آج فیس بک پر موجود ہیں اور اس بات کے گواہ ہیں۔ ہم نے جب بحرین میں ان موصوف کے خلاف بھرپور انداز میں آواز میں اٹھائی تو یہ ضرور ہوا کہ ان کی انجمن کے علاؤہ دوسری انجمنوں نے انہیں مشاعروں اور نشستوں میں مدعو کرنا بند کردیا۔ اللہ جنت نصیب کرے مرحوم سعید قیس ایسے شاعروں کو پنجابی میں ایسی ” خوبصورت گالیوں” سے نوازتے تھے کہ دل باغ باغ ہوجاتا تھا۔
باقی دنیا کی طرح میڈ ان چائنا ادبی ایلینئز کا یہ سلسلہ شہر قائد میں بھی موجود ہے، جہاں ایسے لوگ اپنی کوئی ادبی تنظیم بنا کر اہل ثروت تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے شعری نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد کرکے اپنی الٹی سیدھی شاعری سنا کر شہر کی ادبی شناخت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کئی تو ایسے ہیں جو باقاعدہ استاد بن جاتے ہیں، یہ اور بات کہ ان کے شاگرد اپنی بے وزن شاعری کی وجہ سے پکڑنے جانے کے بعد اپنے استاد کی حققیت بھی کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
ایسے ہی ایک شاگرد رشید کا ذکر جب ہم نے اپنی پچھلی پوسٹ میں کیا تو ان کے استاد ظاہر ہوئے اور پھر معلوم ہوا کہ شاگرد تو شاگرد استاد بھی بے بحرے ہیں، اور نہ صرف بے بحرے ہیں بلکہ مشہور شاعروں کے اشعار پر ہاتھ بھی صاف کر جاتے ہیں۔
جی ہاں ذکر ہے شائق شہاب کے استاد محترم جناب سخاوت علی نادر کا، استاد نگارِ ادب کے نام سے کراچی میں ایک تنظیم کے روح رواں ہیں جس کے جنرل سیکریٹری شائق شہاب ہیں۔ استاد گاہے بگاہے اپنی تنظیم کے تحت مشاعرے اور نشستیں بھی منعقد کرتے ہیں اور شعر سنا سنا کر فلک شگاف ڈاڈ (داد) وصول کرتے پائے جاتے ہیں۔۔ استاد کی استادی کا یہ حال ہے کہ بے وزن شاعری تو خیر اپنی جگہ، جب وہ مشاعرے میں شعر پڑھتے ہیں تو اکثر ان کے پڑھنے کا انداز بتلا دیتا ہے کہ استاد کے بھی کوئی استاد ہیں جو استاد کو لکھ کر دیتے ہیں، اور ان سے وہ درست طریقے سے پڑھا بھی نہیں جاتا۔
استاد سخاوت علی نادر عوامی سطح پر تو ہرگز مقبول نہیں کیوں انکے اشعار پر لائکس کی تعداد بیس، تیس چالیس سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن شہر کے ادبی حلقوں میں خاصے مشہور ہیں، اور شہر میں “ساٹھ کی عمر” سے اوپر کے “مخصوص شعراء” میں استاد کا اپنا ایک مقام ہے۔
بقول استاد وہ سن 70 سے شعر کہہ رہے ہیں اور ساکنان شہر کے مشاعرے کی صدارت کے اصل حقدار وہی ہیں۔
استاد کی استادی کا یہ عالم ہے کہ فاعلاتن مفاعلن فعلن کی بحر میں جب کلام کہتے ہیں تو پیچ کے رکن کو اپنے بھاری بھرکم بازوؤں سے ایسا گرفت میں لیتے ہیں کہ بیچارہ رکن ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہے اور کہتا ہے استاد دم گھٹ رہا ہے جس طرح چاہے استعمال کرلو، لیکن میری جان چھوڑ دو۔۔۔ملاحظہ فرمائیے
میرے اندر کے بھید کھولتے ہیں
مجھ میں گزرے زمانے بولتے ہیں
جو بھی کہنا ہو کہہ گزرتے ہیں
اپنے الفاظ وہ کب تولتے ہیں
بے حجابانہ یوں نہ آیا کریں
دین داروں کے چلن ڈولتے ہیں
پچھلے دنوں گلنار آفرین کراچی آئیں تو ان کے اعزاز میں شعری نشست میں استاد نے اپنا کلام پیش کیا اور پھر ایک مصرعے میں “حساب” تک آتے آتے استاد ایسا لڑھکے کہ شعر کا سارا حساب کتاب ہی خراب کردیا۔ ملاحظہ فرمائیں
ہم یہ کہتے ہیں کہ اک دن تو حساب ہونا ہے
ہم نہ باز آئیں گے یہ اہل ستم بولتے ہیں
استاد پچاس برس کی شعری ریاضت کے بعد نہ اور نا کا فرق بھی نہ سمجھ پائے۔ شعر دیکھیں
آستینوں میں لگا خون کہاں چھپتا ہے
لوگ نہ بولیں تو خود ظلم و ستم بولتے ہیں
استاد چونکہ فون پر کسی سے سن کر شعر درج کرتے لہذا اکثر “میرا کو مرا، اور مرا کو میرا” باندھ جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کی شاعری میں جگہ جگہ نظر آتا ہے کیونکہ ایک آدھ جگہ ہو تو ہم ٹائپو سمجھ سکتے ہیں۔ پھر استاد کی وضع داری کا یہ عالم ہے کہ شعر میں لاکر ساری وضع داری کا بیڑا غرق کرلیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
یہ مرا عظمت کردار یہ وضع داری
زمانہ جانتا ہے وصف خاندانی ہے
استاد سخاوت علی نادر کی سخاوت کا عالم اس قدر نادر ہے کہ وہ ردیف کو کسی طور خاطر میں نہیں لاتے ۔۔ ظاہر ہے چونکہ اساتذہ عیب ردیفین کو بڑا عیب گردانتے رہے ہیں تو استاد سخاوت تک آتے آتے یہ عیب نادر ہو جاتا ہے۔۔ ملاحظہ فرمائیں
یہ ہمی جانتے ہیں کتنا غضب کرتی ہے
شاعری درد کی سوغات طلب کرتی ہے
شاعری دل کو یونہی شاد کئے رکھتی ہے
اور برباد یونہی نام و نسب کرتی ہے
نعرہ بازی سے سروکار نہیں ہے ہم کو
یہ مری شاعری تنظیم ادب کرتی ہے
( جی یہی شاعری تو رہ گئی ہے ادب کی تنظیم کے لئے)
صرف غزلیات ہی نہیں استاد نعت و سلام کے اشعار میں بھی وزن سے خارج ہیں۔ مثال کے طور پر
مقام خیر الورا وہ کہاں سمجھتا ہے
سراپا نور کو جو جسم و جاں سمجھتا ہے
یہ سب مثالیں تو ان کی فنی خامیوں کی تھیں، جہاں ان کی تک بندیاں اور جگہ جگہ وزن سے خارج اشعار قارئین کے سامنے رکھے گئے۔
اس کے علاوہ استاد کا بڑا کارنامہ ان کی سرقہ بازی ہے، ان کی ہمت و شجاعت کو داد کہ وہ نہ صرف انتہائی مقبول و مشہور اشعار کا سرقہ کرتے ہیں بلکہ انہیں مشاعروں میں بھی سناتے ہیں۔ دیکھیے سخاوت علی نادر نے راحت اندوری کے مشہور شعر کا کیا حال کیا
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑئیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہوگئے
راحت اندوری
تہذیب کے جو نقش تھے برباد ہوگئے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہوگئے
استاد سخاوت علی نادر
صورت حال یہ ہے کہ ایسی فاش غلطیوں کے باوجود کچھ مخصوص تنظیمیں اور اشخاص سخاوت علی نادر کو نہ صرف اپنے مشاعروں میں مدعو کرتے ہیں بلکہ سینئر شعراء کی صف میں لاکر اہمیت دیتے ہیں، پھر ان کی تصاویر کوملا کر باقاعدہ مضمون لکھ کر اس کو سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اوپر کی چند مثالیں دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کراچی میں شعر و ادب کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہو رہا ہے۔ یہ چند مثالیں سخاوت علی نادر کے فیس بک اکاؤنٹ سے لی گئیں ہیں جہاں کئی اہل علم و فن ان کے ان اشعار پر داد دیتے نظر آتے ہیں۔
آخر میں ہم سب سے اہم بات گوش گزار کرتے چلیں کہ اوپر جن دو شخصیات کا ذکر ہے ان کا ادبی قد ہر گز اس قابل نہیں کہ ان کو اہمیت دی جائے یا ان کی غلطیوں کو سامنے لاکر ان کی شہرت یا بدنامی میں اصافہ کیا جائے، یہاں اصل مقصد ایسے درجنوں شائقوں اور نادروں کو بے نقاب کرنا ہے جو شہر کراچی میں ادبی حلقوں پر چھائے ہوئے ہیں اور نہ صرف کراچی بلکہ اردو زبان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس ذیل میں ان دونوں کا ذکر بطور تمثیل ہے۔
ایسے شائقوں، سخاوتوں یا نادروں کے بارے میں اول فیصلہ اہل قلم و فکر و دانش پر ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ادبی محافل میں بلانے سے اجتناب کرتے ہیں، ان کا بائکاٹ کرتے ہیں یا سب کچھ ایسا ہی چلنے کی اجازت دے کر آنکھیں بند رکھتے ہیں۔
نوٹ : فیس بک کی پوسٹوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ استاد کہیں فوٹوگرافروں کے جھرمٹ میں کسی ریمپ گرل کی طرح اسٹائل مار رہے ہیں تو کہیں بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ موجود اپنا ادبی قد ثابت کرنے پر تلے ہیں، خدا اس شہر پر اپنا رحم و کرم فرمائے۔ آمین
( یہ سلسہ جاری ہے)