پچھلے ہفتے یعنی گیارہ ستمبر کو کچھ زیادہ ہی مصروفیت رہی، اس لیے رات دیر سے گھر آنا ہوا۔ ہمارے گھر کا یہ اصول رہا ہے کہ جب تک گھر کے تمام افراد نہ آجائیں تب تک مرکزی دروازہ کھلا ہی رہتا ہے۔ اُس روز بھی میں خاصی دیر سے گھر آیا۔ رات گہری ہوچکی تھی، اس لیے میرے آنے سے قبل ہی تمام گھر والے نیند کی وادیوں میں جا چکے تھے۔ سارا دن کی تھکاوٹ اور شدید بھوک کے باوجود میں کسی کو جگانے کے بجائے جاگنے کے انتظار میں قریبی رکھی ایزی چیئر پر جا بیٹھا، اور سامنے میز پر رکھی کتابوں میں سے تاریخِ پاکستان پر لکھی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا، اور کتاب پڑھتے پڑھتے خوابوں کے اُس نگر جاپہنچا جہاں ایک محفل میں حضرتِ قائداعظم محمد علی جناح اکابرینِ تحریکِ پاکستان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے۔ میں بھی ان اکابرین کی باتیں سننے کے لیے اس محفل میں جا بیٹھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی قائداعظم نے بڑی دھیمی آواز میں خان لیاقت علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”اے قائدِ ملّت تمہیں یاد ہے میں نے کہا تھا کہ مسلم اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں جن کا دین، مذہب، تہذیب، زبان، ثقافت، منبعِ علم، تاریخ… غرض یہ کہ سب کچھ مختلف ہے، یہی نہیں بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اسے کبھی بھی پاٹا نہیں جاسکتا۔ جو ایک دوسرے کے ساتھ ایک چھت کے نیچے کھانا کھانے کو تیار نہیں انہیں ایک ساتھ کس طرح رکھا جاسکتا ہے! میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندو گائے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مسلمان اس کو کھانا چاہتے ہیں، پھر کیسی مصالحت! جب مسلمانوں کا رہن سہن اور طرزِ رہائش ہی مختلف ہو تو اس صورتِ حال میں کروڑوں مسلمانوں کو اقلیت قرار دے کر ہمیشہ کے لیے ہندو کی غلامی میں نہیں دیا جا سکتا، اگر ایسا ہوا تو یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مکمل تباہی کا سبب ہوگا۔ لہٰذا مسلمانوں کو ہندوستان کی تقسیم پر زور دیتے ہوئے ایک ایسی ریاست کے حصول کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی جہاں مسلمان آزادی سے رہ سکیں۔ قائدِ ملّت تمہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ میں نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ اگر مسلمان ایک باعزت اور آزاد قوم کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے، اور وہ ہے پاکستان کے حصول کے لیے لڑنا۔ میں نے کہا تھا کہ پاکستان کے لیے ہی زندہ رہو اور اگر ضروری ہو تو پاکستان کے حصول کے لیے مر جانے سے بھی گریز نہ کرو۔ قائدِ ملّت ساری دنیا گواہ ہے کہ مسلمانانِ ہند نے میری باتیں تسلیم کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیا اور ریاست پاکستان کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کا کردیا، ایسی ریاست جہاں مسلمان اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق قرآن اور سنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزار سکیں اور دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرسکیں… ایسی ریاست جہاں عوامی حکومت ہو، جہاں لوٹ کھسوٹ سے پاک معاشرے کی تشکیل ہو، جہاں غریب کو دو وقت کی روٹی نصیب ہو، جہاں تعلیم اور صحت ریاست کی ذمے داری ہو، جہاں غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے، جہاں حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولیات سے ہر شہری مستفید ہو، جہاں اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے، جہاں وڈیروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سمیت کسی کی حاکمیت نہ ہو، ایسی ریاست جہاں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے نظام کا ہی نفاذ ہو۔ قائدِ ملّت تم اچھی طرح جانتے ہو کہ منزل کے حصول کی جدوجہد کرنے والوں پر کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان بے گھر کردیے گئے۔ آخرکار جدوجہد رنگ لائی اور لاکھوں شہدا کی قربانیوں کے نتیجے میں مملکتِ خداداد وجود میں آئی۔ مجھے یاد ہے پاکستان کے حصول کے بعد میری بھی آرزو تھی کہ زندہ رہوں، میں اس لیے زندگی کا طالب نہیں تھا کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی اور میں موت سے خوف زدہ تھا، بلکہ اس لیے زندہ رہنا چاہتا تھا کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا اور قدرت نے جس کے لیے مجھے مقرر کیا میں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے، پاکستان بن گیا ہے اور اس کی بنیادیں مضبوط ہیں، اس کے بعد قوم کا کام تھا کہ وہ اس کی تعمیر کرے، اسے ناقابلِ تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنائے، سیاسی لوگ حکومت کا نظم و نسق دیانت داری اور محنت سے چلائیں۔ میں اپنی زندگی میں پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا، لیکن میرے رخصت ہوجانے کے بعد ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ نفسا نفسی کا شکار ہیں، کوئی بھی مملکتِ خداداد کے لیے کام کرنے کو تیار نہیں۔ سب اپنی ذاتی آَنا کی تسکین چاہتے ہیں، مال بنانے کی روش نے انہیں اندھا کردیا ہے، ملک کی تعمیر وترقی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ پورے پاکستان میں یہی صورتِ حال ہے، اور تو اور انہوں نے تو میرے شہر کو بھی نہیں بخشا، وہ شہر جسے قائد کا شہر کہا جاتا ہے، میرا شہر جہاں نہ صرف میرا آبائی گھر ہے بلکہ میری آخری آرام گاہ بھی ہے۔ وزیر مینشن تباہ و برباد کردیا گیا ہے، جبکہ میری آرام گاہ کے اطراف میں جو صورت حال ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آج پاکستان کو قائم ہوئے 72سال ہوچکے ہیں، قائدِ ملّت میں یہی سوچ سوچ کر پریشان رہتا ہوں کہ میرے ملک کو کس سمت لے جایا جارہا ہے! آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک پر آمروں کا راج رہا۔ جمہوریت بحال تو ہوئی لیکن جمہوری حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی بھی کسی ڈکٹیٹر سے کم نہ تھی، ہر حکومت میں کرپشن عروج پر رہی، طاقت اور پیسے کے بل پر حکومتیں تشکیل دی جاتی رہی ہیں، ہر آنے والے حکمران نے ملک کی دولت لوٹ کر بیرونِ ملک جائدادیں بنائیں، کسی کو بھی نظریہ پاکستان یاد نہ رہا، مجھے جس سول بیورو کریسی پر مان تھا اسی نے سب سے زیادہ مسائل کھڑے کیے ، لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، سب نے مجھ سے کیا وعدہ بھلا دیا ہے۔“
دوران گفتگو محفل میں انتہائی خاموشی تھی، سبھی اپنے محبوب قائد کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ ایک طرف مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح تشریف فرما تھیں تو دوسری جانب محترم نورالامین سر جھکائے افسردہ بیٹھے تھے، جبکہ قائدِ ملّت خان لیاقت علی خان کی حالت ناقابلِ بیان تھی،کسی کے پاس بانی پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا کوئی بھی جواب نہ تھا۔
خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد خان لیاقت علی خان بولے:
”اے میرے قائد رنجیدہ نہ ہوئیے، خدا ہمارے ملک کا نگہبان ہے، اسی نے ہماری مدد کی تھی اور وہی مملکتِ پاکستان کی حفاظت بھی فرمائے گا۔ آپ دل چھوٹا نہ کیجیے، اللہ ہماری نیتوں کو خوب جانتا ہے، جس دور میں طاقت رکھنے کے باوجود دنیا کے کسی حصے میں زمین کا ایک ٹکڑا حاصل نہ کیا جاسکے اس خدا نے ہمیں اتنے بڑے ملک سے نوازا ہے،پاکستان کا وجود رب کی رضا ہے، اور جس کام میں کائنات بنانے والے کی مرضی و منشا شامل ہو اُسے سازشوں سے کمزور نہیں کیا جاسکتا۔جس بنیاد پر پاکستان کا قیام ہوا آپ یقین جانیے وہ ہو کر ہی رہے گا، ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب انھی سیاسی جماعتوں میں سے ایسے انقلابی نوجوان ابھر کر سامنے آئیں گے جن کی قیادت میں پاکستان دنیا بھر کے مظلوموں کی دادرسی کرے گا۔ یقین مانیے آنے والا وقت ہمارا ہی ہے۔ ظلم اور ناانصافی پر مبنی نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا،ہماری منزل ترقی، خوشحالی اور پُرامن پاکستان ہے۔“
محفل انتہائی رنجیدہ تھی، اس سے پہلے کہ میں مزید گفتگو سنتا، ہوا کے تیز جھونکے نے میز پر رکھی کتاب کے اوراق پلٹ دیے جس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میرا تعلق خواب سے تو ٹوٹ گیا لیکن یہ خواب میرے ذہن پر کئی اثرات چھوڑ گیا۔ میں اُسی روز سے اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ قائداعظم کی وفات کو 72 برس گزر گئے ییں، مزارِ قائد پر روزانہ ہزاروں افراد کی حاضری اور شہر شہر منعقد ہونے والی تقریبات اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستانی قوم تو ان سے والہانہ عقیدت رکھتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں، خاص طور پر کراچی سے منتخب ہونے والوں نے قائد سے ایسی لازوال ”محبت“ کی جس نے قائد کے پاکستان خصوصاً شہرِ قائد کو کھنڈر بنا ڈالا۔ ایک طرف جہاں مملکتِ خداداد کو نوچا گیا، وہیں دوسری جانب حقوق کے نام پر کراچی والوں کے ساتھ وہ کھیل کھیلا گیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی والے دکھی ہیں، ان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، وہ ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔ ان کی آنکھیں ایک ایسی جماعت اور ایسے رہنما کی راہیں تک رہی ہیں جو پاکستان بالخصوص شہر کراچی کی حقیقی نمائندگی کرسکے، جو سبز باغ دکھانے کے بجائے شہرِ قائد کے غصب کیے گیے حقوق دلا سکے۔
جس وقت میری آنکھ کھلی وہ رات کا تیسرا پہر تھا، یعنی صبح ہونے کو تھی۔ سنا ہے اس وقت دیکھے جانے والے خواب سچے ہوا کرتے ہیں، اسی لیے حالات بتا رہے ہیں کہ وہ مردِ مومن، وہ مردِ انقلاب میدانِ عمل میں آنے کو ہے جو کراچی سمیت پورے ملک کا مقدمہ لڑ کر پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوری ملک بنادے گا۔