اللہ کے دین کو دنیا میں جاری و سا ری کرنے کی کوششیں اگرچہ کسی نہ کسی انداز میں ہر دور میں کی جاتی رہی ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلا م کی بنیادی تعلیمات اور دین کی اصل روح یعنی اسلام کو قوت نافذہ کے طور پر زمین پر قائم کرنے اور تمام باطل افکار و نظریات سے ریاست کو آزاد کرنے کا کام ماند بھی پڑتا رہا۔ ریاستی جبر ، اقتدار اعلی کی کشمکش اور رسوم و رواج کے نام پر دین میں گنجائشیں تلاش کر آسان اسلام کے نام پر بے انتہا بگاڑ پیدا ہوتا چلا گیا
لیکن کوئی نہ کوئی ولی اللہ ہر دور میں پیدا ہوتا رہا جس نے اسلام کی حقانیت کو بھرپور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ۔ ان ہی شخصیات میں سے ایک قد آور اثر پزیر ہستی سید ابو اعلی مودودی علیہ رحمہ کی صورت میں ہے۔
مولانا سید ابو اعلی مودودی نے اپنی پیدائش 25 ستمبر 1903 سے لیکر 1973 یعنی 31 سال تک تحریک اسلامی کی رہنمائی و قیادت کی،مولانا مودودی نے ابتدائی دنوں میں ہی اس حقیقت کو جان لیا تھا کہ معاشرے کی اصلاح اور دین کے غلبے کی جدوجہد انفرادی طور پر ہو ہی نہیں سکتی، اس بہت بڑے کام کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، آپ یہ بات اچھی جانتے تھے کہ تنہا ایک شخص اپنی قوت اور اپنے ذرائع کے بل بوتے پر کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ آپ نے با صلاحیت اور صالح افراد کی تلاش کا کام شروع کیا ۔ اس کام کے لئے آپ کے پاس تحریر کا ہتھیار اور رسالہ ترجمان القران موجود تھا، آپ نے اپنی تحریروں کی مدد سے قارئین کے ذہنوں میں اجتماعی جدوجہد کا شعور بیدار کیا ۔ اس حوالے سے آپ کی ایک تحریر میں کتنی درد مند ی جھلکتی ہے ملا حظہ فرمائیں….. ” ہمارے آقا و مولیٰ علیہ وآلہ والسلام نے بھی تبلیغ اور جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی امت سے مدد لی ہے ۔ پس کا ایک خادم اسی کام کے لئے قوم سے مدد مانگے تو یہ کوئی عیب نہیں ۔ لیکن جو چیز آج تک مجھ کو یہ طریقہ اختیار کرنے سے اور جس کی وجہ سے آج بھی میں اس میں کراہیت محسوس کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف قومی کارکنوں نے اپنی حرکات سے نہ صرف اپنا بلکہ قومی خدمت کا بھی اعتبار کھو دیا ہے اور دوسری طرف آج مسلمانوں کے حوصلے پست اور اخلاق ان سے بھی زیادہ پست ہو گئے ہیں ۔”
رسالے ترجمان القرآن کی بدولت ابتدائی ایام میں ہی مولانا مودودی نے اس عظیم مقصد کے لئے ساتھ چلنے پر آمادہ افراد کا ایک حلقہ بنالیا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں انگریز سے آزادی کا زور تھا اس وقت بھی آپ کی تحریروں میں سارا زور اس بات پر تھا کہ محض انگریز سے آزادی حاصل کرنا ہی کافی نہیں بلکہ درحقیقت اس نظام سے آزادی حاصل کرنا ہے جو ہمیں اور ہمارے دین کو مغلوب دیکھنا چاہتا ہے ۔ آپ ترجمان القران کے ایک شمارے میں اپنے قارئین کو یہ پیغا م دیتے ہیں کہ ” اب اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور ہندوستان میں اسلا م کا وہ حشر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو اسپین اور سسلی میں ہوچکا ہے، تو ہمارے لئے صرف ایک ہی راستہ باقی ہے اور وہ ہے کہ ہم آزادی ہند کی تحریک کا رخ حکومت کفر کی طرف سے حکومت حق کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں اور اس غرض کے لئے ایک سرفروشانہ جنگ پر کمر بستہ ہو جائیں جس کا انجام یا کامیابی ہو یا موت!
مولانا کی تمام تر زندگی آمریت کیخلاف جدوجہد اور اسلام کے حقیقی رنگ کو عوام الناس تک پہنچانے میں گزری اور جس طرح ساری دنیا ایسے لوگوں کو مشکلات، قید و بند اور دارو رسن کے راستے گزر کر منزل تک جانا ہوتا ہے اسی طرح کا معاملہ مولانا سید ابو اعلی مودودودی اور ان کے رفقا کار کے ساتھ ہوا مولانا سید ابو اعلی مودودی علیہ رحمہ کی زندگی ان تمام آزمائشوں میں استقامت اورجوانمردی کا اعلی نمونہ ثابت ہوئی ۔ آپ کی پہلی گرفتاری بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کی وفات (11 ستمبر1948) کے صرف تین ہفتے بعد 4 اکتوبر 1948 ء عمل میں آئی
دوسری مرتبہ قادیانیت کے خلاف ختم نبوت کی تحریک کے دوران مولانا کو 28 مارچ 1953 ء کی صبح منہ اندھیرے گرفتار کر لیا گیا۔اسی کیس کے دران میں مولانا کو ایک خصوصی فوجی عدالت کے ذریعے سے قادیانیوں کے خلاف کتاب لکھنے کے الزام میں’’سزائے موت‘‘سنا دی گئی۔ اس ظالمانہ اور غیر عدالتی فیصلے پر مولانا نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا اس نے سلف صالحین کی سنہری تاریخ کو زندہ کر دیا۔ حکومت نے معافی نامہ داخل کر کے رہا ہو جانے کی شرط پیش کی تو اسے یکسر ٹھکرا دیا۔ آخر 28 اپریل 1955 ئکو حکومت کو مجبوراً اس بے گناہ قیدی کو رہا کرنا پڑا جس کے استقبال کے لیے جیل کے دروازے پر جمع ہجوم مسلسل ایک نعرہ لگا رہا تھا ’’فاتح تختہ دار، مولانا مودودی زندہ باد۔‘‘ واضح رہے کہ اس قید کے دوران ملتان جیل میں مولانا نے تفہیم القرآن لکھنے کا کافی کام کر لیا۔
ملتان سے لاہور کا سفر 29 اپریل کو ہوا اور وہی نعرہ ملتان سے لاہور تک راستے کے ہر ریلوے اسٹیشن پر گونجتا رہا۔ جب یہ صاحب عزیمت شخص لاہور پہنچا تو ریلوے اسٹیشن پر ایک بہت بڑا مگر منظم ہجوم اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھا مگر وہ مجسم انکسار، ہاتھ ہلا کر سب کا شکریہ ادا کرتا رہا۔
مولانا مودودی کا سیاسی موقف بالکل واضح تھا اور وہ یہ کہ حکمرانوں کو عوام کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اگر حکمران یہ حقوق دینے سے انکار کر دیں تو انہیں حاصل کرنے کے لیے جدوجہد جمہوری، آئینی اور قانونی دائروں کے اندر رہ کر کی جائے۔ کوئی زیر زمین کارروائی یا مسلح اور پر تشدد راستہ اختیار کرنا ان کے نزدیک درست نہ تھا۔ انہوں نے اپنی اس فکر کو’’جماعت اسلامی‘‘کے ’’دستور‘‘ میں بھی سمودیا اور کارکنان جماعت کی تربیت کے ذریعے ان کے ذہنوں میں بھی راسخ کر دیا۔ جماعت اسلامی ہمیشہ آمریت کا مقابلہ کرتی رہی ہے۔ اس کے کارکنان سے لے کر قائدین تک جھوٹے مقدمات میں قید و بند کے مراحل سے گزارے گئے ہیں مگر جماعت نے کبھی کوئی غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا۔ نہ ہی ان شا ء اللہ کبھی ایسا کرے گی۔
اکتوبر 1963ء میںلاہور میں منعقد ہونے والے جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع عام پر حکومتی سرپرستی میں مسلح حملہ کیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں ایک کارکن اللہ بخش صاحب شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ اس انتہائی اشتعال انگیز ماحول میں بھی مولانا نے کارکنان جماعت کو صبر و
تحمل کی تلقین فرمائی اور حکومت کی اس سازش کو ناکام بنا دیا جو وہ جماعت کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے تیار کر چکی تھی۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں ایک جانب کارکنان کو نظم و ضبط کا پابند بنانا اور دوسری جانب عزم و ہمت کا بے مثال مظاہرہ سید مودودی جیسی جامع شخصیت ہی سے ظہور پذیر ہو سکتاتھا۔ اسٹیج پر کھڑے چوہدری غلام محمد مرحوم نے از راہ احتیاط کہا ’’مولانا آپ بیٹھ جائیے، مناسب یہی ہے‘‘ سید صاحب نے جواب میں ایک فقرہ کہاکہ جو صبر و استقامت، عزیمت و عظمت کی بیسیوں داستانوںپر بھاری ہے۔ ’’چوہدری صاحب میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا؟‘‘ (بحوالہ قافلہ سخت جان از سید اسعد گیلانی ص 337)
حکومت کی اس غنڈہ گردی کے باوجود جب جماعت اشتعال میں نہیں آئی تو صوبائی اور مرکزی وزرانے جماعت اور امیر جماعت کے خلاف انتہائی زہر آلود اور لچر بیانات دینا شروع کر دیئے۔ آخر کار بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور امیر جماعت اور مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان کو 4 جنوری 1964 کی صبح گرفتار کر لیا گیا۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگ گئی اور اس کے تمام دفاتر سر بمہر کر دیئے گئے۔
مولانا کی تحریک کا ا بتدائی مرحلہ
مولانا سید ابو الاعلی مودودی رسا لے ‘ الجمیعتہ’ تک ایک فرد کی حیثیت سے اصلاح معاشرہ کاکا م کر رہے تھے – لیکن جیسے جیسے آپ نے اپنے علمی کام اوراس وقت کے حالا ت پر لکھے جانے والے ادارتی مضامین لکھے تو اسطرح ہندوستان میں ان کی پہچان بننی شروع ہو گئی – 1932 میں جب آپ نے رسالہ’ ترجمان القرآن ‘ کی ابتدا کی تب سے مولانا ایک ‘فرد ‘ سے نکل کر ایک عظیم شخصیت کے روپ میں ڈھلتے چلے گئے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں مولانا مودودی علیہ رحمہ خود اس جدوجہد کے ابتدائی مرحلے کی بابت کیا کہہ رہے ہیں آپ کہتے ہیں کہ “جب میں نے حیدر آباد (دکن – ہندوستان )سے 1932 میں رسالہ ترجمان القران کی ابتدا کی اس وقت کا م کی جو ترتیب میرے ذہن میں تھی وہ یہ تھی کہ سب سے پہلے مغربی تہذیب و افکار کے اس غلبے کو توڑا جائے جو مسلمانوں کے ذہین طبقے پر مسلط ہورہا ہے – یہ بات ان کے ذہن نشین کی جائے کہ اسلام اپنا ایک نظام زندگی رکھتا ہے ، اپنا ایک نظام فکر اور نظام تعلیم رکھتا ہے اپنا ایک نظام تہذیب رکھتا ہے ، اپنا ایک سیاسی نظام رکھتا ہے جو ہر لحاظ سے مغربی تہذیب اور اس کے متعلقات سے فائق ہے۔یہ خیال ان کے دماغ سے نکالا جائے کہ تہذیب و تمدن کے معاملے میں انہیں کسی سے بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت ہے – ان کو بتایا جائے کہ اپنا ایک پورا نظام زندگی موجود ہے جو دنیا کے تمام نظا موں سے بہتر ہے – بھرپور تنقید کر کے ان پر واضح کیا جائے کہ مغرب کے جس نظام سے وہ مرعوب ہیں وہ اپنے ہر پہلو میں کیا کیا کمزوریاں رکھتا ہے۔ آپ مزید کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد 1939 اور اس کے بعد کا دور آیا – مسلم لیگ کی تحریک نے زور پکڑا – پاکستان کی تحریک اٹھنی شروع ہوئی‘جدید دور میں جن مسلم مفکرین و مصلحین نے فکر و نظر کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے ان میں مولانا مودودی کا نام سرفہرست ہے – آپ نے فکری رہنمائی ہی نہیں دی بلکہ عملی میدان میں بھی حیات آفرین کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں – آپ کی فکر نے حیات ملی کے جن گوشوں کو متاثر و منور کیا ہے ان میں سے ایک اہم شعبہ ‘ سیاست ‘ بھی ہے – مولانا مودودی نے برصغیر کی آزادی کے مختلف مراحل سے لیکر اپنی جان جا ن آفرین کے سپرد کرنے تک ( 1979 ) ایک اسلامی سیاسی مفکر، ایک اصول پسند سیاستدان ، اور امت مسلمہ کے ایک حقیقی مصلح کے طور پر اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کیا ہے ، وہ اس لحاظ سے پہلے مفکر اسلام ہیں جنہوں نے اسلامی نظا م زندگی کو مربوط و منظم انداز میں پیش کیا – اسلامی ریاست کے ایک مکمل نقشے ( روڈ میپ ) کو امت کے سامنے رکھا – اور پھر اس نقشے میں رنگ بھرنے کے لئے ‘ جماعت اسلامی ‘ کی صورت میں ایک عظیم الشان اسلامی تحریک بھی شروع کی۔”
( مقالہ – برائے – پی ایچ۔ڈی ‘ سید مودودی اور ان کے سیاسی افکار۔عصری افکار کے تناظر میں ‘ مقالہ نگار – فرید احمد پراچہ )
اس حوالے سے مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ” 1926 میں جب میں نے اپنی کتا ب’الجہاد فی الاسلام’ لکھی ، میرے دماغ میں یہ تصور پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کا اصل نصب العین اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے – آپ لکھتے ہیں کہ میرا نصب العین ایک قومی حکومت کا قیام نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جو دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرے ، جس کی تہذیب و ثقافت ، جس کا معاشرتی نظام ، جس کا معاشی نظام ، جس کا اخلاقی ماحول ، جس کی عدالت ، جس کی پولیس ، جس کے قوانین ، جس کی فوج جس کی سفارت غرض جس کی ہر چیز دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کرنے والی ہو ، جس کو دیکھ کر دنیا یہ جانے کہ اسلا م اور کفر میں کیا فرق ہے ؟ ور اسلا م ہر حیثیت میں کتنا بلند ہے۔اسی چیز کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا۔اوردینی اصطلا ح میں اس کا نام اقامت دین ہے۔‘‘
دین میں سیاست
آگے چل کر آپ لکھتے ہیں کہ ” جو چیز جماعت کی تشکیل کے وقت میرے پیش نظر تھی وہ یہ تھی کہ جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف عقیدے میں مخلص ہوں بلکہ اپنی انفرادی سیرت و کردار میں بھی قابل اعتماد ہوں – میرے بائیس سال کے مشاہدات یہ بتا رہے تھے کہ مسلمانوں کی جماعتوں اور تحریکوں کو آخر کار جس چیز نے خراب کیا وہ اچھے لوگوں کے ساتھ بہت سے نا قا بل اعتماد لوگوں کا شریک ہوجانا تھا۔… تحریک خلافت میں بڑے بڑے نیک اور فاضل اور بہترین اخلاق کے لوگ شامل تھے لیکن ایک کثیر تعداد ایسے کارکنوں کی بھی آکر شامل ہوگئی تھی جو سیرت و کردار کے لحاظ سے نا قص تھے … لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز صدابصحرا ثابت ہورہی ہے تو پھر دوسرا قدم جو میری سمجھ میں آیا ‘ یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کرنی چاہیے جو صاحب کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے جو آگے نظر آرہے تھے – جس وقت تحریک پاکستان اٹھی اور 1940 میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی ..اس وقت کوئی شخص بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ملک یقینا تقسیم ہوجائے گا – اور پاکستان بن جائے گا – حتی کہ 1947 کے آغاز تک بھی یہ بات یقینی نہیں تھی کہ واقعی پاکستان بن جائے گا – اس وقت جو اہم ترین سوالات میرے سامنے تھے وہ یہ تھے کہ حالت جس رخ پر جارہے ہیں ان کی ایک شکل تو یہ پیش آسکتی ہے کہ پاکستان کے لئے کوشش کرکے مسلم لیگ ناکام ہوسکتی ہے اور ہندوستان میں انگریز واحد ہندوستانی قومیت کی بنا پر ایک جمہوری حکومت قائم کرکے چلا جائے – اس صورت میں کیا کرنا ہوگا ؟
دوسری شکل یہ پیش آسکتی ہے کہ مسلم لیگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے اور ملک تقسیم ہوجائے ، اس صورت میں جو کروڑوں لوگ ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کا کیا کیا جائے،ان کا کیا حشر ہوگا ؟ اور خود پاکستان میں اسلام کا کیا حشر ہوگا ؟ – جس قسم کے عناصرپاکستان کی تحریک میں شامل ہورہے تھے ان کو دیکھتے ہوئے میں یقینی طور پر سمجھ رہا تھا یہ عناصر ایک ملک تو بنا سکتے ہیں لیکن ان عناصر سے یہ امید نہیں لگا ئی جا سکتی کہ یہ ایک اسلامی حکومت بنا لیں گے۔
مولانا مزید لکھتے ہیں کہ میرے سامنے تین مسئلے تھے
اگر ملک تقسیم نہ ہوا تو جو مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کے لئے کیا کیا جائے ؟اور آزادی کی صورت میں جو ملک مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کیسے بچایا جائے ؟
اور آزاد ملک کی حکومت کو اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے ؟
آپ نے لکھا کہ ” کئی سال سے میں جن خیالات کی اشاعت کر رہا تھا ، اگرچہ ان کی بنا پر مختلف حلقوں کی طرف سے مجھے گالیاں بھی دی جارہی تھیں ، لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو ان خیالات سے متفق تھے اور سمجھتے تھے کہ حق بات یہی ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔انھی لوگوں کے اتفاق و اشتراک سے یہ جماعت قائم کی گئی – ‘‘
مولانا مودودی کا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو معذرت خوا ہا نہ انداز میں پیش نہیں کیا جیسے کہ مولانا سے پہلے کے کچھ مفکرین نے کرنے کی کوشش کی تھی۔بلکہ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اسلامی نظریہ حیات کی طرف دعوت دی اور انتہائی قلیل عرصے میں ان تمام شکوک و شبہات کے نقوش مٹا دئیے جو جدید پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام اور اسلامی نظام کے بارے میں موجود تھے – مولانا مودودی کے افکار نے امت مسلمہ کو اس کے مقام و منصب سے روشناس کرایا –۔
آج اگر پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے ‘ اگر قرارداد مقا صددستور پاکستان کا فعال حصہ ہے ‘ اگر آئین پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی اور اللہ تعالی کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کیا گیا ہے’ اگر پاکستان کے عام شہری سے لیکر عدلیہ کے جج حضرا ت ، اہل فکر و نظر ، صاحبان اقتدار و اختیار اصحاب علم و دانش اور حکمرانوں و سیاستدانوں تک ہر فرد اسلام کا نام لینے پر مجبور ہے اور اسلا م سے وابستگی ایک طعنہ نہیں ‘ایک اعزاز اور فخر ہے … افغانستان سے اٹھنے والی تحریک جہاد نے فلسطین ، بوسنیا ، کشمیر ، چیچنیا ، کوسووا ، فلپائن اور اری ٹیریا کے مظلوم مسلمانوں کے دلوں میں بھی جذبہ جہاد کی بجلیاں بھر دی ہیں۔اگر ترکی۔الجزائر جیسے مغربی تہذیب کے پڑوسی مما لک میں بھی نسل نو اسلام اور اسلامی تحریک سے وابستہ ہورہی ہے ‘اگر اتحاد عالم اسلامی ایک خواب سے بڑھ کر ایک تعبیر میں ڈھل رہا ہے ، اگر ایران کے اسلامی انقلاب اور وسط ایشیا کے مسلمانوں میں اسلام اور قران کی وابستگی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو بلا خوف و تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان تمام کامیابیوں اور پیش قدمیوں کے پس منظر میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے افکار کی روشنی اور ان کی بے مثال جدوجہد کی خوشبو موجود ہے –
– جس نے آخر کار 1940 میں قرارداد پاکستان کی شکل اختیار کی۔اس زمانے میں جو بات میرے نزدیک اہم تھی وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ تم محض ایک قوم نہیں اور تمہارا مقصود بھی محض ایک قومی حکومت کا قیام نہیں ہونا چاہیے – تم ایک مبلغ قوم ہو ، تم ایک مشنری قوم ہو ، تم اپنے مشن کو کبھی نہ بھولو – تمہیں وہ حکومت قائم کرنی ہے جودنیا میں اسلا م کے لئے ایک مشنری حکومت بن جائے۔ –
حوالہ جات : تحریک اسلامی۔ایک تاریخ ایک داستان – سید ابو الاعلی مودودی کی نگارشات پر مبنی تحریکی رپوتاز
( مقالہ – برائے – پی ایچ۔ڈی ‘ سید مودودی اور ان کے سیاسی افکار۔عصری افکار کے تناظر میں ‘ مقالہ نگار – فرید احمد پراچہ )
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اہم کام یہ بھی ہے کہ آپ نے بروقت اندرون و بیرون سے آنے والے فتنوں کی نہ صرف نشاندہی اور تنقید کی، بلکہ ساتھ ہی ساتھ دنیا کے سامنے اسلام کو قابلِ عمل نظام کے طور پر پیش کیا۔
محمد انس فلاحی سنبھلی (ہندوستان) ’’مولانا مودودیؒ کے علمی وفکری کام اور ان پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کی عظمت اور قبولیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ان کی اکثر کتابوں کے 40 اور بعض کے 75 زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ بالخصوص ’’رسالہ دینیات‘‘، ’’خطبات‘‘، ’’پردہ‘‘، ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جہاں ان کی تحریر و تحریک کے اثرات مرتب نہ ہوئے ہوں۔
کفر و الحاد اور مغرب زدہ طبقہ آپ کی کتابوں کے ذریعے ہی اسلام پر نہ صرف گامزن ہوا بلکہ اسلام کا علَم بردار بن گیا۔ خدا نے ان کی تحریر میں وہ تاثیر رکھی ہے کہ پڑھنے والا اسلام کو سمجھنے اور ماننے پر ہی اکتفا نہ کرے، بلکہ اپنے لیے مسلمان ہونا باعثِ ’’شرف‘‘سمجھے اور اس کا داعی بن جائے۔
اسلامیات پر مولانا مودودیؒ کے لٹریچر نے قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ کوئی موضوع ایسا نہیں ہے جس پر مولانا مودودیؒ کی تحریریں موجود نہ ہوں۔ وہ چاہے تفسیر، حدیث، فقہ، سماجیات، معاشیات اور سیاسیات ہی کیوں نہ ہو۔
مولانا مودودیؒ کی’’تفہیمات‘‘ (5جلدیں )، ’’تنقیحات‘‘، ’’استفسارات‘‘ (3 جلدیں)، ’’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘‘ اور ’’اسلامی ریاست‘‘… یہ سب اسلام اور اسلامی نظام کی تشریح و توضیح اور مغربی تہذیب، جس کے مسلمان دلدادہ ہورہے تھے، کی بے لاگ و بے باک تنقید کا نتیجہ ہیں۔‘‘
1948ء میں جب مولاناؒ نے ملک میں اسلامی دستور بنانے کا مطالبہ کیا تو ملک دشمنی کا الزام لگاکر آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ قید و بند کی یہ صعوبتیں بیس ماہ کے بعد اُس وقت ختم ہوئیں جب ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ سیفٹی ایکٹ کے تحت چھ چھ ماہ کی نظربندی میں تیسری مرتبہ توسیع نہیں ہوسکتی۔
اس بیس ماہ کی قید و بند میں بھی آپ نے علمی کام جاری رکھا اور ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ مرتب کی، تفہیم القرآن کا مقدمہ لکھا، ’’سنن ابوداؤد‘‘ کا انڈیکس تیار کیا، ’’سود اور اسلام‘‘ اور ’’جدید معاشی نظریات‘‘ بھی وہیں مکمل کیں۔ مولانا اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ شکر ہے میرا ایک دن بھی ضائع نہیں ہوا۔ مولانا مودودیؒ کی یہ گرفتاری رنگ لائی اور مارچ 1949ء میں قراردادِ مقاصد پاس ہوگئی۔ اس طرح یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ پاکستان میں اسلامی قوانین ہی کا نفاذ ہوگا۔
فتنۂ انکارِ ختمِ نبوت
برصغیر میں انگریز کی آمد اور امتِ مسلمہ میں دو بہت بڑے فتنے قادیانیت اور پرویزیت کی صورت میں داخل کیے گئے ۔ 1953ء میں پہلی قادیانی سازش ہوئی اور اُس وقت مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ لیکن حکومت میں شامل مخصوص عناصر اور قادیانیوں نے اس مطالبے کو ناکام کرنے کے لیے ملک میں مارشل لا نافذ کروا دیا۔
مولاناؒ نے اس حوالے سے ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ لکھا، جس پر آپ کو پہلے گرفتار کیا گیا اور پھر فوجی عدالت کے ذریعے سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ اس سزا کے خلاف پوری اسلامی دنیا میں شدید ردعمل ہوا۔)
فتنۂ انکارِ ختمِ نبوت کے بعد اس سرزمین میں سب سے بڑا فتنہ انکارِ حدیث کا پیدا کیا گیا۔
فتنہ انکارِ حدیث
اسے عام طور سے ’’فتنۂ پرویزیت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز میں فتنوں کے علاوہ اگر کچھ قدر مشترک ہے تو وہ ہے ان کی آبائی جگہ، ضلع گورداس پور۔ 9 جولائی 1903ء کو بٹالا ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے اور 24 فروری 1985ء کو انتقال ہوا، 1927ء میں انڈین حکومت میں وزارتِ داخلہ میں کام کرتے رہے۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد سینٹرل گورنمنٹ میں رہے۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے مشیر تھے اور 1955ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کی شادی ہوئی مگر اولاد نہیں ہوئی۔
غلام احمد پرویز کے اس فتنے نے اسلام کے بنیادی اصول کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔ عقائد، عبادات، اخلاق، اعمال، شعائر، اسلامی معاشرت، اسلامی اقتصادی نظام وغیرہ… کسی چیز کو بھی نہیں چھوڑا۔ اسلامی اقدار و تعلیمات سب کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
(جاری ہے)