زرینہ نے دل پر جبر کرکے بیٹے کو ولایت تعلیم کے لیے بھیجا تو سہی، لیکن ہر وقت اس کا دل دھڑکتا رہتا کہ اتنے آزاد ماحول میں جہاںعورتیں بھی ننگی سرِ عام گھومتی رہتی ہیں… نہ جانے میرے بیٹے پر کیا اثر ہو۔ مراد علی اسے تسلیاں دیتا رہتا کہ نیک بخت تُو تو سدا کی ڈرپوک ہے، دنیا نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، اور تُو یوں ڈر رہی ہے جیسے میں نے تیری بیٹی زینب کو ولایت بھیجا ہے۔ سجاد مرد ہے مرد… اُسے مرد ہی رہنے دے، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئے گا تو فخر سے تیرا سر بھی بلند ہوگا۔
٭…٭
زرینہ جب بھی بیٹے سے فون پر بات کرتی تو اسے کوئی نہ کوئی نصیحت ضرور کرتی، اور خاص طور پر ان گوری میموں سے بچنے کی تلقین کرتی۔ سجاد زور سے قہقہہ لگا کر ماں کو ستاتا کہ وہ اس کے لیے کسی گوری میم کو دلہن بناکر ہی لائے گا۔
٭…٭
چار برس بعد سجاد واپس وطن لوٹا، گرچہ وہ گوری میم تو بیاہ کر نہ لایا لیکن اس کے دل و دماغ بالکل بدل چکے تھے، ولایت کا رنگ اس پر چڑھ چکا تھا، لہٰذا اس نے خاندانی گھریلو لڑکی کے بجائے ایک ماڈرن اور تعلیم یافتہ لڑکی کو شادی کے لیے پسند کرلیا۔ اعلیٰ تعلیم عورت کو نکھار سکتی ہے، لہٰذا باپ تو اس کا حامی تھا، لیکن زرینہ نے مجبوراً ہتھیار ڈالے تھے۔ گھر میں دلہن آگئی تو اس کی مزید ’’خوبیاں‘‘ زرینہ پر عیاں ہوئیں۔ اس کا نازیبا لباس، مخلوط رنگا رنگ محفلیں جہاں سے دونوں میاں بیوی رات دیر گئے لوٹتے… ایک آدھ بار زرینہ نے دبے لفظوں میں سجاد کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن بے سود… بلکہ فرمین کے رویّے میں ساس کے لیے تلخی کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی۔
٭…٭
وقت گزرتا گیا۔ فرمین اور سجاد کے یہاں بیٹے اور بیٹی کی پیدائش کے بعد زرینہ نے سوچا کہ شاید بہو میں کوئی تبدیلی رونما ہو۔ لیکن ایسا نہ ہوا، بلکہ مراد علی کی وفات کے بعد تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ اب اکثر رات گئے گھر میں بھی عیاشانہ محفلیں جمنے لگی، جن کا اثر اب بچوں پر بھی نظر آرہا تھا۔
٭…٭
زرینہ نے بارہ سالہ پوتی کا بے باکانہ لباس دیکھا تو چپ نہ رہ سکی۔ ’’شازمین بیٹا کہیں جا رہی ہو…؟‘‘
شازمین: (لاپروائی سے بالوں کو جھٹکتے ہوئے) ’’جی دادی، کوئی کام ہے؟ میں خیرو بابا کو بھیجتی ہوں، اور دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پروگرام ہے میرا آج۔‘‘
زرینہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ اس نے اپنے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن رہ نہ سکی ’’بیٹا اس قسم کا لباس اور فلم… یہ بے حیائی ہے‘‘۔ زرینہ کی بات ادھوری ہی تھی کہ دوسرے کمرے سے فرمین وارد ہوئی، غصے سے ساس کو دیکھا اور بیٹی سے مخاطب ہوئی ’’جائو شازمین ڈرائیور تمہیں تمہارے دوستوں کے پاس چھوڑ آئے گا۔ اور پلیز امی آپ میرے معاملات میں دخل نہ دیں تو بہتر ہے، شازمین میری ذمہ داری ہے، کیا پہن رہی ہے، کہاں جا رہی ہے میں خود بھی دیکھ سکتی ہوں۔‘‘
زرینہ: ’’حیا عورت کا زیور ہے۔ حجاب نہ سہی، کم از کم لباس تو ایسا ہو جو ستر پوشی کا باعث بنے…‘‘ (یہ کہہ کر زرینہ اپنے کمرے میں آگئی)۔
٭…٭
زرینہ بہو اور پوتی کے یہ رنگ دیکھتی اور کڑھتی رہتی۔ آخر اس نے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں پڑی رہتی۔
٭…٭
سجاد اور فرمین پھولے نہیں سما رہے تھے، یوں لگ رہا تھا کہ ان کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی ہے۔ ایک بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شازمین اور منیب دونوں بہن بھائی اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں لے کر وطن واپس آگئے تھے۔ پارٹی میں اعلیٰ افسران، شازمین اور منیب کے دوست احباب ڈانس اور مستیوں میں مصروف تھے۔ فرمین اپنی خوبصورت بیٹی کے عریاں لباس میں ڈانس پر پیار بھری نظروں سے اس کے صدقے واری جا رہی تھی جیسے آج اس کی محنت کا صلہ اسے مل گیا ہو۔ شازمین اپنے ایک دوست کی بانہوں سے دوسرے دوست کی بانہوں میں جھول رہی تھی۔ شوروغل کی آواز پر زرینہ جو اب کمرے میں مقید رہنے لگی تھی، باہر نکلی۔ بڑے ہال میں جو منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا وہ اس کی موت کا سبب بن گیا۔ کمرے میں آکر وہ ڈھے گئی۔ صبح خادمہ نے گھر والوں کو اس کی موت کی اطلاع دی… فرمین اور شازمین کے راستے کا رہا سہا کانٹا بھی دور ہوگیا، دونوں بچے اپنی اپنی زندگی میں مست ہوگئے۔ جو کسر یورپ کی تعلیم پوری نہ کرسکی وہ اپنے ملک میں دوستوں کی صحبت نے پوری کردی۔
فرمین کا پہلی مرتبہ ماتھا تب ٹھنکا جب رات کے دو بجے شازمین نشے میں دھت گھر میں داخل ہوئی۔ سجاد کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اتنی بے حیائی اور آزادی کی راہ پر چلنے کا نتیجہ ان کے سامنے تھا جہاں سے شازمین کا پلٹنا ناممکن تھا… اس کا حلیہ اس پر بیتی داستان کی تشہیر تھی۔
’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا جگ گئیں کھیت‘‘۔ وہ زندگی کی سب سے انمول متاع گنوا چکی تھی…
٭…٭
اعلیٰ تعلیم حاصل کا حصول یا عورتوں کا ملازمت کرنا برا فعل نہیں، لیکن اصل چیز انہیں حیا کی چار دیواری اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ اوپر بیان کی گئی کہانی جیسی کہانیوں کا انجام اکثر ہولناک ہی ہوتا ہے۔ اخبارات اور نشریات ایسی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ دینِ اسلام جو ضابطہ حیات ہے، اس نے زندگی گزارنے کے تمام احکامات کھول کھول کر بیان کیے ہیں جن پر عمل کرکے نہ صرف اس دنیا کی زندگی کو منور کیا جا سکتا ہے بلکہ آخرت کو بھی سنوارا جا سکتا ہے۔
خواتین کے بارے میں بھی واضح احکامات ہیں…
جیسا کہ سورۃ النور میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’(اے محمدؐ آپؐ) مسلمان عورتوں کو فرما دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں ان اعضاء (ہاتھ پیروں وغیرہ) کے سوا جن کے کھولنے کی (ضرورتاً) اجازت ہے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں میں ڈال لیں۔‘‘
اماں عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انصار کی عورتوں نے جب اللہ کا یہ حکم سنا تو اپنے پردے پھاڑ پھاڑ کر اپنی اوڑھنیاں بنالیں۔ (ابودائود)
اسی طرح دینِ اسلام نے عورت کو ایسا لباس پہننے سے بھی روکا ہے جو باریک ہو، یا ایسا چست کہ جسم کے خدوخال کو ظاہر کرے۔
ابودائود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماءؓ (اماں عائشہؓ کی بہن) باریک لباس میں آپؐ کے سامنے آئیں تو آپؐ نے ان کی جانب سے رخ پھیر لیا اور ارشاد فرمایا ’’اے اسماء! جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کا بدن دکھائی دے۔ البتہ یہ حصہ اور یہ حصہ (آپؐ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا)۔‘‘
میرا دین تو ایسا ہے جس نے عورت کو بلند مقام عطا کیا ہے، اس کی حیا اور اس کے تقدس اور پاکیزگی کے لیے پورا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا۔ میرے دین نے اسے دوبارہ حیا کی دیوی بنا کر گھر کی رانی بنا دیا۔ بیٹی ہو، ماں ہو، بہن ہو یا بیوی… ہر روپ میں اسے عزت کا تاج پہنایا گیا ہے۔ آج کی نام نہاد آزادی کی علَم بردار عورت اس تاج کو اپنے پیروں تلے کیوں روندنے پر تلی ہوئی ہے؟ آج عورت کی اس آزادی اور بے حیائی نے معاشرے میں ہزاروں برائیوں کو جنم دیا ہے جن کی تشہیر و نمائندگی ہمیں میڈیا پر چاروں طرف نظر آرہی ہے۔ کیا عزت کے ساتھ حیا کی چادر میں عورت گھر سے نکلنے سے قاصر ہے؟ یا اسے کوڑے برسائے جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ میرے آس پاس شرم و حیا، مکمل ستر پوشی اور حجاب کے ساتھ خواتین اپنی ذمہ داریاں وقار کے ساتھ انجام دے رہی ہیں جن کو لوگ عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ بے شک کسی نے سچ کہا ہے کہ حوا کی بیٹی خود تماشا نہ بنے تو مجال ہے کہ آدم کا بیٹا اس کا کچھ بگاڑ سکے!
یہ حقیقت ہے کہ آج کی عورت نے خود اپنے آپ کو زمانے میں تماشا بنایا ہے۔ وہ اپنے آخرت کے انجام سے بے خوف، زمانے کی انگلیوں پر ناچ رہی ہے۔ جس قسم کا لباس زیب تن کرکے سرِعام نکل رہی ہے اس سے وہ نہ صرف اپنا تقدس کھو رہی ہے بلکہ آخرت بھی گنوا رہی ہے۔ ایسی ہی خواتین کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکیں گی۔ ان سطور کے ذریعے میں خصوصاً والدین سے التجا کروں گی کہ آنے والا وقت اس سے برا ہوگا، لہٰذا اپنی بیٹیوں کی تربیت دینِ اسلام کے مطابق کریں، جو آگے چل کر پاک دامن بیویاں بن سکیں، جو اپنی آنے والی نسلوں کی بھی صحیح تربیت کرسکیں۔ بچیوں کو بچپن سے ہی ستر پوشی کی تلقین کریں، انہیں امہات المومنین اور صحابیات کے واقعات گوش گزار کریں تاکہ ان کے ذہن میں آئیڈیل خواتین یہ معتبر خواتین ہوں، نہ کہ میڈیا سے منسلک خواتین، جن میں سے اکثریت کا لباس اور حلیہ قابلِ مذمت کہا جا سکتا ہے۔
پھر سرِعام اس بے حیائی کے نتائج آئے دن ہمارے سامنے آرہے ہیں جس کی کچھ جھلک میں نے کالم کی ابتدا میں کہانی کے ذریعے پیش کی ہے۔ معاشرے میں پھیلے زنا، زیادتی، تشدد اور خودکشی کے واقعات وغیرہ سب اسی سرِعام بے حیائی کی وجہ سے جنم پارہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے آج سے کئی سال پہلے اپنی کتاب ’’پردہ‘‘ میں اس چیز کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مغرب کی زبوں حالی میں عورت کی آزادی اور بے حیائی قابل شمار ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو حیا سے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یارب العالمین۔