آج کیا بڑے کیا بچے، ہرایک کے ہاتھ میں اسمارٹ موبائل موجود ہے، یہاں تک کہ کچرا چننے والے سے لے کر ہر سوچ، ہر طبقے اور ہر عمر سے تعلق رکھنے والے کے ہاتھ میں اسمارٹ موبائل موجود ہیں۔ لہٰذا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے فحش ڈرامے، اشتہارات، لٹریچر اور فحش مواد ہر وقت آنکھوں کے سامنے موجود رہتے ہیں۔ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں دیکھنے پر مجبور ہیں۔ آپ کسی دینی اسکالر کی ویڈیو دیکھ رہے ہوں یا تعلیمی مواد کے لیے نیٹ سرچنگ کریں، آپ کی نظر کے سامنے ایسے فحش مناظر گزریں گے جنہیں آپ نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔ ان سب کا ذمے دار کون…؟
جب سانحہ موٹر وے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو چار دن تک ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بحث شروع رہتی ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ ہر دن ایک نیا واقعہ، ایک نیا سانحہ رونما ہورہا ہے۔
کیا… کیوں…کون… کب… اور کیسے…؟ سے نکل کر اس طرف آنا چاہیے کہ آیا ان سانحات کے رونما ہونے کے اسباب کیا ہیں اور ان کے لیے کون سے اقدامات ہوسکتے ہیں۔
جب الیکٹرانک میڈیا پر اس طرح کا مواد نشر کرنے پر پابندی کی بات ہوتی ہے اور اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے تو لبرل سوچ رکھنے والوں کے پیٹ میں مروڑ شروع ہوجاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر فحش مواد نشر ہونے پر پابندی عائد کرنے کی بات کی جاتی ہے تو لوگوں کو آزادیِ رائے کے حقوق یاد آجاتے ہیں۔
مرد اور عورت کے دائرۂ کار الگ الگ ہونے چاہئیں، اگر اس پر بات کی جائے تو حقوقِ نسواں کے عَلم بردار کھڑے ہوجاتے ہیں۔
موٹروے کے سانحے پر لوگوں کی زبانیں چلیں تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں، لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسلام میں آدھی رات کو عورت کے گھر سے نکلنے کو منع کیا گیا ہے۔ اسلام اور کن کن باتوں کو منع کرتا ہے ذرا تسلی سے ٹھیر کر ہم نے اس پر سوچا؟
ہمارے ملک میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے نئی نسل کو کس دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے؟کیا ایسے لوگوں کو سرِعام پھانسی نہیں دینی چاہیے؟ کیا مستقل بنیادوں پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے فحش مواد پر پابندی نہیں لگا دینی چاہیے؟ ایسے لوگوں کو چوکوں اور چوراہوں پر نہیں لٹکا دینا چاہیے جو خواتین کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی عزتوں کو تار تار کردیتے ہیں؟
ہر سطح کے تعلیمی اداروں سے مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور بنیادی اداروں میں بحیثیت ماں اپنی بیٹیوں اور خصوصاً اپنے بیٹوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
قوموں کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسے مواقع ضرور آتے ہیں، اس مقام پر ٹھیر کر سوچنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اگر آج مستقل بنیادوں پر اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرے کی تعمیر نہ کی گئی تو مستقبل میں اور بھی خوف ناک نتائج نکل سکتے ہیں۔