ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

1255

کتابِ فطرت کے سر ورق پر جو نامِ احمدؐ رقم نہ ہوتا
یہ نقشِ ہستی ابھر نہ سکتا ، وجودِ لوح و قلم نہ ہوتا
تیرے غلاموں میں نمایاں جو تیرا عکسِ کرم نہ ہوتا
تو بارگاہِ ازل سے تیرا خطاب خیر الامم نہ ہوتا
نہ رُوحِ حق سے نقاب اُٹھتا، نہ ظلمتوں کا حجاب اُٹھتا
فروغ بخشِ نگاہِ عرفاں، اگر چراغِ حرم نہ ہوتا
زمیں نہ ہوتی، فلک نہ ہوتا، عرب نہ ہوتا عجم نہ ہوتا
یہ محفلِ کون و مکاں نہ ہوتی اگر وہ شاہِ اُمم نہ ہوتا
نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر​
ترا دیں ارفع و اعلیٰ، شریعت ختم ہے تجھ پر

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں 7؍ ستمبر ایک عہد ساز دن ہے۔ ہم اسے یوم تحفظِ ختم ِنبوت اور یومِ تجدید عہد قرار دیتے ہیں۔ اس روز عقیدئہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کی سو سالہ طویل ترین جدوجہد ، فتح مبین سے ہمکنار ہوئی۔ 7؍ ستمبر 1974ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
عقیدئہ ختمِ نبوت، مسلمانوں کے ایمان کی اساس اور روح ہے۔ اگر اس پر حرف آجائے تو اسلام کی ساری عمارت دھڑام سے نیچے آگرے گی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثتِ انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے:۔
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo (الاحزاب، 33 : 40)۔
ترجمہ: ”محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلہِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔“
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصبِ نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب ِرسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایۃً عقيدئہ ختم ِنبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں، اور مشیتِ الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلۂ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح الفاظ میں اعلان فرمایا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
” اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے، لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔“(ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272)۔
اس حدیث ِپاک سے ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، ملعون اور ابلیس کے ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ صرف نشان دہی کر دی بلکہ ان کی تعداد بھی بیان فرما دی تھی۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“(ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب : ماجاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219)۔
اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے (خواہ کسی معنی میں ہو) وہ کافر، کاذب، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ اقدس پر تاجِ ختمِ نبوت سجایا اور تختِ ختمِ نبوت پر بٹھا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بنی نوعِ انسان کو عقیدۂ توحید کی عظیم نعمت عطا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ ختمِ نبوت پر ایمان، نجات و مغفرت اور حصولِ جنت کا ذریعہ ہے۔
حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ کے آخری زمانے میں بعض جھوٹے مدعیان ِنبوت نے سراٹھایا اور کفر وارتداد پھیلانے کی مذموم کوشش کی، مگر نبی ختمی مرتبت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپؐ ہی کے حکم پر ان فتنوں کے خلاف جہاد کر کے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ اسود عنسی، طلیحہ اور مسیلمہ کذاب کو اُن کے انجام تک پہنچایا۔ امیر المومنین خلیفۂ بلافصلِ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کذاب کے ارتداد کے خلاف جہاد کرکے قیامت تک تحریکِ تحفظ ِختمِ نبوت کا علَم بلند کر دیا۔
انگریز نے اسی جذبۂ جہاد کو مسلمانوں کے دل ودماغ سے نکالنے کے لیے جعلی اور جھوٹا نبی پیدا کیا۔ ’’قادیان‘‘ کے ایک لالچی اور بدکردار شخص ’’مرزا غلام احمد‘‘ کو دعویٰ نبوت کے لیے آمادہ وتیار کیا اور آخر کار اس بدبخت نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ مرزا قادیانی نے پہلا کام یہ کیا کہ انگریز کے خلاف جہاد کو حرام قرار دیا اور انگریز کی اطاعت و فرماں برداری کو ہی اصل ایمان قرار دیا۔
یہ لمحہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑی آزمائش تھا۔ تب علمائے حق نے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا اور اس فتنے کی سرکوبی کے لیے میدانِ عمل میں آئے۔ فتنۂ قادیانیت کو انگریز کی مکمل سرپرستی حاصل تھی اور آج بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فتنے کو کچلنے کے لیے مسلمانوں کے نوّے سال صرف ہوئے۔
۔1929ء سے پہلے فتنۂ قادیانیت کے خلاف جتنی جدوجہد ہوئی وہ انفرادی نوعیت کی تھی،
۔1953ء میں جنرل ایوب خان کی ہدایت پر لاہور میں پہلا مارشل لا لگا کر ہزاروں فدائینِ ختمِ نبوت کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیے گئے۔ بظاہر تحریک کو تشدد کے ذریعے کچل دیا گیا مگر… مسلمانوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک جوش، ولولہ اور جذبہ بیدار کر گیا۔
۔22؍ مئی 1974ء کو مرزائیوں نے پھر سر اٹھایا۔ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے اسلامی جمعیت طلبہ کےمسافر طلبہ پر حملہ کرکے انہیں زدو کوب کیا۔ یہ حادثہ شعلۂ جوالہ بن گیا۔ حق کا یہ سفر جاری رہا اور پورا ملک تحریک تحفظِ ختمِ نبوت کا میدان بن گیا۔ تحریک اتنی شدید اور طاقت ور تھی کہ اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں حل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تحریک کے دیگر مرکزی رہنمائوں نے قدم بہ قدم شب و روز ایک کرکے تحریک کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ ادھر اسمبلی کے اندر مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبدالحق، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور احمد اور ان کے رفقاء نے آئینی جنگ کرکے تحریک کا مقدمہ جیت لیا۔ آخر 8 ستمبر 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے تاریخی فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اور یہ فیصلہ ایک ترمیم کے ذریعے پاکستان کا قانون بنا۔
آج اس آئینی فیصلے کو 39 برس بیت گئے ہیں مگر مرزائیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ وہ آئے روز مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کا جال پھینکتے رہتے ہیں۔ علما کے خلاف نفرت پیدا کرنا، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا اور سیاسی طور پر پاکستان کو بدنام اور غیر مستحکم کرنا، اور ملکی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنا مرزائیوں کا نصب العین ہے۔
پاکستان میں موجود سیکولر انتہا پسند، لبرل فاشسٹ اور نام نہاد دانش ور بھی امریکا و برطانیہ کے یہود و نصاریٰ کی زبان بول رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مرزائیت کا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ اب ان کے خلاف کام کرنا ’’مولویوں کے پیٹ کا دھندہ‘‘ ہے۔ دوسری طرف وہ قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے کے استعماری مطالبے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ یہ محض پروپیگنڈہ نہیں بلکہ عالمِ کفر کا ایجنڈا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ، قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے کے لیے محنت کررہے ہیں، قادیانیت کو سمجھنے کے لیے یہی بات کافی ہے۔ مرزائی آج بھی ارتداد کی تبلیغ اور ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف مرزائی لٹریچر مسلسل شائع ہورہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی ہے۔ بلکہ موجودہ حکومت میں ختمِ نبوت کے لٹریچر کو بھی نعوذ باللہ فرقہ وارانہ تناظر میں لیا جارہا ہے۔ توہینِ رسالت آرڈی نینس کی مخالفت، شناختی کارڈ پر مذہب کے اندراج کی مخالفت میں مرزائی پیش پیش رہے ہیں اور آج فرقہ وارانہ دہشت گردی کے پس منظر میں بھی قادیانی سازشیں ہی کارفرما ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 7؍ ستمبر مسلمانوں کے لیے تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ مسلمان عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کو پوری قوت سے جاری رکھیں گے اور پرچمِ ختمِ نبوت ہمیشہ لہراتا رہے گا۔
اس وقت کی سب بڑی ملک و قوم کی خدمت یہ ہے کہ دینی شعور قوم میں بیدار کیا جائے، انسانوں کے حقیقی رہنما خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور ان کی پیروی ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ بقول اقبال

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ہم اسی پیغام کے ساتھ آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے محبت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی پیش کریں کیونکہ

میرا ایمان ہے کہ مر کے بھی امر ہو جاؤں
ان کی دہلیز کے قابل میں اگر ہوجاؤں

حصہ