ہر سال کی طرح اِس سال بھی دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ سیلابی ریلے کے باعث کشمور سے سکھر تک دریائے سندھ کے اطراف میں قائم تمام علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔ سیلابی صورت حال کے پیش نظر لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی وارننگ جاری کردی گئی ہے، جبکہ سیکڑوں دیہات پہلے ہی زیر آب آچکے ہیں۔ چاول، کپاس اور سبزیوں کی فصلیں تباہ اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی سندھ میں ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی تمام قیادت نے متاثرہ علاقوں کے دوروں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ سندھ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اس تباہی کو بنیاد بناکر وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت سے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے فی کس ایک لاکھ روپے، زخمی ہونے والوں کے لیے دو لاکھ، جبکہ جاں بحق افراد کے لیے فی کس پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کردیا ہے، جبکہ زرعی ترقیاتی بینک کے قرضے معاف کرنے اور ادائیگیاں مؤخر کرنے کے ساتھ ساتھ نہری نظام کی بہتری کے لیے 43 ارب روپے بھی مانگ لیے ہیں۔
یعنی اِس سال بھی سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی پر اربوں روپے خرچ کیے جائیں گے، اِس مرتبہ پھر دنیا بھر میں کشکول لے کر گھوما جائے گا، پھر سے لوگوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے امداد تقسیم کی جائے گی، کئی مہینوں تک تمام سرکاری وسائل استعمال کرکے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کام شروع کیے جائیں گے، اور جب تک آبادکاریاں مکمل ہونے کے قریب ہوں گی ایک مرتبہ پھر برسات شروع ہوجائے گی اور پھر سے پانی لوگوں کے دروازے پر ہوگا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس طرح سمندر کے کنارے بنائے جانے والے ریت کے گھروندوں کو آنے والی لہر اپنے ساتھ لے جاتی ہے بالکل اسی طرح دریائے سندھ کے اطراف کچے کے علاقوں میں قائم آبادیوں کو سیلابی ریلہ بہا کر لے جاتا ہے۔ ساحل پر بنے گھروندے ٹوٹنے کے بعد جس طرح بچے انہیں دوبارہ بناتے ہیں بالکل اسی طرح حکومت بھی دریائے سندھ کے ساتھ قائم بستیوں کی ازسرنو تعمیر کے لیے کمربستہ ہوجاتی ہے۔ یہ کہانی نئی نہیں بلکہ یہ ہر سال کا رونا ہے۔ ہم ستّر سال سے یہی کچھ ہوتا دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم سالانہ اربوں روپے ایک ایسے مرض پر لگاتے چلے آرہے ہیں جس کی تشخیص کی جاچکی ہے، ہمارے پاس اس کا علاج بھی ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کیے جانے والے علاج سے نہ صرف اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے ہماری معیشت پر بھی خاصے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آج میں کیسی گول مول باتیں کررہا ہوں! چلیے اپنی بات آسان لفظوں میں بیان کردیتا ہوں، دنیا میں ہم شاید وہ واحد قوم ہیں جس نے جانتے بوجھتے ہوئے آبی ذخائر کے بڑے منصوبوں کی تعمیر کو پسِ پشت ڈال کر خود کو سیلابی ریلوں کے حوالے کیا ہوا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جس نے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے قومی منصوبوں کو بھی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے آج دنیا بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے، لیکن ہم اس میدان میں بھی کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ ہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے درجنوں ڈیم بنا لیے ہیں، بھارت مستقل ہمارا پانی روک رہا ہے۔ جس تیزی سے وہ اس کام میں مصروف ہے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے ”پانی“ نایاب ہوجائے گا، اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ آنے والے برسوں میں جنگیں پانی کے حصول کے لیے ہی ہوں گی۔ یہ بات نہیں کہ ہم ڈیم کی افادیت سے لاعلم ہیں، ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ڈیم برسات کے بعد آنے والے سیلابوں کے سامنے دیوار کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن افسوس کہ ہم کالاباغ ڈیم جیسے بڑے منصوبے کو نہ صرف تعصب کی عینک لگاکر دیکھتے ہیں بلکہ اس گیم چینجر منصوبے کو حصولِ اقتدار کے لیے ایک لسانی نعرے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ کالاباغ ڈیم ملکی معیشت کو سہارا دینے اور پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے کس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے قیام پاکستان سے قبل 1873ء میں کیا تھا، فروری 1948ء میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کیا گیا، پھر ایوب خان نے بھی پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو ضروری سمجھا، مگر ایوب دور میں دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر زور شور سے جاری تھی اس لیے کالاباغ ڈیم صرف کاغذوں تک ہی محدود رہا۔ جب تک اس منصوبے یعنی کالاباغ کی تعمیر شروع کی جاتی اس سے پہلے ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی، پھر وہ وقت آیا جب اس لازوال منصوبے کو پاکستان کے لیے مضر قرار دیا گیا اور اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔ یہ بھٹو صاحب کا دور تھا۔ لیکن جو کالاباغ ڈیم کی اہمیت کو جانتے تھے وہ نہ رُکے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ بھٹو دور ختم ہونے کے بعد اس منصوبے پر صحیح معنوں میں کام جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں خصوصی طور پر ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کینیڈی کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی جس نے کالاباغ ڈیم کے حوالے سے رپورٹ تیار کی۔ 1983ء میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925 فٹ ہوگی، 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی اسٹور کیا جاسکے گا، اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ درکار ہوگا اور یہ پورے ملک کے 50 لاکھ ایکڑ بنجر رقبے کو سیراب کرے گا۔ 8 بلین ڈالر اس کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ 5000 میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔
جنرل ضیاء الحق کے حکم پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے گئے اور مشینری منگوائی گئی۔ کے پی کے نے اعتراض کیا کہ کالاباغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا۔ اس عذر کو دور کرنے کے لیے ڈیزائن میں تبدیلی لائی گئی اور ڈیم کی اونچائی 925 سے915 فٹ کردی گئی۔ سندھ میں موجود اُس وقت کی ”سول سوسائٹی“ نے اعتراض اٹھایا کہ پنجاب سندھ کا پانی غصب کرلے گا، یہ منصوبہ سندھ کے عوام کو منظور نہیں۔ تب جنرل ضیاء نے چاروں صوبوں کو پانی کی تقسیم کے ایک فارمولے پر راضی کیا۔ اس معاہدے اور فارمولے کے مطابق پنجاب 37 فیصد، سندھ 33 فیصد، کے پی کے 14 فیصد اور بلوچستان 12 فیصد دریائی پانی لینے پر راضی ہوگئے۔ ضیاء حکومت ایک حادثے کے نتیجے میں ختم ہوئی تو ایک مرتبہ پھر یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا اور آنے والی دونوں جمہوری حکومتوں نے اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے لیے حسبِ معمول اس کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا۔ جمہوری دور ختم ہوا تو جنرل پرویزمشرف نے کالاباغ سمیت ملک بھر میں 6 بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ”ڈیم نہیں بنائیں گے تو مر جائیں گے“۔ ان منصوبوں میں نیلم جہلم، کالاباغ، بھاشا، منڈا، اکھوڑی اور کرم تنگی ڈیم شامل ہیں۔ پرویزمشرف دور میں بھی یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ پرویزمشرف کے بعد بننے والی حکومتوں نے نہ صرف کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے کوئی اقدام نہ کیا بلکہ بھاشا، کرم تنگی، منڈا اور اکھوڑی ڈیموں کو بھی لٹکا دیا۔ پاکستان میں بننے والے آبی ذخائر کے آدھے درجن سے زائد منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا وہ اپنی جگہ، چونکہ اِس وقت میرا موضوع کالاباغ ڈیم ہے اس لیے اس افادیت پر ہی بات کرلیتے ہیں۔
پاکستان کے تینوں بڑے ڈیموں تربیلا، منگلا اور چشمہ کی پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ ہے، جبکہ کالاباغ ڈیم اکیلے 6 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی ذخیرہ کرے گا، جبکہ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ کالاباغ ڈیم پاکستان کی 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرے گا۔ نہری پانی کی فی ایکڑ پیداوار آج کل تین لاکھ روپے سالانہ ہے۔ اس حساب سے صرف کالاباغ ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 15 ارب ڈالر کی زائد زرعی پیداوار ملے گی جس کے بعد پاکستان کو زرعی اجناس میں سے کچھ بھی درآمد نہیں کرنا پڑے گا، البتہ پاکستان کی زرعی برآمدات دگنی ہوجائیں گی۔
خیبر پختون خوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے، سندھ کے زیریں علاقے اور بلوچستان کے مشرقی حصے اس ڈیم کے پانی کی بدولت قابلِ کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان کو زرعی مقاصد کے لیے مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا اور وہاں کی تقریباً 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابلِ کاشت ہوجائے گی، جس کے بعد کے پی کے کو کسی بھی صوبے سے گندم خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کو بھی اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوگا، سندھ میں خریف کی کاشت کے لیے پانی دستیاب ہوگا جس کی اس وقت شدید قلت ہے۔ سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس کالاباغ ڈیم سے بجھ سکے گی۔ اس زرعی پانی سے سندھ کی 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہونے کے علاوہ سیم زدہ لاکھوں ایکڑ زمین قابلِ کاشت ہوجائے گی۔ سب سے اہم یہ کہ ہر برسات کے بعد سیلابی ریلوں کے نتیجے میں آنے والی تباہی سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگا۔
بلوچستان کو اس ڈیم سے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا ہے جس سے مشرقی بلوچستان کا تقریباً 7 لاکھ ایکڑاضافی رقبہ سیراب ہوسکے گا اور شاید بلوچستان میں پہلی بار لہلہاتی فصلیں دیکھنے کو ملیں۔
کالا باغ ڈیم سے پاکستان 4 سے 5 ہزار میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرے گا۔ تقریباً ڈھائی روپے فی یونٹ۔ اس وقت پاکستان 60 فیصد سے زائد بجلی تیل سے بنا رہا ہے جو ہمیں 15 سے 20 روپے فی یونٹ پڑتی ہے یعنی سالانہ 200 ارب روپے۔ اگر کالاباغ ڈیم سے بننے والی بجلی سسٹم میں داخل ہوتی ہے تو یہ خرچہ آدھا رہ جائے گا، اور عوام کو ملنے والے بجلی کے بل ایک تہائی رہ جائیں گے۔ جب بجلی سستی ہوگی تو لازمی طور پر کارخانوں میں اشیاء کی پیداواری لاگت نہایت کم ہوگی، جس کے بعد وہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ اور یہ بات تو ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ پاکستانی کارخانوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے تو پاکستان میں بند ہونے والے تمام کارخانے چل پڑیں اور لاکھوں لوگوں کو فوری طور پر روزگار مل جائے گا، پاکستان کی برآمدات کئی گنا بڑھ جائیں گی، درامدات کم ہوجائیں گی، سستی بجلی اور لیبر کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوگا جس کا مطلب مزید پیداوار، مزید روزگار اور مزید صنعتی ترقی… جس کے نتیجے میں پاکستانی زرمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ کالاباغ ڈیم منصوبے میں کم از کم 60 ہزار لوگوں کو براہِ راست ملازمتیں ملیں گی۔ اس ڈیم کی وجہ سے بڑھنے والی زرعی اور صنعتی پیداوار اور کم ہونے والی درآمدات کی وجہ سے پاکستان چند برسوں میں بیرونی قرضہ چکانے کے قابل ہوجائے گا۔
اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسا منصوبہ جس کی تعمیر سے تمام پاکستان خصوصاً صوبہ سندھ کو سیلاب سے محفوظ کیا جاسکتا ہے اسے کیونکر دفن کیا جارہا ہے؟ ایک ایسا منصوبہ جس کی تکمیل سے سستی بجلی حاصل کرکے پاکستان کو روشن کیا جاسکتا ہے کس ایجنڈے کے تحت اندھیروں میں دھکیلا جارہا ہے؟ایک ایسا منصوبہ جس کی تعمیر سے ملک بھر کی بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنایا جا سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیےپانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے اس کی مخالفت کرکے کس کے مفادات کی خاطر سالانہ اربوں روپے کا پانی سمندر میں غرق کیا جارہا ہے؟ہمیں سوچنا ہوگا اپنے ملک کے لیے،آنے والی نسلوں کے لیے۔پانی ایک نعمت ہے، اس نعمت کو محفوظ کرنے کے انتظامات کرنے ہوں گے، سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک ہم اسی طرح سیلابوں کی تباہ کاریوں کے بعد بحالی کے نام پرسالانہ اربوں کھربوں روپے لگاتے رہیں گے!