مرتب: اعظم طارق کوہستانی
پانچویں قسط
m سیکولرازم اور اس کا خراج:مغربی تہذیب کی عمارت جو اس قسم کے اینٹ مسالے سے تیار ہوئی ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے سید مودودیؒ ؒ جیسے صاحب ِفراست لوگوں کے لیے اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہ تھی کہ سیکولرازم‘ نیشنلزم اور جمہوریت جیسے مغربی نظاموں کی نمایاں اقدار انسان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ ان کی رائے میں ان تین نظاموں نے مل کر نسلِ انسانی کے اوپر عذاب کی مثلث مسلط کر رکھی ہے۔ سیدمودودیؒ بتاتے ہیں کہ مغرب کا یہ اصرار کہ ان کے سیکولر نظام حکومت میں مذہب کوئی مداخلت نہ کرے‘ یہ دراصل عیسائی پادریوں کے مرتب کردہ علم الٰہیات (Theology) کے خلاف ردِعمل تھا‘ جس نے اس کی آزادی اور نشوونما کو اپنے پنجے میں جکڑ کر سخت ذہنی صدمے سے دوچار کر رکھا تھا۔ وہ بار بار دہرائے جانے والے اس پٹے ہوئے جملے (cliche) کو: ’’مذہب انسان اور خدا کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے‘‘ تہذیب حاضر کا کلمۂ شہادت قرار دیتے ہیں۔ اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا ضمیر خدا کے وجود کی گواہی دیتا ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں خدا کی عبادت کرتا پھرے‘ لیکن سیکولر نظام حکومت میں مذہب کو دخیل کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے … اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قسم کے دنیوی تعلقات‘ خواہ وہ تعلیم سے متعلق ہوں یا تجارت‘ قانون اور سیاست سے تعلق رکھتے ہوں‘ یا پھر بین الاقوامی تعلقات سے بحث کرتے ہوں‘ وہ سب کے سب مذہب کی گرفت سے یکسر آزاد ہوگئے۔ فیصلے اقدار کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ موقع محل کی مناسبت سے کیے جاتے ہیں جن میںاصلاً نفسِ انسانی‘ ثالث کا کردار ادا کرتا ہے (ایضاً)۔ ان کے نزدیک یہ دکھ کی بات تھی کہ ’’انفرادی زندگی بھی ’’بے خدا‘‘ تعلیم اور لادینی معاشرتی اثرات کے سبب لادینیت کا شکار ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کی شخصی شہادت اور اس کی عبادت کا علانیہ اظہار بھی اب بالخصوص ان لوگوں کی جانب سے نہیں ہوتا جو اس نئی تہذیب کے اصل محرک اور مبلغ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے وجود کو عوام کے دل و دماغ کی دنیا سے محو کر دینے کے اس لادینی منصوبے کو وہ غیر منطقی قرار دیتے ہیں: یہ بات ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کرنا‘ جس کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے‘ عقل و شعور سے عاری بات ہے۔ اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق‘ مالک اور حاکم ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی عمل داری محض ایک شخص کی نجی زندگی تک محدودرہے ‘اور جہاں سے انسانوں کے درمیان اجتماعی تعلقات کا آغاز ہو‘ وہاں اس کے اختیارات کی حد ختم ہو جائے۔ یہ حدبندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے‘ اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خود ہی اپنے اور خدا کے تعلقات کی حدود مقرر کر لی ہیں پھر یہ اپنے خالق‘ مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو‘‘۔(ایضاً)۔
سید مودودیؒ کے افکار کے مطالعے سے سیکولر ذہن کی یہ غلطی مزید نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے: کسی صحیح الدماغ شخص کے لیے یہ تسلیم کرنا دشوار ہے کہ ہر شخص اپنی شخصی اور ذاتی حیثیت میں تو خدا کا بندہ ہو‘ لیکن جب بہت سے افراد مل کر ایک معاشرہ کی تشکیل دیں تو وہ سب افراد خدا کی بندگی سے نکل جائیں یعنی انفرادی طور پر تو سب رب کو رب تسلیم کریں‘ لیکن اجتماعی سطح پر اس کی ربوبیت کا انکار کر دیں۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو حواس سے عاری شخص کے ذہن میں ہی آسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی رہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے‘ نہ محلے اور شہر میں‘ نہ مدرسے اور کالج میں‘ نہ منڈی اور بازار میں‘ نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہائوس میں‘ نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سکرٹریٹ میں‘ نہ چھائونی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں‘ تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں اسے مانا جائے اور خواہ مخواہ اس کی عبادت اور بندگی کی جائے جو زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا‘ یا معاذاللہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی۔(ایضاً)۔
زندگی کو انفرادی اور اجتماعی خانوں میں بانٹنے سے لازماً مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سید مودودی علیہ الرحمہ کا موقف ہے کہ جس چیز کو لوگ ذاتی زندگی کہتے ہیں‘ اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے‘ کیونکہ انسان ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولتا ہے جس میں وہ اجتماعیت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کے والدین انسانی سماجی تعلقات کی بدولت ہی ازدواجی رشتے میں بندھے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کی گود ہی میں دن کی پہلی کرن سے واقف ہوتا ہے اور معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ جب وہ سنِ بلوغت کو پہنچتا ہے تو اپنے آپ کو معاشرے اور اس کے مختلف اداروں میں گھرا ہوا پاتا ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ انسانوں کو دوسرے انسانوں سے جوڑنے والے بے شمار روابط اپنی ساخت میں صحت مند ہونے چاہییں کیونکہ یہ ان کی فلاح و بہبود کا نقطۂ آغاز ہے۔ باہمی تعلقات کی ایسی صحت مند اور اعلیٰ اقدار صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی جا سکتی ہیں۔ سید مودودی لکھتے ہیں: جہاں انسان اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود مختار بنا‘ پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی رہنمائی سے محروم ہو جانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربے کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان رہنمائی کے لیے رجوع کر سکے۔
یہی بات رسل کرک (Russell Kirk) نے کئی برس کے بعد ان الفاظ میں کہی:
The sanction for obedience to norms must come from a source higher than private speculation: Men do not submit long to their creations. Standard, erected out of expediency will be hurled down, soon enough, also out of expediency.
معروف اقدار کی پابندی ایک ایسی ہستی عائد کر سکتی ہے جو ہمارے فہم و شعور سے بالاتر ہو۔ انسان زیادہ طویل عرصے تک اپنی تخلیقات کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ مصلحت کی بنیاد پر بنائے گئے معیار بہت جلد مصلحت ہی کی بنا پر روند ڈالے جاتے ہیں‘‘۔
سیکولرازم فرد اور معاشرے دونوں کے لیے جو مسائل کھڑے کرتا ہے‘ سید مودودیؒ ؒ اسے بھی عمدہ طریقے سے بیان کرتے ہیں: جس معاشرے کا نظام لادینی اصول پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم‘ ناانصافی‘ بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھُس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی‘ طبقاتی‘ قومی اورنسلی خود غرضیاں مسلط ہو گئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو‘ ہر ایک شخص نے‘ ہر ایک گروہ نے‘ ہر ایک طبقے نے ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے‘ پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص‘ گروہوں‘ طبقوں اورقوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ اگر کسی شعبے کو اہمیت اور وقعت دی جاتی ہے تو وہ صرف اور صرف قوت و اختیار ہے جس میں طاقت سے ہی ڈرا جاتا ہے۔ درحقیقت لادینی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کسی کے حدود و تصرف میں صرف اور صرف طاقت کی عمل داری کو ایک منطقی اور فطری اصول کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ پس لادینی معاشرتی نظام کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرز عمل کو اختیار کرے گا بے لگام‘ غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس ہو کر رہے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعہ اقوام۔
قوم پرستی (Nationalism) اور اس سے ملتی جلتی عصبیت (Irredentism) کا آغاز یورپ میں اٹھارھویں صدی کی ابتدا میں ہوا اور یہ دونوں تحریکیں تیزی سے پھلنے پھولنے لگیں کیونکہ گذشتہ صدیوں کے دوران میں آنے والی تبدیلیوں کے سبب بادشاہتوں کی شکست و ریخت شروع ہو چکی تھی۔ سید علیہ الرحمہ نے قوم پرستی کے باعث نوعِ انسانی کو پہنچنے والے ان نقصانات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ قوم پرستی کی ابتدا اِس معصومانہ سوچ سے ہوئی تھی کہ ہر قوم کو اپنے معاملات چلانے کے لیے حکمت عملی خود وضع کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن جب قومیت کا تصور مستحکم ہو گیا تو اس نے خدا کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کر دیا اور ’’قومی مفادات‘‘ کو اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کا درجہ دے دیا۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ سید مودودیؒ قومیت کے تصور کے یکسر خلاف تھے۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ قوم پرستی کو خداپرستی کا درجہ نہ دیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومی مفادات کو اچھے اور برے میں تمیز کرنے والے عالمی اخلاقی معیارات سے بدل دینا خطرناک ہوگا۔
قوم پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی بھی چیز خواہ وہ عدل و انصاف کے منافی ہو یا پرانی مذہبی روایات میں گناہ کبیرہ سمجھی جاتی ہو‘ اگر وہ قوم کے لیے نفع بخش ہے تو اسے ایک پسندیدہ فعل سمجھا جائے۔ اسی طرح کوئی بھی امر جو حق و انصاف اور ایمان داری پر مبنی ہو یا جسے کسی زمانے میں اخلاق کی انتہا سمجھا جاتا تھا‘ اگر وہ قوم کے لیے نقصان دہ ہے تو اسے ایک ناپسندیدہ کام قرار دیا جائے۔ اسی طرزِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو اپنی قوم کی خاطر اپنی جان‘ مال‘ وقت‘ حتیٰ کہ ضمیر اور عقائد تک کو قربان کر ڈالے‘ اسے ایک مثالی شہری سمجھا جائے گا۔
ایسے معاشرے میں اجتماعی کوششوں کا محور اپنے شہریوں کو یہ تعلیم دینا ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی قوم کی عظمت کی بلندی کے لیے کام کریں: نیکی وہ ہے جو قوم کے لیے مفید ہو‘ خواہ وہ جھوٹ ہو‘ بے ایمانی ہو‘ ظلم ہو‘ یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو پرانے مذہب و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو‘ انصاف ہو‘ وفاے عہد ہو اور اداے حق ہو یا اور کوئی ایسی چیز جسے کبھی فضائلِ اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ افرادِ قوم کی خوبی اور زندگی و بیداری کا پیمانہ یہ ہے کہ قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ کرے‘ خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی‘ اخلاق و انسانیت کی قربانی ہو یا شرافتِ نفس کی‘ بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہو کر قوم کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کو پورا کرنے میں لگے رہیں۔ اجتماعی کوششوں کی غایت اب یہ ہے کہ ہر قوم ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائے اور ان میں ایکا اور نظم پیدا کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم کا جھنڈا بلند کریں۔(ایضاً)۔
(جاری ہے)