ایسا ہے میرا کراچی

347

کراچی اور یہاں کے رہنے والوں کے بارے میں جس سے بات کرو، اُس کی بات کراچی کے کچرے سے آگے نہیں بڑھتی۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس شہر میں کس قدر آبادی سموئی ہوئی ہے، یہاں کے لوگوں کو پانی، بجلی، رہائش کے لیے کن کن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بڑی بڑی فیکٹریوں کو چلانے کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیتا ہے، اور ان کو ملتا کیا ہے؟ ہر تین ماہ بعد پھر تین ماہ کے کنٹریکٹ پر بھرتی۔ مستقل ملازمت اور مراعات تو دور کی بات ہے۔
یہاں کے شہری پینے کا پانی خریدتے ہیں، ایسے ہی جیسے دودھ خریدتے ہیں۔ پانی کا ایک مگ اتنا قیمتی ہے جتنا دودھ کا ایک کپ۔ سارا سارا دن باہر جان مار کر گھر کو لوٹنے والے طویل راستوں سے ہوکر گزرتے ہیں تو یونہی ان کا سفر اتنا طے ہوجاتا ہے جتنا عموماً ایک سے دوسرے شہر تک کے لیے کوئی کرے۔ یہاں کے رہنے والوں کو کبھی غور سے دیکھیں، صبح شام بری طرح سے بسوں میں لد کر سفر کرتے ہیں، بسیں بھی ایسی جن کے اپنے پرزے دہائیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ طالب علم بھی تدریسی اداروں تک ایسے پہنچتے ہیں جیسے کسی زمانے میں جبری مشقت پر مامور غلاموں کو کام کی جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ لمبے لمبے راستے اور سفر کرنے کو سڑکیں دیکھیں تو ہنس لیا کریں۔ آخر کہاں تک روئیں گے!
یہاں بجلی بھی ایک نعمت ہے، وہ علاقے جہاں عموماً لوئر کلاس طبقہ رہتا ہے، وہاں آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تو معمول ہے، اس پر بھی جب کے الیکٹرک کا دل چاہے رات رات بھر بجلی غائب ہوجاتی ہے۔
اووربلنگ گویا ٹرینڈ بن گئی ہے، وہ گھر جہاں کُل متاع ہی دو پنکھے، تین چار انرجی سیور اور ایک ٹی وی یا فریج ہوتا ہے، وہاں بھی ہزاروں کے حساب سے بل پہنچائے جاتے ہیں، اور بل بھریں تو کہاں سے؟ پھر ان ستائے ہوئے لوگوں کا وقت صاحب لوگوں کی منتیں کرتے گزرتا ہے۔ بہت ہوا تو دفتر کے باہر چند احتجاجی نعرے لگا کر پھر گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔
جو کچرے کے ڈھیر جگہ جگہ اس شہر کا چہرہ خراب کرتے ہیں وہ کچرا بے شک یہاں کے مکینوں کا پھیلایا ہوا ہے، لیکن ایک دفعہ سوچیں تو کہ اتنی بڑی آبادی کے شہر میں کچرا تو ہوگا، اس کچرے کو ٹھکانے لگانا عوام کا کام ہے یا حکومت کا؟ شہری بے بس ہیں، سڑکوں کے کنارے نہ پھینکیں تو پھینکیں کہاں!
یہاں کے لوگوں کی رہائش دیکھیں، ریڑھ کی ہڈی یعنی محنت کش طبقہ، صبح 9 سے شام 5بجے تک ملازمت کرنے والے، ٹھیلوں اور چھوٹی دکانوں سے اپنی روزی کمانے والے چھوٹے علاقوں کے مکین… ایک گھر کی جگہ پر چار چار گھر بناکر کرائے پر چڑھا دیتے ہیں اور ایک دو کمروں کے گھر میں پورے پورے خاندان زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ اس شہر پر نظر دوڑائیں، یہ وہ شہر ہے جسے روشنیوں کا شہر کہتے ہیں، یہ وہ شہر ہے جہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں، اور کہنے والے کہتے ہیں اس غریب پرور شہر میں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہاں کی ہوا مہربان ہے اور یہاں کے مکین کشادہ دل۔ کوئی بھی موقع ہو یہاں کے لوگوں کی زندہ دلی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ وہ شہر جہاں دیگر شہروں سے آنے والے لوگ کبھی کچرے، کبھی پانی، تو کبھی بجلی کے مسئلے پر ناک بھوں چڑھا رہے ہوتے ہیں، یہاں کے باسی انہی حالات میں مستقل رہتے ہیں اور شکوہ بھی کم ہی کرتے ہیں۔ کریں بھی تو کس سے؟ یہاں کے اربابِِ اختیار تک بے اختیاری کا روتے ہیں۔
اس شہر کے لوگوں کے لیے تفریح کا سستا ترین ذریعہ سمندر ہے، صرف کرائے کا انتظام کرو اور گھر سے کچھ بنا کر ساحل پر کھاؤ پیو، ایک اچھا دن گزارو اور پھر اپنی مشقت بھری زندگی میں لوٹ آؤ۔ اسی شہر میں فائیو اسٹار ہوٹل بھی ہیں جہاں تک پہنچ بھی ایک مخصوص طبقے کی ہے۔
لوگ ایسے میں جب میئر کی طرف فریاد کے لیے دیکھتے تو میئر ’’اختیارات‘‘ کی کمی کا رونا روتا نظر آتا۔ انسان کس کو کچھ کہے! یہاں تو سب تماشائی ہیں، یہ ہر طرح کے حالات میں کراچی والوں کی تباہ حالی اور موت کا تماشا دیکھتے ہیں اور پھر لوگوں کو بین بجا کر سلا دیتے ہیں، اور میرے شہر کے بھولے لوگ بھی رات گئی بات گئی کہہ کر پھر اسی سنہری جال میں پھنس جاتے ہیں۔
ہمارے لوگ بہت سیدھے ہیں، سارے ظلم سہتے جاتے ہیں، الیکشن آتے ہیں تو ووٹ کی پرچی پر وہیں مہر لگا آتے ہیں اور پھر وہی سب دیکھتے دیکھتے مر جاتے ہیں۔
جب کبھی کراچی کو ڈوبتا، سسکتا دیکھیں تو اس شہر اور اس کے مکینوں کے لیے دعا ضرور کیا کریں، کیوں کہ کچھ بھی ہے، پورے پاکستان کو چلاتا ہے میرا کراچی۔

حصہ