قائداعظم کا پاکستان

410

پاکستان ایک ملک کہ جس کو برصغیر کے مسلمانوں نے تاریکی اور نا امیدی کے پردوں کو چاک کرکے حاصل کیا۔ جان فشانی اور قربانیوں کی عظیم داستان رقم تھی۔ برصغیر کے مسلما نوں نے اپنی شناخت اور نظریے کی بنیاد پر تمام تر اختلافات کو مٹا ڈالا اور صرف ایمان اور کلمہ طیبہ کو پہچان بنا کر ایک سرزمین پر جھنڈا گاڑا جس کی بنیادوں میں کلمہ طیبہ کی روح پھونکی اور نعرہ تکبیر سے فضا کو معطر کیا۔
پاکستان، ہماری امیدوں اور تعبیروں کی سر زمین، جہاں خوابوں کو پنپنا تھا اور حقیقت کو راج کرنا تھا۔ کیا ہم ان نظریات سے واقف ہیں جن کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں خود کو یکجا کیا؟ کیا ہم ان نظریات و قوائد پر عمل پیرا ہیں جس کے تحت قرارداد پاکستان منظور کی گئی اور مسلمانوں کی آزادی کو یقینی بنایا گیا؟ اس کا سادہ جواب ہے نہیں! ہم وقت کے دھارے پر ان تمام عوامل اور وجوہات کو فراموش کرکے نسلی رسا کشی اور تفرقہ بازی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ہم ایسے زہر آلود ذہن کے مالک بن چکے ہیں جہاں ذات پات، رنگ و نسل اور افراد کی انفرادی حیثیت کو غالب رکھا جاتا ہے۔ ہم نے تاریخ کو مسخ کرڈالا ہے۔ ہم غیر مذاہب کے شرارتوں اور سازشوں کا شکار ہوکر اپنی بقا کے سارے وسائل خود جلا بیٹھے ہیں۔
اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جسے ہمارے قائد اعظم نے بنایا تھا تو اس کا جواب صرف نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ ہم ٹولیوں اور محاذوں پر بٹی قوم ہیں۔ ہمیں علم نہیں کہ ہم کس جنگ کا حصہ ہیں۔ ہم کون سے محاذ پر ڈٹے بیٹھے ہیں؟ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ آیا ہم کسی غیرملکی شکنجے میں جکڑ چکے ہیں یا اس ملک کی جڑوں میں سازشی قوتوں نے اپنی جگہ بنارکھی ہے۔ یہ سب ہماری غفلت اور نفاق کا نتیجہ ہے۔ ہم نے اپنے عقیدے کو بنیاد بنانے کے بجائے مصنوعی شناخت کو اپنا کر اپنے اعلیٰ اقدار اور شاندار ماضی کو فراموش کرکے خود کو کمزورکر ڈالا۔ ایمان کی ڈور کو تھام کر مضبوط ہونے کے بجائے تنکوں کی طرح بکھر کر غیر مسلم قوتوں کو فتح یاب کرکے نہ صرف اسلام بلکہ ملکی سالمیت کو بھی نقصان پہنچایا۔ ہم بھول گئے کہ پاکستان کی تکمیل اس وقت ہوئی جب نہ کوئی شلوار قمیض پہننے والا تھا نہ بوٹ ٹی شرٹ بلکہ صرف ایک کلمہ طیبہ تھا ‘جس کے سائے تلے سب قائد اعظم کے پیچھے چل پڑے، ظلم وزیادتی، رنگ و نسل کی پاسداری ناپید ہو اور اخوت و بھائی چارہ اور برابری کے حقوق متعین ہوں۔ جہاں اسلامی عقائد کو بالادستی ملے اور مسلمان علم و شعور کے ذریعے اپنے ثقافت اور پہچان کو واپس حاصل کرسکیں۔
آزادی کے پہلے ہی سال ہم نے اپنے قائد کو ڈھلتے دیکھا۔ ہماری بے حسی تاریخ میں رقم ہے۔ ہم نفاق کے اس قدر عادی قوم ہیں کہ لیاقت علی خان کوتحفظ تک نہ دے سکے۔ آزادی کے چند سال بعد ہی آمریت کے شکار ہوگئے اور سیاسی و سماجی بے ترتیب کی وجہ سے بالآخر مشرقی پاکستان کو قومیت پرستی کے باعث کھو بیٹھے۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ پڑوسی ملک نے ہم سے اچھے روابط نہیں رکھے، دکھ اس بات کا ہے کہ ہم خود ان سازش کرنے والوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہے اور خود اپنی جڑوں کو نقصان پہنچاتے رہے۔ کبھی آمریت تو کبھی جمہور کے ہاتھوں ہمیں نقصان ہوتا رہا۔ اس کی صرف اور صرف بیرونی مداخلت اور اندرونی تفرقہ بازی وجہ ہے۔ ہمارا کوئی اپنا قانون نہیں،کوئی قواعد نہیں۔ عدالتی نظام میں تسلسل نہیں۔ کوئی مستحکم اور مضبوط لائحہ عمل نہیں جس کی بنیاد پر قومیں ترقی کرتی ہیں۔ اپنی بہادری اور جان بازی سے اپنی ساخت کو قائم رکھتی ہیں۔ ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں جس سے ہمارے ملک کی سالمیت کو پہچان ملے۔ کوئی ادارہ نہیں جو سیاسی و مذہبی ٹکراؤ کا شکار نہ ہو۔ کرپشن بڑا جرم نہیں۔ چوری، لوٹ مار اور سیاسی پناہ میں ملک کولوٹنے والوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہیں۔ مسلمان طلبہ و طالبات جو قیام پاکستان میں اہم حصہ تھے موجودہ دور میں ہم نے جوان نسل کو نہ صرف غیر محفوظ کیا بلکہ ان کے عقل و شعور میں جوش و ولولہ کا بھی فقدان واقع کردیا۔ نہ تعلیمی نظام بہتر بنایا اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہونے والے حالات و واقعات کو ضرورت کو محسوس کیا۔ ہم نے جوان نسل کی مثبت صلاحیتوں کو جن سے تقدیریں بدل جاتی ہیں محض فرضی دنیا کے خواب دکھاتے رہے۔ ان کو عملی دنیا میں علم و فہم کے مربوط نظام کے بجائے، ناامیدی اور تنزل پسند معاشرے کا حصہ بنا دیا۔
یہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں نہ ایک نظریہ کام کرتا ہے نہ ہی ایک سوچ۔ سب حصوں میں بٹ کر اپنے کارناموں کے قلعے بنا کے خود کو قید کر بیٹھے ہیں۔ ہم اس ملک کا حصہ ہیں جہاں ہر محلہ کچروں کا ڈھیر ہے۔ جہاں پینے کا پانی بھی بیچ دیا جاتا ہے۔ جہاں بچے ظلم کا شکار ہوتے ہیں‘ ہم اس ملک کے باسی ہیں جہاں آنکھ اور کان بند کرکے صرف اپنے سانس لینے اور پیٹ بھرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ جہاں استاد گھریلو چپقلش کے باعث شاگرد کو جان سے مار ڈالنے سے گریز نہیں کرتا۔ جہاں پیسے سے سب کچھ خرید لیا جاتا ہے۔
ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جنھوں نے حکیم محمد سعید صاحب جیسے درویش صفت انسان کو اپنی ہاتھوں مار ڈالا وہ شخص جو اپنے خاندان کو صرف پاکستان کے واسطے چھوڑ آیا تھا۔ ہم نے اپنے رب سے کیے وعدوں سے سرکشی کی جس کے لیے ہم نے یہ ملک حاصل کیا، جس کلمے کو نعرہ بنایا ہم نے اس ملک کو داغ دار کر رکھا ہے۔ اس عہد وفا کو بھلا دیا جو بانی ٔ پاکستان سے کیا تھا۔ ان بزرگوں، مرد، عورت، بچوں، جوانوں سب کی امیدوں کو رسوا کیا ہے جنہوں نے اپنے جانوں پر کھیل کر ہمارے ہاتھوں میں اس ملک و قوم کی باگ ڈور دی تھی۔ ہم وہ ذمہ داری نہیں نبھا پائے جس کا یقین ہمارے شہداء رکھتے تھے۔
یہ ملک ہمارے قائد اور ہر اس ذی روح کی امانت ہے جس نے نگہبانی اور حفاظت ہمارے کاندھوں پر رکھی تھی۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی‘ اب بھی ہم اپنی صفوں میں کھڑے ہو کر ملکی سالمیت کو مرکزیت بخش سکتے ہیں۔ ہم قائد اعظم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوکر عالم اسلام کا قلع بن کردنیا کے نقشے پر دوبارہ ابھر سکتے ہیں کیوں کہ قائدا عظم نے جس ملک کی بنیاد ڈالی تھی وہ ٹھوس اور مکمل نظام تھا جس میں ردو بدل کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان قائداعظم کا پاکستان ہے اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔

حصہ