کراچی نے ڈوبنا ہی تھا

621

۔’’دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔

اس شعر کے حوالے سے جو پس منظر ’’آب حیات‘‘ میں درج ہے کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے شعراء اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے ایک شریف زادے جس کی عمر 12 یا 13 برس تھی، اس نے غزل پڑھی جس کا مطلع تھا‘‘۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

گرمیٔ کلام پر سودا بھی چونک پڑے، پوچھا یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا حضرت یہ صاحبزادہ ہے، سودا نے بہت تعریف کی اور کئی مرتبہ پڑھوایا۔ پھر کہا ’’میاں لڑکے۔ تم جوان ہوتے نظر نہیں آتے‘‘۔
خدا کی قدرت کچھ دنوں بعد خیر ملی کہ وہ لڑکا جل کر مر گیا ہے ’’ریختہ‘‘ میں شاعر کا نام مہتاب رائے تاباں درج ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزل کا مطلع چونکا دینے والا تھا۔
آج کراچی کا جو حال ہے اسی شعر کی نسبت سولہ آنے درست ہے۔ اس نوجوان کو تو ’’سودا‘‘ نے کہہ دیا تھا کہ ’’میاں تم جوان ہوتے دکھائی نہیں دیتے‘‘۔
کراچی کے نوجوانوں سے تعلق سودا اگر آج زندہ ہوتے تو یقیناََوہ آج بھی یہاں کے نوجوانوں اور شہریوں کے لیے اپنی بات دھرا رہے ہوتے۔ مجموعی طور پر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف ’’حالاتِ حاضرہ‘‘ پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ماضی بعید تو دور کی بات ہے ’’ماضی قریب‘‘ بھی ہماری یاداشت سے محو ہو جاتا ہے۔ آج جو حالت کراچی شہر کی ہے اس حوالے سے ہر ایک کی زبان پر بارش، سیلابی کیفیت اور اس کی تباہ کاریاں ہیں۔
مگر کم ہی احباب یہ بات جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اس حال کو پہنچنے تک بیس تین چالیس سال کا عرصہ لگا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں اس بات کا تفصیلی ذکر کیا تھا کہ کراچی قدرتی طور پر ایک نشیبی خطہ ہے۔ ایک طرف سمندر ہے جس کے سطح شہر سے بلند ہے (صرف شام 5 بجے سے رات چار بجے تک سمندر کی سطح قدرے کم ہوتی ہے۔) اور پھر شام سے رات کے دوسرے پہر تک کراچی کا پانی سمندر میں جا سکتا ہے۔ صبح سے شام تک سمندری کا پانی داخلی راستوں میں داخل ہو کر پانی کے قدرتی بہائوں کو روکتا ہے۔ بلکہ بڑی حد تک ندی نالوں میں واپس شہر کی جانب آتا ہے۔ اور پھر چاند کی تاریخوں کے حساب سے بھی سمندر کی جولانیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔
کراچی کے ایک طرف سمندر کی اونچائی اور دو اطراف پہاڑوں کی موجودگی۔ بلوچستان اور ہمالیہ سلسلے کی آخری دم یعنی پہاڑی سلسلہ بلوچستان اور منگھو پیر، سپرہائی وے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مون سون کے موسم میں جب شدید بارشیں ہوتی ہیں تو بلوچستان اور سپرہائی وے کے پہاڑوں سے پانی تیزی کے ساتھ اپنے قدرتی راستوں کی جانب دوڑتا بھاگتا چلا آتا ہے۔
اس سیلابی پانی کے نکاس کے لیے بھی قدرت نے راستے بنا دیے تھے ان سولہ اٹھارہ قدرتی راستوں سے گزر کر پانی سمندر میں جا گرتا تھا۔
مگر گزشتہ چالیس سالوں میں جس طرح قدرتی راستوں پر قبضے اور زمینوں کی غیر قانونی فروخت ہوتی۔ اس کی وجہ سے قدرتی پانی کے ان راستوں کو محدود کر دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ پہاڑوں سے آنے والا پانی تین سے چار گھنٹوں کے اندر اندر شہر میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر سمندر میں گرنے کے بجائے بستیوں بازاروں میں گھوم پھر کر تباہی مچاتا ہے۔ ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں جس سے واضح ہو سکے گا کہ قدرتی راستوں/نالوں کے ساتھ ہمارے ارباب اقتدار اور منصوبہ سازوں نے شہر کا حلیہ کیسے بگاڑا؟
کراچی کی جو آبادی آج سے چالیس سال پہلے تھی ہمارے ملک کے ’’کرتا دھرتا‘‘ لوگوں نے وہی آبادی چالیس سال کے بعد کی مردم شماری میں وہی دکھائی۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہوا۔ یہ آبادی کے تناسب کو جس قدر بے دردی کے ساتھ کم کرکے دکھایا گیا۔ اور یہاں پر اسی اعتبار سے جو حصہ ملنا چاہیے تھا اس میں عظیم الشان ’’کٹ‘‘ مارا گیا۔
اس کے بعد یہاں کی زمینوں چاہے تو پارک کی ہوں، قدرتی نالوں اور آبی گزر گاہوں کی ہوں سب کو کچرے سے پاٹ پاٹ کر چائنا کٹنگ کے نام پر بیچ دیا گیا۔ اس پر ایک رپورٹ جو بہت وائرل ہوئی وہ ہے محترمہ پروین رحمان کی! محترمہ پروین رحمان اورنگی پائلٹ پروجیکٹس کی ڈائریکٹر تھیں۔ جن کی کراچی فیکٹس رپورٹ نے ایوانِ بالا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ بدقسمتی سے محترمہ پروین رحمان کو 2016ء میں ’’نامعلوم افراد‘‘ نے قتل کر دیا تھا۔
کراچی کے قدرتی راستوں اور سمندری ماحولیات پر پروین رحمان کی رپورٹ کے مطابق سمندر کی قدرتی زمین جسے (Back Water Land) کہتے ہیں۔ یہ کریک (کورنگی) اور بوٹ بیسن کے قرب وجوار میں تھی۔ پندرہ سال پہلے DHA نے یہاں پر کچرا پھینکنا شروع کیا ور زمین کو پاٹ کر بوٹ بیسن کا تجارتی اور رہائشی علاقہ ڈکلیئر کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پانی کے قدرتی راستے جو سولجر بازار ڈرین اور ٹاور کھارادر کے نالے تھے ان پر تعمیرات کر دی گئیں۔ اس مقام پر سمندر کو پیچھے کی جانب دھکیلا گیا۔ جس کی وجہ سے پانی کے قدرتی بہائوکو ختم کیا گیا۔ راستے کی چوڑائی اور گہرائی دونوں تقریباً آدھی کرکے KPT اور DHA کے لیے زمین نکالی گئی۔
بالکل یہی حال منظور کالونی، قیوم آباد، گذری کے قدرتی نالوں کا کیا گیا۔ یہ بات کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ آج سے دس سال پہلے سمندری راستوں کو پاٹنے کا کام شروع ہوا۔ DHA نے اپنی نگرانی میں اس زمین کو ہتھیانا شروع کیا۔ پہلے کریک میں شادی ہال کے نام پر زمین حاصل کی اور پھر اس کی آڑ میں سمندر کو پیچھے کیا جانے لگا دیکھتے ہی دیکھتے DHA فیز 8 کی مارکیٹنگ شروع ہو گئی اور اس طرح سمندر کے آئوٹ فال کو بلاک کر دیا گیا۔
دوسرے الفاظ ’’میں سمندر کو کوزے‘‘ میں بند کرنے کا کام دکھایا گیا۔
سیلابی پانی کے قدرتی راستوں کا حال بھی یہی ہے۔
سولجر بازار نالہ، گجرنالہ، منظور کالونی نالہ، ہریانہ نالہ، ملیر ندی، لیاری ندی اور اسی طرح کے دیگر قدرتی راستوں کو کس طرح ملیا میٹ کیا گیا دیکھیے۔
اس وقت سولجر بازار ٹاور قدرتی نالے پر کئی بینک قائم ہیں۔ صرافہ مارکیٹ، گوشت مارکیٹ، KMC مارکیٹ، اورنگزیب مارکیٹ، کئی سو مکانات، مساجد اور دکانیں قائم ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت کے ادارے وفاقی محتسب کا صوبائی دفتر بھی اسی نالے پر قائم ہے۔
منظور کالونی، قیوم آباد نالہ
یہ کینٹ اسٹیشن جانے والا راستہ ہے جس پر 250 فٹ جو نالے کے لیے قدرتی راستہ تھا۔ اسے 36 انچ کے پائپ میں سے گزار دیا گیا۔ باقی جگہوں پر پولیس اسٹیشن، جماعت خانے اور غیر قانونی عمارتیں، بس اڈے بنا دیے گئے۔
اورنگی نالہ
یہ ایم قدرتی راستہ جو بلوچستان سے آنے والے سیلابی پانی کے لیے قدرتی گزرگاہ تھی اسے جگہ جگہ سے ختم کر کے انڈسٹریل ایریا میں تبدیل کیا گیا۔ چائنا کٹنگ کرکے عمارتیں بنا دی گئیں۔
اب عالم یہ ہوا کہ یہاں کا سارا سیلابی پانی اورنگی ٹائون سے ناظم آباد کی نشیبی بستیوں میں تباہی لا رہا ہے۔
گجر نالہ
اس کی اصل چوڑائی 250 فٹ تھی۔ چائنا کٹنگ کے باعث اب محض 50 فٹ رہ گئی ہے۔
ہریانہ نالہ
جو کبھی پوری آب و تاب کے ساتھ سیلابی پانی سمندر تک لے کر جاتا تھا۔ مکمل طور پر پاٹ دیا گیا ہے۔

ملیر ندی

اس پر جنگلات اور زرعی باغات تھے۔ سیلابی پانی کا قدرتی راستہ تھا جو سمندر میں گرتا تھا مگر اس قدرتی راستے کو بے دردی کے ساتھ تجارتی مقاصد کے لیے فروخت کیا گیا۔ اب عالم یہ ہے کہ ملیر ندی سکٹر کر آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے اور ندی کے دائیں بائیں رہائشی عمارتیں اور انڈسٹریل ایریا بنا دیا گیا ہے۔

لیاری ندی

اس پر بھی قدرتی دھانے کو کم کرکے کئی مقامات پر کچرے کے ڈمپنگ اسٹیشن، بھینسوں کے باڑے اور پانی و ٹینکر مافیا نے زمین سے پانی نکالنے کی بڑی بڑی مشینیں لگا رکھی ہیں۔ جو کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔
تو جناب یہ عالم ہے ہماری بے حسی اور غفلت کا کہ چالیس سال سے ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے ندی نالوں، قدرتی راستوں کو پاٹ کر رہائشی بلاک بنوائے گئے اور پھر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بیرونِ ملک اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے بھیجتے رہے۔ ایک بہت بڑا قدرتی راستہ محمود آباد نالہ بھی ہے جس پر مطفیٰ کمال نے کمال چالاکی کے ساتھ چار ہزار مکانات چائنا کٹنگ کے نام پر بیچ دیے۔ نتیجے کے طور پر آج محمود آباد، پی، ای سی ایچ ایس اور نرسری سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کرنے والے کون تھے؟ اور کون ہیں؟
سندھ اور کراچی میں برسر اقتدار اور انتظامیہ میں بیٹھا یہ طبقہ کس جماعت اور کس جماعتوں سے تعلق رکھتا ہے؟
اگر آج بھی ہم ریت میں سر ڈالے اصل مجرموں کو نہیں پہچانیں گے اور ان کا کڑا احتساب نہیں کریں گے تو وہ وقت دور نہیں کہ ’’ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں ‘‘۔

حصہ