چند دن پہلے جماعت اسلامی سرگودھا کے راہنما برادر محمد انور نے کہا کہ جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے حوالے سے کچھ لکھیں۔ ان کی درخواست رد کرنے کی ہمت نہ ہوئی مگر ان سے اتنی مہلت لے لی کہ چند یوم تاخیر ہو سکتی ہے۔ 26اگست کا دن جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے بانی سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ کسی تعارف کے محتاج نہیں، کتنے لوگ ہیں جنکی زندگیوں میں انہوں نے انقلاب بر پا کر دیا۔ بے راہ روی سے حق کے راستے کا مجاہد بنایا۔ مسلم اور کفار کے فرق کو واضح کیا۔ مسلمانوں میں جذبہ حریت کو اجاگر کیا۔ مسلمان ہونے پر فخر کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ بہترین سائنس دان، بہترین انجینئر ، بہترین قانون دان، بہترین ڈاکٹر، بہترین صحافی، بہترین کسان، بہترین بزنس مین، بہترین دکان دار، بہترین معلم، بہترین مزدور بننے کے ساتھ ساتھ بہترین مسلمان بننے کا حوصلہ دیا۔ بھٹکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھایا۔ حلال حرام کا فرق واضح کیا۔ خوف خدا کو ہر نیکی کی جڑ بتایا۔ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جاؤ کا سلوگن دیا۔ سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ کے تربیت یافتہ لاکھوں افراد میں سے چند ایک بزرگوں کی کہانی جو میں نے سنی اور دیکھی اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ بھی اندازہ کر لیں کیسے وہ لوگ تھے جو جماعت کی بنیاد تھے۔
میرے دادا رکن جماعت اسلامی چوہدری محمد اکبر گورایہ مرحوم نے بتایا کہ سابق امیر جماعت اسلامی ضلع سرگودھا ڈاکٹر عبدالرحمن ہاشمی ہمارے ڈیرے (فارم ہاوس) کے پاس سے گزر کر ساتھ والے گاوں چک 114 شمالی میں جماعت کے ساتھی چوہدری عطا اللہ صاحب سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ہنڈیوالی اسٹیشن تک کا سفر ٹرین پر اور پھر وہاں سے اکثر پیدل اور کبھی کبھار کرایہ کی سائیکل پر ہمارے کھیتوں کے پاس سے گزر کر کچی سڑکوں و پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے مٹی میں لت پت تقریبا 8 کلو میٹر کا سفر طے کر کے چک 114 شمالی جاتے تھے۔ اس سفر کے دوران اکثر اوقات راستے میں تھوڑی دیر تھکاوٹ کم کرنے اور پیاس بجھانے کے لیے ہمارے ڈیرے پر رک جایا کرتے تھے۔
میرے دادا چوہدری محمد اکبر گورایہ بتاتے ہیں کہ ایک روز میں ملازمین کے ہمراہ بیلوں کے ذریعہ کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا تو میری نظر ہاتھوں کو پیالہ بنا کر پانی پیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالرحمن ہاشمی صاحب پر پڑ گئی میں نے حل روکے اور ایک ملازم کو کہا اس اجنبی کو لسی پلاو۔ بس وہ لسی پلانا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسا ہاتھ تھاما کہ جماعت اسلامی کا رکن بنا کہ چھوڑا۔ اسی دن وہ خطبات کا ایک حصہ دے گئے اور کہہ گئے کہ میں ہر ہفتے یہاں سے گزرتا ہوں یہ پڑھیے گا۔ اگلے ہفتہ وہ آئے ملے‘ لسی پی اور پوچھا پمفلٹ پڑھا ہے میں نے کہا نہیں، انہوں نے بغیر بڑا منائے کہا چلو کوئی بات نہیں اب پڑھ لیجئے گا۔ چار ہفتے اسی طرح گزر گئے پانچویں ہفتے مجھے شرم آگئی اور میں نے آخر کار پڑھ ہی لیا بس پڑھنا کیا تھا کہ سید ابوالاعلی مودودی کی تحریر نے زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ جماعت اسلامی کے نہ صرف رکن بنے آخری وقت تک جماعت اسلامی کے سرگرم رکن رہے۔ کئی لوگوں کی زندگیوں کو سنوارنے کا سبب بھی بنے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ اور جماعت اسلامی کی تربیت کے اثرات ساری زندگی ان پر حاوی رہے۔
گورنمنٹ نے زمین داروں کے لیے زمین بنک میں گروی رکھ کر قرضہ پر پہلی بار ٹریکٹر اسکیم شروع کی، تو ان کے تینوں بیٹوں نے منتیں کیں کہ بنک کے ذریعہ ٹریکٹر لے دیں، پر کہاں جی وہ تو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے تربیت یافتہ اور ان کی جماعت اسلامی کے رکن تھے اور بقول سیدی رکن جماعت کا معیار ایک مسلمان کا کم سے کم معیار ہے، صاف انکار کر دیا۔ جب ان کے بیٹوں کو مایوسی ہوئی تو انہوں نے کہا آپ رقبہ ہمارے نام کروا دیں ہم ٹریکٹر بنک کے ذریعہ اپنے نام سے حاصل کر لیتے ہیں، اس طرح آپ کی رکنیت بچ جائے گی، آپ پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ تو سخت ناراض ہوئے بولے جماعت اسلامی ہمیں اخروی کامیابی کا گر سکھاتی ہے نہ کہ جماعت کی رکنیت بچانے کا۔ میں اللہ کو جواب دہ ہوں نہ کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو۔
میری والدہ محترمہ کے ماموں رکن جماعت چوہدری محمد شفیع سندھو مرحوم نے اپنے بیٹوں کے اصرار پر بنک سے زمین گروی رکھ کر نا سمجھی میں ٹریکٹر لے دیا۔ جب نظم جماعت اسلامی کو پتا چلا تو ان کی رکنیت ختم کر دی گئی۔ جس پر انہیں اتنا غم ہوا جیسے انہیں جنت سے نکال دیا گیا ہو۔ بے حد پریشان ہوئے گھر میں موجود تمام جمع پونجی، مال ڈنگر، زیورات تک بیچ کر ٹریکٹر کی رقم ادا کی اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کو راضی کرتے رہے معافیاں مانگتے رہے۔ جب ان کی رکنیت بحال ہوئی تب کچھ چین نصیب ہوا، ورنہ ہر پل یہی کہتے رہے کہ سیدی کہتے ہیں کہ مسلمان کا کم سے کم معیار ہمارے رکن کا ہے میں اللہ کو کیا منہ دکھائوں گا۔
کراچی جماعت اسلامی کے رکن، میرے اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھی ندیم مجید بھائی کے والد محترم سے تعارف اس وقت ہوا جب اے پی ایم ایس او کے ہاتھوں گلشن کالج خالی نہ کرنے کی وجہ سے خوب مار کھائی، جبڑے تڑوا بیٹھا، تو ندیم مجید بھائی کے والد حال احوال پوچھنے اور حوصلہ بڑھانے کے لیے آئے۔ جب انہیں پتا چلا کہ میں پنجاب سے ہوں اور یہاں میرا کوئی قریبی عزیز نہیں تو اپنے سگے بیٹوں کی طرح دیکھ بھال شروع کر دی۔ جبڑوں کی وجہ سے ڈاکٹر نے مہینہ بھر لیکوڈ لینے کا کہا، تو یقین جانیے صبح دوپہر شام ایک تھرموس یخنی اور ایک جوس کا اپنے گھر سے تیار کروا کے خود لاتے رہے۔ ان سے اسی دوران قربت بڑھی تو جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلی مودودی کی تربیت کا ایک انوکھا رنگ ان کی زندگی میں دیکھا۔ بغیر کسی نظم کی ڈیوٹی کے ، صرف اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنے خرچہ سے مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ کی کتاب خطبات کے موضوعات علیحدہ علیحدہ فوٹو اسٹیٹ کروا کر پمفلٹ کی صورت میں تیار کرواتے، ہفتہ وار چھٹی والے دن صبح سویرے کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچ جاتے اور بذریعہ شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جانے والے مسافروں میں مفت تقسیم کرتے یہ صدا لگاتے ہوئے کہ سفر کے دوران مطالعہ کیجیے گا۔ اسی طرح بغیر کسی ذمہ داری و ڈیوٹی کے مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ کے لٹریچر کے علاقے کی مختلف مساجد کے سامنے ہر جمعہ کی نماز کے بعد اسٹال لگاتے اور جتنی رعایت انہیں کتابیں خریدنے پر پبلشر سے ملتی اتنی ہی رعایت اور اپنی طرف سے بھی شامل کرتے اور انتہائی کم قیمت پر فروخت کرتے۔ کسی نظم کو خوش کرنے کے لیے نہیں کسی دنیاوی فائدہ کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنی آخرت سنوارنے کیلئے۔ مرکز اسلامی جمعیت طلبہ میں ذمہ داری کے دوران برادر ہمایوں اقبال کے توسط سے جماعت اسلامی لاہور کے رکن جماعت صوفی محمد اکرم صاحب سے شناسائی ہوئی تو سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒاور جماعت اسلامی کی تربیت کا ایک اور انداز دیکھا۔ صوفی محمد اکرم صاحب ایک فیکٹری میں پرچیز آفیسر تھے۔ فیکٹری کے مالک بھی جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے مگر قاضی حسین احمد صاحب کی پالیسیوں سے اختلاف کر کے مولانا نعیم صدیقی کی تحریک اسلامی میں چلے گئے تھے۔ جب جماعت اسلامی نے الیکشن میں اسلامک فرنٹ کے نام سے حصہ لیا تو صوفی محمد اکرم صاحب نے گاڑی پر فرنٹ کا جھنڈا لگا لیا ، لاؤڈ اسپیکر لگایا ، پوسٹر لگائے اور جس بازار جس سڑک پر فیکٹری کے کام سے جاتے راستے میں اسلامک فرنٹ کے لیے ووٹ مانگتے رہتے۔ جب اس بات کا ان کی فیکٹری مالک کو پتا چلا تو انہوں نے بلا لیا اور دوٹوک انداز میں کہا صوفی اکرم صاحب فیکٹری کی گاڑی پر آپ جماعت اسلامی کا جھنڈا‘ بینر اور اعلانات تو کر سکتے ہیں، اسلامک فرنٹ کی نہیں۔ آپ سیدی کی تربیت کا اندازہ کریں کہ اگلے ہی دن صوفی صاحب نے گاڑی سے جھنڈا ، پوسٹر، بینر اور لاؤڈ اسپیکر اتار دیا۔ ایک میگا فون ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسلامک فرنٹ کا پوسٹر گلے میں لٹکا لیا۔ گاڑی سے اتر کر بازار میں جہاں جاتے اعلان کرتے جاتے۔
جب فیکٹری مالک کو پتا چلا تو انہوں نے پوچھا یہ کیا حلیہ بنا لیا ہے تو صوفی صاحب نے کہا پوسٹر گاڑی کے بجائے میرے جسم پر ہے، اسی طرح اسپیکر گاڑی کے بجائے میرے ہاتھوں میں ہے اب تو آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا آپ گاڑی پر ہی لگا لیں جس پر صوفی صاحب نے شکریہ کے ساتھ ان کی پیشکش یہ کہتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا کہ اس طرح لوگ زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ میرے ماموں چوہدری نصراللہ خاں گورایہ مرحوم جماعت اسلامی کے متفق ہی تھے رکن نہ بنے یہ سمجھتے ہوئے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ مگر مولانا کا تقریباً سارا لٹریچر کئی بار پڑھ چکے تھے، جماعت کے اجتماعات میں بھی بڑے شوق سے جاتے۔ سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ کی عصری مجالس میں بھی اکثر جاتے۔ مولانا کے لٹریچر سے ان کی تربیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کی وفات کہ بعد جماعت اسلامی کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی شادی کے موقع پر انہوں نے مجھے بلایا اور بڑے راز دارانہ طریقہ سے اپنے گائوں اور پڑوس کے دیگر دیہات سے زکوٰۃ کے حق داران کی فہرست منگوائی، تقریبا 55 افراد بنے۔ انہوں نے فی کس 500 روپے رقم میرے حوالے کی اور کہا کہ مکمل راز داری کے ساتھ انہیں رقم بھی پہنچائیں اور دعوت ولیمہ کی خصوصی دعوت بھی دیں۔ راز داری کا معاملہ اتنا رکھا کہ راقم اس شادی کا مکمل کرتا دھرتا تھا مگر اسے بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ایسے لوگوں کی ایک کثیر مگر خاموش تعداد جماعت اسلامی اور سیدی کے تربیت کے عملی نمونہ کی صورت میں پوری دنیا میں موجود ہے۔ یہی لوگ جماعت اسلامی ہیں، یہی لوگ سید کے پیرو کار ہیں، یہی لوگ جماعت کی اصلی قوت ہیں۔