فضائے بدر پیدا کر

812

آج 6 ستمبر کو پاکستان کے ساڑھے22 کروڑ عوام یوم دفاع پاکستان مناتے ہوئے اپنے اْن قومی ہیروز اور بہادر افواج کی شہادت اور بے مثال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کریں گے جنہوں نے ماہ ستمبر میں اپنی جانوں کا نذرانہ دیااور دشمن کے پاکستان پر قبضے کے ارادے کو منوں مٹی میں ملا دیا۔ بھارتی افواج اور حکمرانوں نے یہ منصوبہ تیار کر رکھا تھا کہ وہ لاہور پر قبضہ کر کے لاہور جم خانہ کلب میں رات کو فتح کا جشن منائیں گے لیکن لاہور میں میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں بہادر افواج کے جیالوں نے اپنی جانوں کو قربان کر کے ان کے حملہ کوناکام بنادیا۔ اسی طرح بھارت نے چونڈہ محاذ میں اپنی افواج کے ساتھ حملہ کر کے قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان کی بہادر افواج کے جوانوں نے جسموں سے بم باندھ کر ان کے درجنوں ٹینکوں کو اڑا دیا اور ان کے حملہ اور انکے میلے عزائم کو اپنی قربانیوں سے خاک آلودکردیا۔
پچھلے سال یوم دفاع کے موقع پر قوم کے نام پیغام میں جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاک وطن کے دفاع کے لیے پوری قوم تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار ہے ۔ سراج الحق ہمیں پاکستان کے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ اس کے نظریہ کی بھی حفاظت کرنا ہوگی ۔پاکستان کے قیام کا مقصد لاالہ الا اللہ کا نظام قائم کرنا تھا ۔ حکومت کو پاکستان کی نظریاتی شناخت کو بحال اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔ پی ٹی آئی حکومت کو عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل پر دھیان دینا ہوگا ۔ عوام منتظر ہیں عمران پاکستان کو مدینہ کی طرز پر ریاست بنانے ، سودی معیشت کے خاتمہ کے وعدوں پرکب عملدرآمد کرتے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جانیں نچھاور کرنے والے قوم کے محسن ہیں قوم اپنے شہدا کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
6 ستمبر 1965 کی کچھ یادیں اور باتیں آپ سے شیئر کرنے کا جی چاہتا ہے جو ہم نے مختلف جگہوں سے پڑھی اور سنی ہیں

شہیدان وطن

مصنف ایم آر شاہد نے اپنی کتاب ’’شہیدانِ وطن‘‘ میں بہت تحقیق کے بعد پاکستانی شہداء کا احوال پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 6 ستمبر کی صبح ٹھیک 3 بج کر 45 منٹ پر ہندوستان کی جانب سے واہگہ پر ایک گولہ آکر گرا جسے بھارت کی جانب سے پہلا فائر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر ایس جے سی پی پوسٹ پر موجود پلاٹون کمانڈر محمد شیراز چوکنا ہوگئے اور پوسٹ پر بھارت کی جانب سے مزید فائرنگ شروع ہوگئی۔ محمد شیراز نے جوابی فائرنگ کی اور یوں دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا جو ستمبر کی تاریخی جنگ کی ابتدا تھی۔ لڑائی اتنی شدید ہوگئی کہ بھارتی فوجیوں نے قریب آکر دستی بم بھی پھینکنے شروع کردیے۔ اگرچہ یہ حملہ اچانک تھا لیکن پاکستانی سپاہیوں نے اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔ جب پاکستانی دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ کر کمک کے پاس آتے اور رینگ کر آگے موجود سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔

ٹینکوں کی بڑی جنگ

اگرچہ جنگِ عظیم دوم میں کئی ممالک کے لاتعداد ٹینک استعمال ہوئے تھے لیکن 1965 کی جنگ میں بہت کم دنوں میں لگ بھگ 600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا۔ جس میں بھارت کے سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔ عددی برتری کے لحاظ سے بھارت کے پاس بہت اسلحہ تھا اور ان ٹینکوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں تباہ کرکے ناکارہ بنادیا۔ بھارت میں چاونڈا کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے کیونکہ پاکستانی سپاہی نے بھارتی صفوں میں گھس کر ان کی سفلی تدابیر کو ناکام بنایا تھا۔ دوسری جانب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے اسی طرح کے معرکے میں شجاعت اور عظمت کی نئی داستان رقم کی تھی۔

نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے شہید، میجر عزیز بھٹی

میجر عزیز بھٹی اپنے جانثاروں کے ساتھ بی آر بی نہر کے پاس ڈٹے تھے، جس پر بھارتی افواج قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ 7 ستمبر کو بھارت نے پوری طاقت کے ساتھ اس پر حملہ کیا اور میجر عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ نے صرف 110 سپاہیوں کی مدد سے بھارت کی پوری بریگیڈ کو 10 گھنٹوں تک روک کر رکھا اور دن رات مورچے پر ڈٹے رہے۔ یہ اعصاب شکن معرکہ جب 12 ستمبر کو پانچویں روز میں داخل ہوا تو اس وقت تک میجر عزیز بھٹی بھارت کے چھ حملے روک چکے تھے۔ آگے جانے والے پاکستانی سپاہی اور ٹینک ایک مقام پر پھنس گئے تھے جنہیں واپس لانا ضروری تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی فوج کو منظم کرکے کئی اطراف سے حملہ کیا اور پاکستانی فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے لیکن اندھا دھند گولہ باری اور فائرنگ کے دوران ایک شیل نے ان کے کندھے کو شدید زخمی کردیا اور وہ صرف 42 سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کرگئے۔

یونس حسن خان شہید

۔1965 ہیرو یونس خان شہید کا نام سنہرے حرفوں سے زندہ رہے گا۔ انہوں نے پٹھان کوٹ بھارت کے فضائی اڈے پر حملہ کیا اور اپنی مہارت سے بھارتی فضائیہ کے 15 طیارے تباہ کردیے جن میں کینبرا اور دوسرے طیارے شامل تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق وہ جب بھارتی حدود میں داخل ہوئے تو ان کے طیارے پر بھارتی طیاروں کی جانب سے فائرنگ ہوئی اور طیارے کو نقصان پہنچا لیکن کچھ حوالہ جات کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارتی علاقے پٹھان کوٹ کے پاس فضائی اڈے پر موجود پاکستانی حملے کے لیے کھڑے طیاروں سے اپنا طیارہ ٹکرادیا جس میں بھارت کے 15 طیارے جل کر راکھ ہوگئے بھارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

سینے پر گولی کھانے کا عزم

۔1965 اس ولولہ انگیز جنگ میں زخمی فوجیوں کے علاج پر معمور بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) نصرت جہاں سلیم نے آئی ایس پی آر کے شمارے میں لکھا ہے کہ جنگ کے دوسرے روز ایک لمبا تڑنگا فوجی اسٹریچر پر لایا گیا جو اپنی نحیف آواز میں بڑبڑا رہا تھا کہ اس نے ماں سے سینے پر گولی کھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خود ڈاکٹر یہ جاننے سے قاصر تھے کہ اسے گولی کہاں لگی ہے۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور بلڈ پریشر گرتا جارہا تھا۔ جب ٹانگ کا زخم کھولا گیا تو وہاں سے گولی کا ایک سوراخ جلد کو چیرتا ہوا پیٹ کی جانب جاتا معلوم ہوا۔ پھر یکایک معلوم ہوا کہ گولی اس کی خواہش کے مطابق عین اس کے سینے پر لگی ہے۔ اس تصدیق کے بعد اس فوجی نے آخری سانس لیا اور شہید ہوگیا۔

خون کے عطیات کی اپیل

نصرت جہاں کے مطابق جب خون کے عطیات کی اپیل کی گئی تو ایک شہر اُمڈ آیا اور سب کی خواہش تھی کہ فوجیوں کو اسی کا خون لگایا جائے۔ خون کی اشد ضرورت تھی کیونکہ گہرے زخم اہم رگوں کو مجروح کررہے تھے اور زخمیوں کی لگاتار آمد سے اسپتال کا پورا فرش لہو کی سرخ چادر میں چُھپ گیا تھا۔ ان کے مطابق زخموں سے چور ہوکر شہید ہونے والے اکثر فوجی آخری دم تک پرسکون رہے۔ وہ اللہ سے مدد مانگتے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے تھے۔

جنگی قیدی کا علاج

ایک پاکستانی میجر کو محاذ پر ایک بھارتی فوجی ملا جو شدید زخمی تھا اور اسے اپنے سپاہی بھی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ کئی روز سے ایک پل کے نیچے زخمی پڑا تھا کہ اسے ایک پاکستانی میجر نے اٹھایا، پانی پلایا اور وعدہ کیا کہ ابھی تو وہ ایک بڑے مشن پر جارہا ہے لیکن واپس آکر ضرور علاج کی غرض سے اسے کمبائنڈ ملٹری اسپتال ( سی ایم ایچ) لے جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوا۔ یہ زخمی بھارتی سپاہی لاہور لایا گیا اور کئی ماہ کے علاج کے بعد صحتیاب ہوا کیونکہ زخم بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے ایک ناسور بن چکا تھا۔
۔1965ء کی جنگ میں ہماری فضائیہ اور بحریہ کی کارکردگی بھی ہر لحاظ سے قابلِ فخر رہی بھارتی فضائیہ کے نٹ، مسٹئیر، ہنڑ لڑاکا اور کینبرا بمبار طیارے شروع کے ایک دو دن پاکستان کی فضاؤں میں بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہوئے لیکن کی صبح سرگودھا کے ہوائی اڈے پر حملہ آور بھارتی طیاروں کو سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم نے اپنے سیبر طیارے کی مشین گنوں کا نشانہ بنایا اور چند سیکنڈ کے وقفے میں پانچ بھارتی حملہ آور طیاروں کو مار گرایا تو پھر بھارتی طیاروں کو دن کی روشنی میں پاکستانی اڈوں کا رُخ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔

پاکستانی عوام کے تاثرات

لاہور کے رہائشی رحمت اللہ ملک 12 سال کی عمر میں 1965 کی جنگ میں موجود تھے۔رحمت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ پانچ ستمبر 1965 کی رات اچانک بھارتی فوج نے حملہ کردیا اور لاہور شہر میں افراتفری پھیل گئی۔بیشتر شہری سوئے تھے لیکن جو جاگ رہے تھے انہوں نے ریڈیو کے ذریعے خبر سنی اور گھروں سے باہر نکل آئے۔صبح تک نوجوانوں اور بزرگوں کی بڑی تعداد واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہوچکی تھی،طلبہ کے ساتھ میں بھی وہاں پہنچا۔انہوں نے بتایا بھارتی فوج جہازوں، توپوں اور ٹینکوں کے ذریعے گولے برسا رہی تھی لیکن جو گولے پاکستان کی حدود میں گرتے تھے وہ زیادہ تر پھٹتے نہیں تھے، جس کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔رحمت اللہ نے یادیں تازہ کرتے ہوئے مزید بتایا بھارتی فوج جب پیش قدمی کرنے لگی تو واہگہ بارڈر سے بی آر بی نہر کے پل تک پہنچ گئی۔ اسی طرح چونڈہ سرحد سے بھی بھارتی فوج ٹینکوں سمیت داخل ہونے لگی تو فوجی جوانوں اور عام شہریوں نے جسم کے ساتھ بارود باندھا اور بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر خود بھی ہلاک ہوگئے اور ٹھینک بھی اڑا دیے جس کے بعد بھارتی فوج بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔بھارتی فوج سے چھینے گئے سامان کو منٹوپارک، مینار پاکستان نمائش کے لیے رکھاگیا۔ ہم بھی روزانہ وہاں جاتے اور مختلف علاقوں میں گھومتے پھرتے۔ کبھی کبھی اچانک افراتفری مچ جاتی جب یہ اعلان ہوتا کہ دشمن فوج حملہ آور ہورہی ہے تو سب اللہ اکبر کے نعرے لگاتے دشمن کی طرف بڑھتے۔انہوں نے بتایا بھارتی فوج کے کئی چھاتہ بردار فوجی بھی پکڑے گئے، جنہیں عوام نے خوب چھترول کے بعد پاکستانی فوج کے حوالے کیا۔
ان تمام واقعات سے ہماری نظر میں اس جنگ کی کامیابی کی جو وجوہات سامنےآئی وہ مندرجہ ذیل ہیں
1۔اللہ پر مکمل بھروسہ
2۔فوج اور عوام کی آپس میں محبت
3۔ عوام کا فوج پر مکمل اعتماد
4۔وطن پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کا جذبہ
5۔میڈیا کا مثبت کردار
6۔محب وطن پارٹیوں کی عوام میں مقبولیت
7۔جذبات کا مثبت استعمال
8۔بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اخلاقی فتح
9۔زمینی حقائق سے مکمل آگہی
10۔فوج کی مضبوط حکمت عملی
اور بھی بہت سے عوامل ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیاہے۔اگر آج بھی ہمارے اندر وہ اخلاص وجذبات دوبارہ پیدا ہوجائیں تو ہم ہر سطح پر کامیاب ہوسکتے ہیں۔بس ہمیں دوبارہ اپنی صفوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

حصہ