ریحانہ خالہ کی شادی تھی، شام کو ہی امی نے مہندی کا عرق نکالنے کے لیے چولہے پر گرم پانی کے درمیان برتن ڈھک کر رکھ دیا تھا۔ میں بہت خوش تھی اور بار بار گھر کے اندر اور باہر چکر لگا رہی تھی۔ کبھی اپنے گوٹا کناری والے غرارے کو دیکھتی، کبھی خالہ کے گھر جمع ہوئی رشتے دار خواتین کو چاول چنتے اور میوے کاٹتے دیکھتی۔ میرے ہوش میں شاید یہ پہلی شادی تھی۔ ابھی میں اسکول نہیں جاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا گلوبل ولیج نہ بنی تھی، پورا محلہ ایک خاندان کی طرح رہا کرتا تھا، اور گھروں کے دروازے صرف رات کے وقت ہی بند ہوا کرتے تھے۔ جب ہی تو اس گلی میں ریحانہ خالہ، ظہیر چچا، عقیلہ پھوپھی، دادا دادی اور نانی وغیرہ رہا کرتے تھے، جن سے ہمارا خون کا تو کوئی رشتہ نہ تھا لیکن ہمسائیگی کا رشتہ بہت گہرا رشتہ ہوا کرتا تھا، جہاں سب کی خوشیاں، غم اور بیٹیاں سانجھی ہوتی تھیں۔ محلے میں سب سے پہلا گھر ہمارا تھا، تو عید کی نماز پڑھ کر سب مرد پہلے ہمارے ہاں آجاتے، پھر باری باری سب گھروں سے ہوتے ہوئے دوپہر میں اپنے رشتے داروں کے ہاں چلے جاتے۔ عید کی نماز روڈ پر ادا کی جاتی اور میں اوپر کی گیلری سے چھپ کر سب کو ایک ساتھ رکوع و سجدے کرتے دیکھتی۔ مجھے یہ منظر بہت خوشی دیتا تھا اور میرا دل اندر تک جھوم جاتا۔ نماز کے بعد یہ چچا اور ماموں عیدی دے کر رخصت ہوجاتے اور ہماری واقعی میں عید ہوجاتی۔
خیر، بات ہورہی تھی ریحانہ خالہ کی شادی کی۔ تو اُس وقت شادی گھروں کے آگے شامیانے لگاکر ہوتی تھی اور شادی والے گھر کے مہمان پورے محلے کے مہمان ہوا کرتے تھے۔
سرِ شام ہی کھانا پکانے والے آگئے، چاولوں کو نتھارنے کے لیے چارپائیوں پر پھیلا دیا گیا۔ پلاؤ اور زردے کی خوشبو، ابٹن اور گلاب کی خوشبو پورے ماحول کو معطر کیے ہوئے تھی۔ ریحانہ خالہ پر تو نظر ہی نہیں ٹھیر رہی تھی، اتنی پیاری لگ رہی تھیں جیسے چاند زمین پر اتر آیا ہو۔ وہ ایک نمایاں جگہ پر سر جھکائے گھونگھٹ نکال کر بیٹھی ہوئی تھیں جیسے کوئی بے جان گڑیا۔ میں امی سے بار بار جاکر کہتی کہ دلہن دیکھنی ہے، تو امی اُن کا چہرہ اوپر کردیتیں۔ لیکن بھئی خالہ کی آنکھیں تو بند کی بند رہیں اور ان کے کنارے آنسوئوں کے قطرے۔ ایک بار بھی خالہ نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ میرا تو دل ہی اداس ہوگیا اور میں وہیں کہیں کونے میں ٹک گئی اور اگلے دن ہی خبر لائی۔ اگلے دن آنکھ کھلتے ہی ریحانہ خالہ کا خیال آیا اور ساتھ میں آنسو بھی۔ رات ہی ان کی رخصتی ہوچکی ہوگی، اب وہ اس گھر میں نہ ہوں گی۔ مجھے باقاعدہ رونا آگیا۔ اتنے میں امی آگئیں… ’’ارے بیٹا کیوں رو رہی ہو؟‘‘
میں کیا بتاتی…! گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا بنا ہوا تھا۔ ’’اوہو تم نے تو رات کا کھانا بھی نہیں کھایا، چلو جلدی اٹھو ناشتا کرو، ریحانہ کو سب لینے گئے ہوئے ہیں، وہ پہنچ رہی ہوگی۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے بستر سے چھلانگ ماری اور منٹوں میں تیار ہوکر حسبِ عادت کھڑکی کے باہر پاؤں نکال کر بیٹھ گئی۔
جیسے ہی ٹیکسی رکی، میں امی کو بتاکر باہر بھاگ گئی۔ ہاں بھئی اُس زمانے میں ہر ایک کے پاس گاڑی نہیں ہوتی تھی اور کالی پیلی ٹیکسیاں ہی چلا کرتی تھیں۔
اللہ، میری خالہ… میں جاکر ان کی گود میں بڑے مزے سے بیٹھ گئی۔ انہوں نے بھی مجھے خوب پیار کیا۔ کل والا اجنبی رویہ آج نہیں تھا۔ ’’خالہ آپ نے مجھ کو ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا، نہ ہی پیار کیا…کیوں؟ آپ کو پتا ہے میں مہندی لگا کر اور غرارہ پہن کر اتنی پیاری لگ رہی تھی‘‘۔ ریحانہ خالہ ایک دم ہنس دیں اور امی سے بولیں ’’دیکھیں ذرا اس کو بھابھی، اچھا لگتا دلہن صاحبہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سب کو دیکھیں اور باتیں کریں؟‘‘
ہاں وہ کچھ ایسا ہی زمانہ تھا۔ خالہ سے میری انسیت وہ نہ رہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی بڑھ گئی۔ وہ جب بھی رہنے آتیں میں بھی دن بھر کے لیے نانی کے ہاں پہنچ جاتی، برابر میں ہی تو گھر تھا۔ اور اب تو ان کے ساتھ دو چھوٹے گڈے جیسے منے بھی تھے مصطفی اور مجتبیٰ۔ اسی لیے خالہ اور بھی پیاری ہوگئیں مجھے۔
وقت گزرتا گیا اور بدلتا گیا۔ میں پہلے اسکول، پھر کالج میں آگئی… پھرمحلے بھی تبدیل ہوگئے اور خالہ ایک یاد بن گئیں۔ کالج میں اسٹوڈنٹ ویک زوروں پر تھا جہاں خوب اپنے ٹیلنٹ کو دکھانے اور بڑھانے کے مواقع مہیا تھے۔ کسی بھی قسم کے روایتی یا غیر روایتی رقص و سرود میں مجھے دل چسپی نہ تھی، ہاں تقریر میں ضرور حصہ لیا ’’آزادیِ نسواں اور ہمارا فرسودہ نظام‘‘۔ مس علی تو میری تقریر سن کر ہی دنگ رہ گئیں۔ ’’ایسی بچیاں ہی ہمیں غلامی سے نجات دلا سکتی ہیں۔ ویل ڈن سحر ویل ڈن‘‘۔
میں ہواؤں میں اڑتی ہوئی گھر واپس آئی تو امی نے بتایا کہ کل پرانے محلے میں کوئی کام ہے، اگر تم چلنا چاہو تو چلی چلنا۔ میں نے سوچا کاش ریحانہ خالہ نانی کے گھر آئی ہوئی ہوں۔ ’’جی امی ضرور چلوں گی‘‘۔ جیسے جیسے گاڑی پرانے محلے سے نزدیک ہورہی تھی دل اچھل اچھل کر گلے میں آرہا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی تو میں جھٹ سے نیچے اتری اور نانی کے گھر کی بیل بجا دی اور دروازہ کھلنے تک ہاتھ نہیں ہٹایا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا میں ایک قدم پیچھے ہوگئی۔ کون تھی وہ عورت؟ کیا وہ لوگ بھی یہاں سے منتقل ہوگئے ہیں؟ میرا دل غم سے بھر گیا۔ لیکن وہ خالہ ہی تھیں مرجھائے ہوئے پھول کی طرح۔
’’کیا ہوا سحر، اپنی خالہ کو بھول گئیں کیا؟‘‘ میں بجلی کی تیزی سے خالہ کے گلے لگ گئی اور دونوں رونے لگیں۔
اندر سب کچھ پہلے جیسا تھا… وہی بڑا سا صحن، اس میں بادام، جامن، امرود اور آم کے درخت۔ سامنے کی دیوار پر چنبیلی اور بیلا… اور باورچی خانے کے ساتھ نانی کا تخت جو بیک وقت ڈرائنگ اور لیونگ روم کا کام دیتا تھا۔ نانی نے بھی بہت پیار کیا۔ خالہ فوراً شربت لے آئیں۔ نانی نے بتایا کہ خالہ اب یہیں رہتی ہیں، ان کے میاں کو فالج ہوگیا تھا شادی کے کچھ سال بعد، اور وہ اب تک بستر پر ہی ہیں۔ اتنی سی دیر میں خالہ نے اپنے میاں کے کمرے کے کئی چکر لگا لیے۔ ذرا جو دیر ہوتی تو ان کے زور زورسے بولنے کی آواز آنے لگتی۔ خالہ کا حُسن گہنا گیا تھا… وجہ سمجھ میں آرہی تھی مجھے، اور عورت کی مظلومیت کچھ اور طریقے سے دماغ پر نقش ہورہی تھی۔
خالہ کی بی ایڈ کی ڈگری اب خوب کام آرہی تھی۔ وہ ایک سرکاری اسکول میں ملازمت کرتی ہیں اور شام میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں، اور اب تو ان کے بچے بھی کالج میں آگئے ہیں۔ میاں کے علاج کے لیے خالہ کا سارا زیور اور گھر بک گیا تو وہ سہارے کی تلاش میں واپس آگئیں۔ سسرال والے اچھے لوگ ہیں لیکن متوسط طبقے کے ہیں، تو کب تک ساتھ دیتے! لیکن ان کی اخلاقی مدد خالہ کو حاصل تھی۔ بچے اپنے ددھیال میں رہ کر آتے ہیں۔ چھٹیوں میں خالہ بھی جاتی ہیں۔ اصل میں اسکول بھی نانی کے گھر سے نزدیک تھا، اور اب تو خالہ کی ایک پیاری سی گڑیا بھی تھی بالکل خالہ کی جوانی جیسی۔ بڑی بڑی آنکھیں، کھلتا ہوا رنگ، چہرے پر ذہانت کی چمک، سلیقے سے سر پر دوپٹہ جمائے وہ ہمارے پاس ہی آکر بیٹھ گئی۔
نہ جانے کیوں اسے دیکھ کر میں نے اپنے اسٹپس کٹنگ بکھرے بال سمیٹے اور دوپٹہ کھول کر سر پر پھیلا لیا۔ ظہر کا وقت ہوچلا تھا، ہم لوگ اٹھنے لگے تو بااصرار کھانے کے لیے روک لیا کہ اپنوں کے گھر سے بھلا کوئی سوکھے منہ جاتا ہے! چلو ہاتھ دھوکر دسترخوان پر آجاؤ، جو تم لوگوں کے نصیب کا ہے کھا کر جانا۔ خالہ کے ہاتھ کی دال، سبزی، آلو کے کباب کھا کر مزا آگیا۔
ذرا فرصت دیکھ کر میں نے خالہ سے پو چھ ہی لیا ’’آپ اتنی خوب صورت، پڑھی لکھی، اکلوتی بہن…آپ کے میاں تو مجھے کبھی آپ کے جوڑ کے لگے ہی نہیں…اور اب تو آپ کماتی بھی ہیں، تو کیوں خالو کے ساتھ رہ رہی ہیں…؟ اتنی خدمت کرنی پڑتی ہے، اور دیکھیں کتنے سخت لہجے میں آپ کو بار بار پکارتے ہیں۔ آپ کیوں ان کی اتنی خدمت کررہی ہیں؟‘‘ میرے دماغ میں فیمنزم اور ویمن امپاورمنٹ کا کیڑا کلبلا رہا تھا۔
خالہ ٹیک لگا کر بیٹھی تھیں، میری بات سنتے ہی سیدھی ہوکر بیٹھ گئیں، بولیں ’’ارے سحر کیا ہوگیا ہے تمھیں! اگر آج یہ بیمار ہوگئے تو پہلے صحت مند بھی تو تھے، آج اگر غصہ کررہے ہیں تو پہلے پیار بھی تو کرتے تھے۔ مجھے تو نہیں یاد کہ بیماری سے پہلے کبھی انہوں نے مجھے ڈانٹا ہو یا غصہ ہوئے ہوں، اور گڑیا رانی آج کل جو وبا پھیلی ہوئی ہے ناں عورتوں کی بے لگام آزادی کی، یہ آزادی نہیں بربادی ہے۔ عورت کا اصل فخر، غرور اور عزت اپنے میاں کی عزت میں ہے۔ اگر ان کی جگہ میں بیمار ہوتی تو ان کے لیے مجھے چھوڑنا جائز ہوتا؟ میاں بیوی کی محبت ہی تو تمدن کی جڑ ہے، ان تعلقات کی درستی ہی تو اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس لیے بدترین مفسد وہ شخص ہے جو اس بنیاد پر تیشہ چلاتا ہے۔ گڑیا رانی سوچنا ضرور۔ ان لایعنی نعروں کی آڑ میں ہم سے ہمارا تشخص، وقار اور حیا چھینی جارہی ہے۔‘‘
خالو نے پھر خالہ کو آواز دی، وہ پھر ’’ایک منٹ رکو‘‘ کہہ کر چلی گئیں۔ واپس آئیں تو ہاتھ میں اُن کے اپنے ہاتھ کی کاڑھی ہوئی بہت ہی خوب صورت نماز کی چادر تھی، مجھے دے دی ’’سحر لے لو میری طرف سے، جب نماز پڑھو تو میرے لیے بھی دعا کرنا۔‘‘
میں پکی نمازی تو نہ تھی لیکن بات خالہ کی تھی تو ہامی بھرلی۔ خالہ نے گلے لگایا، ڈھیروں دعائیں دیں۔ جانے کیا تھا کہ میں اپنے سارے باغی و باطل نظریات اُن کی دہلیز پر چھوڑ کر اپنے گھر روانہ ہوگئی۔