”یہ جھیل کتنی خوبصورت ہے اور یہ آبشار، ارے یہ غروب آفتاب کا منظر تو دیکھو اور یہ پھلوں کا باغ، اف یہ چہچہاتے پرندے۔“ انٹرنیٹ پر دنیا کی خوبصورت جگہیں سرچ کرتے کاشف اور سلمان حسین مناظر کے سحر میں گرفتار تھے۔ 13 برس کے سلمان اور 8 برس کے کاشف دونوں بھائی بھی تھے اور گہرے دوست بھی۔
”میں اس باغ کی سیر ضرور کرنا چاہوں گا۔“ کاشف نے جوش سے کہا۔ ”اور میں بھی تو اس آبشار کی پھوار میں بھیگنا چاہوں گا۔“ سلمان نے بھی اپنی خواہش بیان کی۔
”یہاں تک پہنچنے کے لیے کیا کرنا ہوتا ہے؟“ کاشف نے پوچھا۔ ”ویزا، پاسپورٹ اور بھی بہت کچھ شاید۔ آئیں سرچ کر کے دیکھتے ہیں۔“ سلمان نے جواب دیا۔ سلمان نے سیر و سیاحت اور ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کی تفصیلات دیکھنا شروع کیں۔ ”افففف یہ سب اتنا مشکل ہے؟“ کاشف نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔
امی جان جو کافی دیر سے ان کی اس سرگرمی سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ کاشف کے قریب آ کر کہنے لگیں۔ ”پتا ہے ایک باغ ان ساری جگہوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔“ کاشف اور سلمان دونوں لیپ ٹاپ چھوڑ کر امی جان کے گرد ہو گئے۔ ”کیسا باغ ہے وہ؟“ سلمان نے پوچھا۔ ”بہت بڑا، بہت خوبصورت، رنگا رنگ پھول، درخت اور پرندے، سہانے موسم، مزے دار کھانے، شہد، دودھ،اور شفاف پانی کی نہریں، سونے چاندی کے برتن، دیدہ زیب لباس۔ بس رنگ و نور کی مطمئن اور مسرور دنیا ہے یہ باغ۔“
”یہ کون سا باغ ہے امی جان؟“ کاشف نے حیرت سے پوچھا۔ ”یہ باغ جنت ہے بیٹا۔“ امی جان نے مسکرا کر جواب دیا۔ ”اچھا! تو آپ جنت کا کہہ رہی ہیں۔ پھر جنت جانا تو ان ملکوں میں جانے سے بھی زیادہ مشکل ہو گا؟“ کاشف نے افسردگی سے کہا۔ ”ارے نہیں پیارے کاشف ہمارے پیارے رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔ جو لا الہ الا اللہ کہے گا جنت میں داخل ہو گا۔ ”سچ امی جان۔“ کاشف نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ جی اور لا الہ الا اللہ کہنے کا مطلب ہے کہ اللہ ایک ہے اور ہم نے اس کی ہر بات ماننی ہے۔ بس پھر ہم اتنی خوبصورت جنت میں نہ صرف جا سکیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں بسا بھی دیں گے۔“ سلمان نے تائیدی نظروں سے امی جان کو دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اثابت میں سر ہلا دیا۔