آمنہ کچھ دنوں سے پریشان سی رہنے لگی تھی، اسے بہت غصہ بھی آتا تھا۔ آج کل کورونا وائرس میں جو حالات تھے ان سے بڑوں کے ساتھ بچے زیادہ متاثر تھے۔ آئے دن شور شرابہ۔ شروع میں تو بہت احتیاط برتی گئی، مگر آہستہ آہستہ بچوں کو قابو کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ اس وائرس نے تو کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بچے اوپر سے نیچے شور کرتے دکھائی دیتے۔ لاکھ ڈانٹ ڈپٹ کی، آرام سے سمجھایا مگر بے سود۔ گھر کی بنیادیں ہلتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ رات کو دیر گئے تک موبائل پر گیم کھیلنا اور پھر آپس کی دھینگا مشتی نے تو گھر کا سکون برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ کہاں تو بچے صبح اسکول کے لیے اٹھتے اور دوپہر کا کھانا کھا کر ہوم ورک کرتے اور رات جلدی سونے کے عادی ہوچکے تھے، مگر اس وائرس سے سب کچھ تہس نہس ہوگیا تھا۔ اور یہ نہ صرف آمنہ کا رونا تھا بلکہ اکثر مائوں کے دل کی آواز تھی۔ روزمرہ کا ٹائم ٹیبل بھی بنا لیا، ہر بچے پر آزما کر دیکھ لیا، مگر ناکامی ہوئی۔ سونے پہ سہاگا کا کردار ان آن لائن کلاسز نے کیا۔ آمنہ کے دو بچے یونیورسٹی میں تھے۔ بڑی فاخرہ اور صارم تو وقت پر اپنی کلاسز لے رہے تھے، کیونکہ ان دونوں کے پاس اپنے موبائل تھے۔ مگر چھوٹے حاشر کو کمپیوٹر پر کلاسیں دلوائیں اور مائرہ کو اپنے موبائل پر۔ کمپیوٹر کی صلاحیت کچھ زیادہ خاص نہ تھی، اس کی ریم زیادہ لوڈ اٹھانے سے قاصر تھی، پھر بھی دونوں صفر تھے۔ ہونا بھی تھا، کیوں کہ جو بچے اسکول جاتے تھے اگر وہ اپنی پڑھائی پر توجہ نہ دیں تو صفر ہی رہیں گے۔ آمنہ خود بھی اسکول ٹیچر سے یہی شکایت کرتی نظر آتی، مگر بے سود۔ آخر اسکول والے بھی کیا کرتے! پرائیویٹ اسکول والے تو حکومت کو دھمکیاں دے دے کر تھک گئے مگر حکومت ہے کہ ان کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ وہ تو اس بات کی یقین دہانی بھی کراتے نظر آئے کہ ہم تمام SOP’s پر عمل کریں گے، مگر بے سود۔ اس عرصے میں جتنا نقصان بچوں کا ہوا اس کا ازالہ تو ناممکن تھا۔ وفاقی حکومت کے اعلان کے مطابق بچوں کو اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا جائے گا۔ جو بچے توجہ کے قابل تھے وہ تو اور ہی Nill ہوگئے تھے مگر کسے دہائی دیں! جن ممالک میں کورونا زیادہ تیزی سے پھیلا تھا انہوں نے بھی آہستہ آہستہ اسکول کھول دیے تھے، مگر ہمارے وفاقی وزیر تعلیم کو تو اس سے کوئی غرض ہی نہیں، ان کے اپنے بچے تو باہر ممالک میں پڑھتے تھے، انہیں کیا احساس ہو کہ یہاںکے بچوں کا مستقبل دائو پر لگ رہا تھا۔
یہ نہ صرف آمنہ کا مسئلہ تھا بلکہ پاکستان کی 80 فیصد مائوں کے دل کی آواز تھی۔
ایک دن آمنہ نے اس کا ذکر اپنی چھوٹی نند سے کیا۔ وہ بے چاری خود اس درد کی ستائی نظر آئی، کہنے لگی ’’بھابھی کیا کروں، بڑے عمار کو لیپ ٹاپ پر کلاسیں دلواتی ہوں، چھوٹے یاسر کو موبائل پر، اور اسی اثنا میں چھوٹی رمشا رو رو کر ہلکان ہوجاتی ہے اور توجہ بٹ جاتی ہے بچوں پر سے، سمجھ میں نہیںآتا‘‘۔ اب آمنہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
آمنہ کی دیورانی ماہم کی بیٹی فضا جو کہ ابھی تین سال کی تھی، اس سال فروری میں ہی اسے علاقے کے مشہور اسکول میں داخلہ دلوایا تھا، اس کی بھی آن لائن کلاسیں ہورہی تھیں، اور فضا کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر بھاگتی نظر آتی، اور وہ اس سے بے زار سی رہنے لگی تھی۔ آمنہ سوچتی کہ جائیں کہاں اور کہیں کسے! آمنہ گھر کے کام کے ساتھ بچوں کی آئن لائن کلاسیں بھی دیکھتی، مگر اسکول والے تھے کہ دھڑا دھڑ لیکچر دیے جارہے تھے۔ ابھی ایک کام پورا نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا لیکچر آجاتا، ادھر مائرہ بلاتی ’’امی یہ بتائیں‘‘، ادھر کمرے سے حاشر آوازیں دیتا دکھائی دیتا۔ لیکچر بھی ایسے جلدی جلدی دیے جارہے تھے جیسے بچوں کے منہ میں زبردستی کھانا ٹھونستے ہیں۔ ’’اماں، ابھی تو سائنس کا کام بھی مکمل نہیں ہوا کہ دوسرا سبق شروع کردیا‘‘۔ حاشر نے کمپیوٹر پر سے آواز لگائی ’’اماں یہ لوڈ نہیں ہورہا، اس میں وائرس ہے‘‘۔
ابھی ایک کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ مائرہ بولی ’’اماں جو لیکچر مس نے دیا ہے، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے اور اس کا تو PDF بھی نہیں کھل رہا‘‘۔ آمنہ سر پکڑ کر رہ گئی کہ کہیں تو کس سے! اسکول ٹیچر کو متعدد بار کہا تھا کہ یہ فارمولا ہمارے بچوں پر لاگو نہیں ہوگا، مگر اسے کوئی بھی سنجیدہ نہیں لے رہا تھا، اور مائیں ہلکان تھیں کہ ہمارے بچوں کا کیا ہوگا؟ ایک دن آمنہ کی سسرالی رشتے دار ملنے آئیں، کہنے لگیں ’’بھئی میرے بچے تو PG کھیلتے ہیں، کیا کریں اس کی وجہ سے وہ ایک طرف تو بیٹھے رہتے ہیں، اس وائرس کی وجہ سے ہر وقت گھر میں شور شرابہ مچا رہتا تھا، کم از کم سکون تو ہے‘‘۔
آمنہ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ اس طرح تو بچے ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں۔ روز روز اخبارات میں خبر ہوتی تھی کہ اس گیم سے بچے خودکشی کررہے ہیں، لیکن حکومت نے پہلے تو پابندی لگائی پھر دوسرے دن ہی اٹھا لی۔ اسی اثناء میں موبائل کا کاروبار عروج پر تھا۔ ظاہر ہے ہر ماں باپ کو اپنے بچوں کا مستقبل جو عزیز تھا، اور موبائل فون اس کا حصہ تھے، ہر جگہ موبائل پر رش نظر آتا۔ ’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا جاتے ہیں‘‘۔ ہر گھر میں بچے موبائل پر گیم کھیلتے نظر آتے۔ سونے پر سہاگا کچھ مائوں نے تو فیس بک پر ویڈیو بھی بناکر ڈالیں اور بچوںکو دعائیں یاد کرواکر دکھایا گیا کہ بولو اللہ تعالیٰ اس وائرس کو جلدی ختم کردیں تاکہ اسکول کھل جائیں۔ اور کچھ مائوں نے اسکول یونیفارم میں بچوں کی تصاویر بناکر وڈیو ڈالیں تاکہ حکومت کچھ تو ہوش کے ناخن لے، مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔