نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی ان آٹھ یونیورسٹیوں میں شامل ہے جنہیں تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کرنے والی ’’’آئی وی لیگ!! (Ivy League) نے اعلیٰ ترین تدریسی اور علمی مراکز قرار دیا ہے۔ اس یونیورسٹی کے بیچوں بیچ ستونوں والی لائبریری کی عمارت پر دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، سائنس دان، ادیب اور مصلحین کے نام کنندہ ہیں۔ ایک طرف سے پڑھنا شروع کریں تو قدیم یونانی شاعر ’’ہومر‘‘ سے آغاز ہوتا ہے اور پھر سقراط‘ افلاطون‘ ارسطو وغیرہ کے بعد چھلانگ لگا کر جدید مفکرین کے نام نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے یونان کی بربادی کے بعد سے لے کر بارہویں صدی عیسوی تک دنیا اندھیرے اور تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ایک دن اچانک روم میں آسمانوں سے علم کی بارشیں شروع ہو گئیں اور وہاں احیائے علوم (Renaissance) شروع ہو گیا۔ اس سارے عرصے میں مسلمانوں کے سات سو سال آتے ہیں جو علم و عرفان، سائنس و طب اور ادب و آگہی کے خزانوں سے عبارت ہیں۔
ایک منصوبہ بندی کے تحت پہلے ان کے تذکرے تاریخ کی کتابوں سے کھرچے گئے، پھر نصابِ تعلیم ایسے مرتب کیے گئے جن میں ان سات سو برسوں کو تاریک ادوار ( Dark Ages) کہا گیا اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب تاریخ نویسی‘ دانش ور نما مضمون نگاروں اور آج کی دنیا کے کالم نگار مفکروں کے ہاتھ میں آئی۔ ایسی مکھی پر مکھی ماری گئی ہے کہ آج کا مسلمان نوجوان جو ان کی تحریریں پڑھتا ہے‘ اُس کے سامنے اپنے آبا و اجداد کا کوئی مثبت چہرہ ہی نظر نہیں آتا۔ برصغیر پاک و ہند کی علمی تاریخ کا تو چہرہ ہی مسخ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ انگریز حکمرانوں نے اپنی سرپرستی میں ایسی تاریخ لکھوائی جس میں مسلمانوں کو صرف گھڑ سوار اور تلوار و تیر کا دھنی بنا کر پیش کیا اور ان کے مقابلے میں ہندو قدیم قلمی نسخوں کی مدد سے انہیں اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
آج میری نسل تک جو تاریخ پہنچی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ علم کی ترقی و ترویج قبل مسیح اوّلاً یونان میں ہوئی تھی یا پھر اسی دور میں ہندوستان ایک علمی مرکز تھا، پھر اس کے بعد کے ادوار تو سب تاریکی میں مسلسل ڈوبے رہے، یہاں تک کہ یورپ نے علم کی شمعیں روشن کیں۔
اصولِ حکمرانی اور امورِ سلطنت کے بارے میں تحریروں کی فہرست کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصہ پتھر پر کنندہ بادشاہوں کی ہدایات ہیں۔ ان کا آغاز نمرود کے ملک بابل کے حکمران حمورابی کے 282 قوانین کہا جاتا ہے۔ پھر اسی عہد کے قدیم فراعنۂ مصر، چین کی ٹیرا کوٹا فوج اور مینڈرنز (Mandrins) کے قوانین اور اشوک کی پتھروں پر کنندہ تحریروں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ دوسری فہرست ان کتب کی ترتیب ہے جو ماضی میں لکھی گئیں۔ اس فہرست کا آغاز افلاطون کی ’’الجمہوریہ‘‘ (Republic) سے ہوتا ہے جو تین سو سال قبل مسیح لکھی گئی اور اس کے بعد چانکیہ یا کوٹلیہ کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ کا تذکرہ بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے۔ ارتھ شاستر 1905ء میں دریافت ہوئی جب ایک تامل برہمن نے میسور میں کھولی جانے والی لائبریری کے لائبریرین ’’بنجمن لیوئس رائس‘‘ (Benjman Levis Rice) کو پیپل کے پتوں پر لکھی ہوئی یہ کتاب پیش کی اور اس نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کروا کر چھاپنا شروع کر دیا۔ بیس سال بعد اس کتاب کے کچھ اور حصے ملایالم زبان میں کہیں سے ملے، پھر چند سال بعد گجرات کی ایک لائبریری میں دیوناگری زبان میں اس کے کچھ حصے ملے۔ آخرکار ان مخطوطوں کو جمع کرکے 1960ء میں ’’’آر پی کنگلے‘‘ نے اک جامع کتاب ارتھ شاستر نام سے شائع کردی۔ تمام تاریخی شہادتیں جو ان مخطوطوں سے ملتی ہیں ان کے مطابق یہ کسی ایک مصنف نہیں بلکہ لاتعداد مصنفین کے مرتب کیے گئے اصولِ حکمرانی ہیں۔
کم از کم تین مصنفوں پر تو اتفاق ہے جنہوں نے اسے تحریر کیا‘ ایک چانکیہ، دوسرا کوٹلیہ اور تیسرا وشنو گپتا۔ ہمارے جدید دانش ور، مفکرین اور اخباری مورخین کی چالاکی دیکھیے کہ آپ کو ان کی تحریریں اور کالم پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہندوستان میں ایک بہت بڑی ہندو سلطنت مدتوں قائم رہی جس میں چانکیہ نام کا ایک عظیم سیاسی دانش ور پیدا ہوا جس نے بادشاہ کی ہدایت کے لیے ارتھ شاستر نامی عظیم کتاب تحریر کی تھی۔ ایک ایسی تحریر جو کتابی صورت میں ہی 1960ء میں منظم ہوکر سامنے آئی، اسے آج ہندو دانائی کی برتری ثابت کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے حالانکہ جس طرح ہندوستان کبھی ایک منظم ملک نہیں بلکہ کئی ہزار راجائوں کا ملغوبہ تھا، ویسے ہی یہ کتاب بھی مختلف علاقوں میں مختلف لوگوں کے لکھے گئے خیالات پر مشتمل دستاویز ہے۔
اس کے بعد یہ فہرست اچانک میکائولی کی کتاب “The Pricne” پرآجاتی ہے جو 1532ء میں شائع ہوئی۔ درمیانی عرصے میں یوں لگتا ہے جیسے تاریخ رک گئی تھی، علم ختم ہو گیا تھا اور تہذیب کسی اندھیر نگری میں گم ہو گئی تھی۔
اسی لیے کہ یہ بددیانت لوگ کسی مسلمان مفکر، دانش ور یا فلاسفر کی لکھی گئی کسی کتاب کا اس فہرست میں ذکر نہیں کرتے۔ اندازِ حکمرانی اور امورِ سلطنت کے حوالے سے اس گرد آلود تاریخ میں ایک مسلمان حکمران ایسا گزرا ہے جو تحریری مشوروں کے لیے کسی چانکیہ یا میکائولی کا محتاج نہیں تھا بلکہ اس نے خود اس فن پر دو عظیم کتب تحریر کی ہیں۔ اس بادشاہ اور عظیم مصنف کا نام ’’فخر الدین مبارک شاہ‘‘ ہے، جو 1338ء سے 1349ء تک موجودہ بنگلہ دیش کے علاقے پر حکمران تھا۔ اس کا دارالحکومت سنار گائوں تھا اور اس میں کومیلا، نوخالی، سلہٹ اور چٹاگانگ شامل تھے۔ ابنِ بطوطہ جب یہاں آیا تو اس نے اسے ایک ایسا ممتاز و خود مختار بادشاہ بتایا ہے، جس کے دور میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر لاتعداد فلاحی منصوبے جاری تھے اور انصاف کا دور دورہ تھا۔
فخرالدین مبارک شاہ نے اصولِ حکمرانی پر دو کتب تحریر کی ہیں۔ پہلی کتاب کا نام ’’آداب الملوک و کفایت ِالملوک‘‘ ہے جس کا مطلب ’’بادشاہت کے آداب اور رعایا کی خوش حالی‘‘ اور دوسری کتاب کا نام ہے آداب الحرب و الشجاعت‘‘ یعنی ’’جنگ اور بہادری کے آداب۔‘‘
پہلی کتاب جو آداب و اصولِ حکمرانی کے بارے میں ہے وہ اس قدر وسیع اور مفصل ہے کہ افلاطون کی الجمہوریہ، ارتھ شاستر اور میکائولی کی پرنس میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا۔ بادشاہوں کے بارے میں کتاب کے باب کا آغاز جس فقرے سے ہوتا ہے وہی اس کتاب کو دنیا میں لکھی گئی ایسی تمام کتابوں سے ممتاز کردیتا ہے۔ فقرہ یہ ہے، ’’عالموں کے بعد سلاطین آتے ہیں جنہیں خدائے بزرگ و برتر نے صاحبِ امر کہا ہے اور دنیا کی بہتری ان کی ذات سے وابستہ ہے۔‘‘ یعنی مصنف جو کہ خود ایک خود مختار بادشاہ ہے، اس نے جب لوگوں کی عزت و توقیر کے حساب سے درجہ بندی کی تو عالموں کو سلاطین اور بادشاہوں سے بلند رکھا ہے۔
اس باب کے آغاز بعد کے فقرے یوں ہیں، ’’سرکار دو عالمؐ کا قول ہے ’’اگر بادشاہ نہ ہوتے تو لوگ ایک دوسرے کو کھا جاتے۔‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے، جس میں مظلوم پناہ لیتے ہیں۔ اور سائے سے مراد راحت و آسائش ہے، اس لیے کہ وہاں انصاف اور امن ہوتا ہے اور یہ مظلوموں کے رہنے اور ظالموں سے بھاگ کر بادشاہوں کی پناہ و حمایت میں آنے کی جگہ ہے۔‘‘
گزشتہ پانچ ہزار سال سے اصولِ حکمرانی اور بادشاہت سے متعلق لاتعداد کتب تحریر ہوتی چلی آرہی ہیں اور بادشاہ کو زمین پر اللہ کا سایہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن کوئی مجھے صرف ایک ایسی کتاب نکال کر دکھاسکتا ہے، جس میں بادشاہ کے سائے کی اس قدر خوب صورت تعریف کی گئی ہو۔ یعنی اگر بادشاہ کا سایہ انصاف اور امن کا سایہ نہیں ہے تو پھر وہ اللہ کا سایہ نہیں۔ لیکن امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک کوئی آج کی اس مہذب دنیا میں اس کتاب کا تذکرہ تک نہیں کرتا۔ یہ ہے سیکولر لبرل تعصب کی علمی دنیا۔