مرتب: اعظم طارق کوہستانی
تیسری قسط
ایک اﷲ کی ربوبیت پر کامل ایمان رکھنے والے فرد کی حیثیت سے سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ زندگی میں پائی جانی والی پیچیدگی اور تنوع جو یک خلوی جانداروں سے لے کر ایک کامل انسان تک میں پایا جاتا ہے‘ کسی حادثاتی یا الل ٹپ عمل کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ اس کے اندر ایک غیر معمولی نظم پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: کائنات ایک اعلیٰ ترین دماغ کی تخلیق ہے‘ جس نے مختلف جانداروں میں سے ہر ایک کو اس کے لیے درکار سازگار ماحول میں نشوو نما دی اور پھر رفتہ رفتہ انھی جانداروں سے امتیازی خصوصیات رکھنے والی انواع (species) کو فروغ دیا۔ اگر اﷲ تعالیٰ کے منصوبے میں کچھ انواع کا وجود غیر ضروری ہو گیا تو اس نے انھیں بتدریج معدوم کر دیا۔ اس کے برعکس ڈارون کے پیروکار‘ فطرت کو ایک ایسی عینک سے دیکھتے تھے جو بے خدا ذہنیت کے رنگ میں رنگی ہوتی تھی۔ اس عینک سے دیکھتے ہوئے انھیں جو کچھ نظر آتا تھا وہ یہ تھا کہ زمین پر زندگی جوہری ذرات (atoms) کے خود بخود ترتیب پانے کی صلاحیت کی مرہون منت ہے۔ سید مودودیؒ کے نزدیک ڈارون ازم ایسے ذہن کے لیے بآسانی قابل قبول تھا: ’’یورپ نے جو اس وقت اپنے الحاد کو پاؤں کے بغیر چلا رہا تھا‘ لپک کر یہ لکڑی کے پاؤں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صرف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں‘ بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علوم عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کر لیا۔ حالانکہ علمی اور عقلی حیثیت سے اس توجیہہ میں اتنے جھول تھے اور ہیں کہ مشکل ہی سے کوئی صاف دماغ کا آدمی اس کو منظر (phenomena) کی ممکن توجیہات میں سے ایک قابل لحاظ توجیہہ قرار دے سکتا ہے‘‘۔(ایضاً‘ ص۲۸۰)
ڈارون خود یہ بات تسلیم کرتا تھا کہ اس کا نظریہ عمل ارتقا زندگی کی درمیانی کڑیوں کی توجیہہ سے قاصر ہے۔ اس کے سب سے بڑے حامی جولین ہکسلے نے اس کی کتاب اصل الانواع (The Origin Of the Species) کو ایک عظیم کتاب قرار دیا تھا۔ اس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ درمیانی کڑیاں لازماً موجود ہوں گی۔ ہکسلے کے مندرجہ ذیل الفاظ مذہبی ایقان کی کیفیت سے سرشار دکھائی دیتے ہیں:
Hence we ought not to expect at the present time to meet with numerous transitional varieties in each region, though they must have existed there, and may be embedded there in a fossil condition. If my theory be true, linking closely together all the species of the same group, must assuredly have existed.
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ عمدہ طریقے سے منتخب کردہ شہادتوں کا ایک وسیع ذخیرہ فراہم کرتی ہے — جس میں [مصنف] ثابت کرتا ہے کہ زمین پر پائے جانے والے حیوانات اور پودے اپنی موجودہ شکلوں میں فرداً فرداً پیدا نہیں کیے جا سکتے تھے‘ بلکہ لازمی طور پر اپنے سے پہلے پائی جانے والی شکلوں سے تبدیلی کے ایک سست رفتار عمل کے ذریعے لازماً ارتقا پذیر ہوئے ہوں گے۔
ڈارون اپنے نظریے کی خامیوں سے آگاہ تھا۔ اس کی کتاب کا چھٹا باب جس کا عنوان ’’نظریۂ ارتقا کی مشکلات‘‘ ہے‘ دوسری باتوں کے علاوہ زندگی کی درمیانی کڑیوں کی عدم موجودگی کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اپنے ناقدین کے اعتراضات کو دہرانے کے بعد وہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر انواع ایک دقیق تدریجی عمل کے ذریعے دوسری انواع سے نکلی ہیں تو ہمیں جگہ جگہ زندگی کی درمیانی کڑیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ وہ ان مشکلات کو اپنے نظریے کے حق میں مہلک قرار دیتا ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں اس کا موقف یہ ہے کہ تحجّراتی (fossil) ریکارڈ ابھی نامکمل ہے: ’’چنانچہ ہمیں فی الوقت ہر علاقے میں زندگی کی بے شمار درمیانی کڑیاں (missing links) دیکھنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ اگرچہ یہ اقسام وہاں رہی ضرور ہوں گی اور فوسل کی شکل میں زمین میں دفن ہو چکی ہوں گی‘‘ (ص۱۵۸)۔ پھر صفحہ ۱۶۳ پر بھی وہ اسی قسم کا ایک اور بیان دیتا ہے: ’’اگر میرا نظریہ درست ہے اور ایک ہی گروپ کی تمام انواع میں قریبی تعلق پایا جاتا ہے تو یہ لازمی ہے کہ زندگی کی درمیانی کڑیاں رہی ہوںگی‘‘۔سید مودودیؒ نے اس نظریے میں ’’لازماً ہوا ہو گا‘‘ (must have evolved) جیسے جملوں پر انحصار کرنے کو ایک غیر سائنسی رویہ قرار دیا۔
m تاریخ کے بارے میں ہیگل اور مارکس کا نقطۂ نظر: سید مودودیؒ، تہذیب جدید پر اس وجہ سے تنقید کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اس نے بنی نوع انسان کے مسائل میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے جن کی جڑیں ہیگل کی تاریخ نگاری میں پیوست ہیں۔ کارل مارکس نے ہیگل کے پیش کردہ ’’جدلی عمل‘‘ (Dialectical Process) کے تصور کی بنیاد پر تاریخ کی مادی تعبیر کی عمارت کھڑی کر کے انسانی مصائب میں مزید اضافہ کیا۔ ہیگل کی وہ تاریخ نگاری‘ جسے سید مرحوم اس قدر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اصل میں ہے کیا؟ اپنے مخصوص مجمل انداز میں‘ جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے‘ سید مودودی‘ ہیگل کے فلسفے کو حسب ذیل الفاظ میں سمیٹتے ہیں:
انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اضداد کے ظہور‘ تصادم اور امتزاج سے واقع ہوتا ہے اور تاریخ کا ہر دور ایک وحدت‘ ایک کل‘ یا اگر استعارہ کی زبان میں کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایک زندہ نظام جسمانی ہوتا ہے۔ اس دور میں انسان کے سیاسی‘ معاشی‘ تمدنی و اخلاقی‘ علمی و عقلی اور مذہبی تصورات ایک خاص مرتبے پر ہوتے ہیں۔ ان سب کے اندر ایک مناسبت‘ ایک ہم آہنگ کلیت ہوتی ہے۔ وہ گویا اس زندہ وجود ‘ یا اس عصری وحدت کے مختلف پہلو یا رخ ہوتے ہیں‘ اور ان سب میں اس پورے دور کی روح طاری و ساری ہوتی ہے۔جب ایک بڑا دور اپنی روح کو انتہائی مدارج تک ترقی دے چکتا ہے‘ اور اس دور کو چلانے والے اصول‘ نظریات اور افکار انسانی تہذیب و تمدن کو اپنی قوت و استعداد کی آخری حد تک پہنچا دیتے ہیں‘ تب خود اسی دور کی آغوش سے پرورش پا کر اس کا ایک دشمن ظاہر ہوتا ہے‘ یعنی کچھ نئے افکار‘ نئے رجحانات‘ نئے نظریات اور نئے اصول جو خود اسی روبہ زوال دور کے طبیعی تقاضے سے پیدا ہوتے ہیں اور پرانے افکار سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ مدت تک قدیم اور جدید میں کش مکش جاری رہتی ہے۔ بالآخر کسرو انکسار کے بعد قدیم و جدید میں امتزاج ہو جاتا ہے۔ کچھ قدیم عناصر اور کچھ جدید عناصر کی آمیزش سے ایک نئی عصری تہذیب وجود میں آتی ہے۔ اور اسی طرح تاریخ کا ایک دوسرا دور شروع ہوجاتا ہے۔
اس عمل ارتقا کو ہیگل اپنی اصطلاح میں ’جدلی عمل‘ (Dialectic Process) کہتا ہے۔ اس کے نزدیک عرصۂ تاریخ یا میدانِ دہر میں گویا ایک مسلسل منطقی مناظرہ و مجادلہ ہورہا ہے۔ پہلے ایک دعویٰ (thesis) سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے مقابلے میں جواب دعویٰ (antithesis) پیش ہوتا ہے۔ پھر ایک طویل جھگڑے کے بعد عقلِ کُل یا روح کُل ان کے درمیان صلح کراتی ہے‘ یعنی کچھ باتیں اِس کی اور کچھ اُس کی قبول کر کے ایک مرکب (synthesis) بنا دیتی ہے۔ آگے چل کر یہ مرکب خود ایک دعویٰ بن جاتا ہے۔ پھر اس کا جوابِ دعویٰ مقابلے میں آتا ہے اور پھر ان کے درمیان لڑائی کے بعد مصالحت ہوتی ہے اور ایک نیا مرکب بنتا ہے‘‘۔(تفہیمات‘ دوم‘ ص ۲۶۴)
’جدلی عمل‘ پر گرفت کرتے ہوئے سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ ہیگل کے نزدیک ’جدلی عمل‘ اپنے جوہر میں اجتماعی اور اپنے اثرات میں ہمہ گیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ کا کوئی بھی دور گویا ایک مجسم اور زندہ اکائی ہے ‘ جب کہ افراد اور انسانی گروہ اس کے اعضا وجوارح ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس دور کے اجتماعی مزاج کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکتا‘ حتیٰ کہ عظیم تاریخی شخصیات کی حیثیت بھی شطرنج کے مہروں کی سی ہے۔ اس زور آور دریا کے طوفانی بہاؤ میں سے ’’خیالِ مطلق‘‘ (Absolute Idea) شاہانہ انداز میں بلند ہوتا ہے اور ’’دعویٰ‘‘ ، ’’جوابِ دعویٰ‘‘ اور بالآخر ان دونوں کے امتزاج یا ’’تالیف دعاوی‘‘ کا سبب بنتا ہے۔ ہیگل کے تصور کے مطابق اس سارے عمل میں ایک واضح ستم ظریفی موجود ہے۔ ’’خیالِ مطلق‘‘ یا ’’سببِ جہاں‘‘ (World Reason) افراد اور گروہوں کو اس مغالطے کا شکار کرتا ہے کہ وہ تبدیلی کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں‘ جس سے وہ اس یقین میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہی دراصل اس تاریخی کھیل میں حرکت اور تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں۔ لیکن درحقیقت ’’سببِ جہاں‘‘ ان کو اپنی ذات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کے لیے گویا یہ وجود پذیری کا عمل ہے۔
ہیگل کے فلسفہ تاریخ پر بحث کرنے کے بعد سید مودودیؒ اپنے مخصوص اور جامع اسلوب میں مارکس کے خیالات کا خلاصہ بیان کرتے ہیں: ’’کارل مارکس نے ہیگل کے اس فلسفیانہ نظریے میں سے ’جدلی عمل‘ کا خیال تو لے لیا مگر روح یا فکر کا تصور جو ہیگلی فلسفے کی جان تھا‘ اس سے الگ کر دیا۔ فکر کے بجاے اس نے مادی اسباب یا معاشی محرکات کو تاریخی ارتقا کی بنیاد قرار دیا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۶۵)
سید مودودی ؒکہتے ہیں: مارکس کے اس نقطۂ نظر کے مطابق انسانی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والی واحد چیز معیشت ہے۔ کسی بھی دور کی تہذیب‘ اس کے قوانین‘ اخلاقیات‘ مذہب‘ فنون اور فلسفے کی تشکیل اس دور کا معاشی نظام ہی کرتا ہے۔ مارکسی تصور کے مطابق ’جدلی عمل‘ تاریخ میں اپنے اثرات کو اس وقت ظاہر کرتا ہے‘ جب کسی نظام معیشت کے تحت افراد کا ایک طبقہ ذرائع پیداوار پر قبضہ کر لیتا ہے اور دوسرے طبقات کو ذلت آمیز انحصار پر مجبور کر دیتا ہے۔ جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کچلے ہوئے طبقے کے لوگ رفتہ رفتہ اپنی حالت سے بے زار ہونا شروع ہو جاتے ہیں‘ اور آخر کار حق ملکیت اور مال و اسباب کی تقسیم کے بارے میں مختلف اصول و ضوابط رکھنے والے ایک ایسے نظام کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں‘ جو ان کے مفادات کو پورا کر سکے۔ کسی مروّجہ سیاسی نظام میں اس قسم کی گروہ بندی کا پھلنا پھولنا دراصل چلتے نظام کے خلاف ’’جوابِ دعوی‘‘ ہوتا ہے۔ جوں جوں اس کش مکش میں شدت آتی جاتی ہے‘ قانون‘ مذہب اور دیگر تصورات اپنے وجود کو خطرے میں پا کر استحصالی نظام کی بقاکے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ نئے ابھرنے والے طبقات جو موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں‘ پہلے سے تسلیم شدہ ’سچائیوں‘ کو مسترد کر کے نئی اقدار کو رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کارل مارکس کے نزدیک تاریخ میں آنے والی تما م تبدیلیوں اور انسانی تمدن کے ارتقا کو ذرائع پیداوار اور ان کی تقسیم کے عمل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو جو چیز حرکت میں لاتی ہے‘ وہ طبقاتی جنگ (class war) ہے۔ مارکس کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ انسانی تہذیب میں مذہب اور اخلاقیات کی کوئی طے شدہ اقدار نہیں ہیں جنھیں معروضی سچ قرار دیا جا سکے۔ اس کے برخلاف یہ انسانی فطرت ہے کہ پہلے اپنے مادی مفادات کے حصول کے لیے ایک نمونہ (model) منتخب کرے۔ اس کے بعد اس کے جواز و بقا کے لیے ایک نیا مذہب اور اخلاقیات کا ایک نیا فلسفہ ایجاد کرے۔ یہ خود غرضانہ کش مکش فطرت کے عین مطابق ہے۔ مصالحت کے لیے اگر کوئی بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ معاشی مفادات کے اشتراک ہی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ جو لوگ ان مشترکہ مفادات کے حق میں نہیں ہوتے وہ ایک نزاع اور تصادم کو دعوت دیتے ہیں۔
(جاری ہے)