کوئی چراغ تو ایسا بھی جلایا جائے
کہ جس کی لو سے ہر اک سمت اجالا جائے
بہت آلودہ ہیں قلب و نظر جدھر دیکھو
ہر اک مقام پہ آنچل کو سنبھالا جائے
بے ستر ہو کے بھلا کس نے کوئی عظمت پائی ؟
اپنی کھوئی ہوئی رفعت کو سنبھالا جائے
وہ کوئی چیز نہیں ہے جو یوں بک جائے گی
اس کی ندرت پہ یہ الزام نہ ڈالا جائے
اس نے مغرب کی نئی سوچ میں پناہ لی ہے
دہر کے اس دجل سے عورت کو نکالا جائے