”سنو، تمہارا کوئی آئیڈیل ہے؟“ کالج میں فری پیریڈ کے دوران انوشے نے اپنے گروپ میں لڑکیوں کے جھرمٹ سےچیخ کر سمیہ سے سوال کیا۔ سمیہ جو پہلے ہی کالج میں حیران و پریشان بیٹھی تھی، اس سوال سے تھوڑی دیر سوچ میں پڑگئی۔ انوشے اور اس کی سہیلیوں کا ایک قہقہہ بلند ہوا۔ ”ارے یار تم کہاں سے آئی ہو! نہ تمہارا کوئی فیس بک اکاونٹ ہے، نہ ہی تم سوشل میڈیا کی کسی ویب سائٹ پر ہو، نہ تمہاری کوئی آن لائن دوستیاں ہیں، نہ تم ٹک ٹاک جانتی ہو۔ آج کل بچہ بچہ ٹک ٹاکر ہے۔ تم کون سے سیارے کی مخلوق ہو یار…! یہ کہہ کر وہ اس پر ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ کالج شروع ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے۔ سمیہ کالج میں نئی نئی آئی تھی۔ ماحول دیکھ کر وہ تھوڑی ہچکچاہٹ کا بھی شکار تھی۔ وہ اس ماحول کی عادی نہ تھی۔ بچپن سے اس کی تربیت ایک اسلامی ماحول میں ہوئی۔ والدین کی تربیت بھی ایسی ہی تھی کہ کبھی بچوں کو کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہونے دی۔
گھر میں ٹی وی کے خلاف اس کے والدین نے کبھی کوئی فرسودہ اور مغربی لبادے میں لپٹا فعل بچوں کو نہ کرنے دیا، نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی۔
بچے بھی اسلامی تہذیب اور ماحول میں اس قدر رچ بس گئے تھے کہ کبھی انہوں نے کسی دوسری بات پر سمجھوتا نہیں کیا۔
گھر آکر سمیہ نے اپنی والدہ سے انٹرنیٹ کے بارے میں بات کی اور پوری داستان ان کے گوش گزار کردی، اور ساتھ ساتھ وہ اپنی والدہ سے گھر میں ٹی وی اور انٹرنیٹ نہ ہونے کا سبب بھی پوچھنے لگی۔
سمیہ کی والدہ گھر کے کاموں اور سمیہ کے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ اس قدر مصروف رہتیں کہ وہ سمیہ کو مطمئن کرنے والا کوئی جواب نہ دے سکیں۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ پڑھی لکھی نہ تھیں یا اسے دقیانوسی طریقے سے پالنا چاہتی تھیں۔ وہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور یہ راستہ بھی انہوں نے اپنی مرضی سے خود ہی چنا تھا۔
وہ خوب جانتی تھیں کہ گھر والوں کی خدمت اور بچوں کی بہترین پرورش پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ضمانت دی ہے۔ وہ سمیہ کو بھی اپنے خاندان، اپنے دین، اپنے ملک سے محبت کرنا سکھاتی رہتی تھیں۔
سمیہ کی ساری باتیں دادی نے سن لی تھیں۔ رات کو کھانے کے بعد انہوں نے سمیہ کو اپنے کمرے میں بلوایا اور خود قرآن لے کر کمرے میں چلی گئیں۔
تھوڑی دیر بعد سمیہ کمرے میں داخل ہوئی۔ دادی جان نے اس سے پورے دن کی روداد سنی۔ سمیہ اداس تو تھی ہی، دادی کو بتاتے بتاتے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
دادی اسے چپ کراتی رہیں۔ جب اس کے دل کا غبار کچھ ہلکا ہوا تو دادی نے پانی نکال کر دیا اور اس سے گویا ہوئی ”تم جانتی ہو سمیہ یہ کیبل، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر کیا آتا ہے، اور تمہارے ابو اسے کیوں نہیں لگواتے؟“ ”دادی میں بس اتنا جانتی ہوں کہ اس پر کچھ گندی چیزیں آتی ہیں، لیکن دادی سب کچھ تو برا نہیں ہوتا، اس سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور ہمارا تجربہ بھی تو وسیع ہوتا ہے ناں۔ دیکھیں مجھ سے چھوٹے بچوں تک کو انٹرنیٹ بآسانی چلانا آتا ہے لیکن میں ابھی تک اس سے نابلد ہوں“۔ سمیہ نے کہا۔ اسی اثناء میں ابو بھی کمرے میں داخل ہوچکے تھے۔ امی انہیں ساری صورت حال بتا چکی تھیں۔ وہ سمیہ کو پیار کرتے ہوئے دادی کی اجازت سے گویا ہوئے ”بیٹا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہمارے ملک کو قائداعظم کے بعد کبھی بھی اسلام پسند اور پاکستان سے محبت کرنے والے سیاست دان نصیب نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ مملکتِ خداداد پر غیر ملکی اثررسوخ بآسانی اپنے پنجے گاڑنے میں مصروف ہے۔ ان کا سب سے بڑا ہدف یہاں کی نئی نسل ہے“۔ ”ویسے بھی کسی بھی ملک کی تہذیب کو ان ڈراموں کے ذریعے بآسانی ختم کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی این جی او یا دوسرے عناصر غیر ملکی کلچر رائج کرنا چاہتے ہیں تو بآسانی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے منتقل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، چاہے وہ اخلاقیات کے دائرے میں آتا ہو یا نہ آتا ہو“۔ دادی نے سمجھایا۔ اس پر سمیہ بولی ”دادی اس کا نقصان تو نہیں ناں۔ ہم اس سے بچ کر چلیں گے۔ ان پر عمل نہ کرکے ان چیزوں سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے ہماری معلومات میں اضافہ بھی تو ہوتا ہے“۔ اس پر دادی نے کہا ”بیٹا تمہاری تربیت اس مضبوط ماحول میں ہوئی ہے۔ تم خود ان حالات میں ڈگمگا گئی ہو تو اُن بچوں اور نوجوانوں کا سوچو جن کو مضبوط ماحول و تربیت میسر نہیں آتی۔ وہ تو اسی کو تربیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان فلموں، ڈراموں سے براہِ راست ہمارے افکار و نظریات پر ضرب پڑتی ہے۔ اور اگر ایک قوم اپنے افکار، نظریات اور اعتقادات کو بھلا بیٹھے تو دوسروں کے افکار و نظریات اس قوم پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پاکستانیوں نے اپنی ثقافت کو چھوڑ کر جدیدیت کے نام پر یورپی ثقافت اور ان کے رہن سہن اور طور طریقوں کو گلے لگایا اور اپنی پہچان کو بھلا دیا ہے۔ تم سمجھ رہی ہو ناں میں کیا کہہ رہی ہوں“۔ دادی نے غور سے سنتی سمیہ سےکہا۔ ”جی دادی، لیکن اس سے قوم ذہنی طور پر غلام کیسے ہوگئی؟“
دادی بولیں ”مغربی اور غیر ملکی فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر نوجوان نوآموز ذہن نے مکمل طور پر ان کی ہر چیز سے مرعوبیت اپنے اوپر لازم کرلی، اور آج پاکستانی قوم ذہنی طور پر یورپ کی مکمل غلام بن چکی ہے“۔ ”لیکن یہ تو بڑے فخر سے اپنے آپ کو ماڈرن اور دوسروں کو دیسی ثابت کرنے پر تلے ہیں“۔ سمیہ نے کہا۔ اس پر ابو بولے ”ہمارے تعلیمی اداروں میں سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایسی قوم تیار کی جارہی ہے جو آنے والے وقتوں میں علامہ اقبال اور قائداعظم کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہوگی۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں یورپی افکار و نظریات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ مڈل کلاس میں جہاں بچوں کو تہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے وہاں جنسی تعلیم کی بات کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے“۔ ابو کی بات پر سمیہ نے کہا ”ابو ایسی لڑکیاں اساتذہ کا بھی ادب نہیں کرتیں، ان سے بھی بدتمیزی سے پیش آتی ہیں“۔ اس پر ابو بولے ”بیٹا اساتذہ کی عزت وتکریم کا درس دینے کے بجائے انہیں ملازم باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شرم وحیا کی تعلیم دینے کے بجائے بے حیائی عام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی قوم کو جدیدیت کے نام پر ذہنی مرتد بنایا جارہا ہے۔ ہماری قوم ذہنی انحطاط کا شکار ہوچکی ہے۔ ہم اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔ ہم دوسروں کے اشاروں پر چلنے والے ہوگئے ہیں۔ ہماری فکرو تدبر کی صلاحیت چھین لی گئی ہے۔ ہمارے اندر قیادت کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے۔ ہماری سوچوں پر مغربیت کا غلبہ ہے۔ یہ سب اسلامی اقدار اور ثقافت کو خیرباد کہنے کا نتیجہ ہے“۔ اس پر سمیہ نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا ”ابو یہ مغربی غلبہ اور مرعوبیت ہمارے اندر سے کیسے ختم ہوگی؟“ ابونے کہا ”جب تک مسلمانوں نے اپنی پہچان قائم رکھی، اپنے اسلامی افکار و نظریات پر ڈٹے رہے اور اسلامی ثقافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا اُس وقت تک پوری دنیا پر ان کی حکومت رہی اور دنیا کے کونے کونے میں ان کی علمیت کا ڈنکا بجتا رہا“۔ ”ابو یہ کس وقت کی بات ہے؟“ سمیہ نے پوچھا۔ اس پر ابو بولے ”یہ اُس وقت کی بات ہے جب یورپ کو قلم و قرطاس سے معرفت بھی نہیں تھی۔ مسلمان علم کے ہر شعبے میں تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید میں مصروف تھے۔ آج بھی یورپ کی لائبریریوں میں مسلمانوں کا علمی سرمایہ موجود ہے جس سے استفادہ کرنے کے لیے باقاعدہ خصوصی ٹیمیں بنائی گئی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ سب کچھ ہمارا تھا لیکن ہم نے اس کی قدر نہیں کی اور اسلاف کی علمی میراث کو پلیٹ میں رکھ کر یورپ کے حوالے کردیا۔ آج یورپ اسی سے استفادہ کرکے پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور ہمیں اپنی ثقافت اور روایات میں ڈھالنے کی سر توڑ کوششیں کررہا ہے۔ پاکستانی ثقافت تقریباً دفن ہوچکی ہے“۔ ”ابو اس کا کیا حل ہوگا؟ ہم کیسے اپنی نئی نسل کو اس مغربی تسلط کے مضمرات بتاسکتے ہیں؟ حکومت کیا کرسکتی ہے؟“ ابو نےکہا ”بیٹا حکومتی سطح پر اسلامی اور پاکستانی ثقافت کے احیا کا تصور بھی ناممکن ہے، کیونکہ نئی حکومت زیادہ سے زیادہ سینما گھر بناکر فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ثقافت اور اقدار کو فروغ دینے کے درپے ہے۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے منتقل ہونے والی ثقافت اسلامی یا پاکستانی ہرگز نہیں ہوسکتی۔ یقینی طور پر حکومت کی ترجیحات میں مسلم معاشرے کو بے راہ روی کے راستے پر گامزن کرنا ہے۔ پاکستان میں مکمل طور پر مغربی اور انڈین ثقافت کو فروغ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں“۔ ”ابو اس کا مطلب ہے حکومت بھی مغربی جال پھیلانے کے درپے ہے؟“ سمیہ نے پوچھا۔ ابو تاسف سے بولے ”بیٹا فلموں کے ذریعے بے حیائی اور ڈراموں کے ذریعے روشن خیالی اور بداخلاقی کا سبق دیا جارہا ہے۔ ڈراموں میں ماں بیٹی کی آپس میں نفرتیں، بیوی کا شوہر سے بدتمیزی کا انداز، اور شوہر کا بیوی کو مارنا، ساس بہو کے جھگڑے اور دشنام طرازی، ماں باپ کی بے توقیری، قریبی رشتے داروں سے غیر مناسب رویّے، باپ بیٹے کی لڑائی اور اس طرح کی دیگر بداخلاقیاں خصوصی طور پر دکھائی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب دکھانے کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ڈراموں میں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ جبکہ تم جانتی ہو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کتنے ہی گھر صرف اُن ڈراموں کی وجہ سے ٹوٹتے ہیں جن میں میاں بیوی اور ساس بہو کے جھگڑے دکھائے جاتے ہیں“۔ سمیہ نے کہا ”ابو یہ سب مرعوبیت کب شروع ہوئی؟ آپ نے تو بتایا تھا کہ مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت نے سینکڑوں سال آدھی سے زائد دنیا پر حکومت کی“۔ اس پر ابو نے دکھ سے کہا ”پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنت ِ عثمانیہ کے زوال سے نئے دور کا آغاز ہوا، جس میں سیکولر، قوم پرست اور مقتدر ریاست تنظیم کی غالب شکل میں سامنے آئی۔ جدیدیت پسند یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام پسماندگی اور زوال کا سبب ہے، اور جدیدیت کے لیے ضروری ہے کہ مغربی ثقافت اور تنظیمی ڈھانچے کی پیروی کی جائے۔ 1924ء میں ترکی میں عثمانی خلافت ختم کردی گئی اور مغربی قانون، رسم الخط اور لباس نافذ کردیا گیا۔ عورتوں کے نقاب جبراً اتار لیے گئے۔ اسی طرح کا طرزعمل ایران اور عرب دنیا میں اپنایا گیا۔ اگرچہ اسلام پر یہ حملہ کلی طور پر جاری نہ رہا، اسلام ترکی، ایرانی اور عرب قومیت میں تقسیم ہوگیا“۔ ”یہ تو بہت برا ہوا ناں!“سمیہ بولی۔ ابو تاسف بھرے لہجے میں بولے ”زوال کا یہ عمل ناگہانی آفت بن کر اِس اُمت پر مسلط نہیں ہوا، بلکہ یہ صدیوں کا عمل ہے جو کچھ اسباب اور عوامل کے تحت وقوع پذیر ہوا۔“
”اب دنیا کی مجموعی حالت ہی کچھ ایسی ہے۔ ہم آئے روز اخبارات میں بھی پڑھتے ہیں۔ اب ان تمام عوامل کا مغربی تسلط سے کوئی ربط ہے کیا؟“ سمیہ نے ابو سے پوچھا۔ اس پر دادی جو خاصی دیر سے تمام باتیں سن رہی تھیں، حدیث کی ایک کتاب اٹھا لائیں اور اسے کھول کر پڑھتے ہوئے گویا ہوئیں ”سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں اس باب میں بھی بڑی واضح رہنمائی ملتی ہے۔ تاہم یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بہت ہی جامع ارشادِ مبارک بیان کیا جاتا ہے جو ان اسباب و علل کا جامع احاطہ کرتا ہے:
”72 چیزیں قربِ قیامت کی علامات ہیں: جب تم دیکھو کہ لوگ نمازیں غارت کرنے لگیں، امانت ضائع کرنے لگیں، سود کھانے لگیں، جھوٹ کو حلال سمجھنے لگیں، معمولی بات پر خوں ریزی کرنے لگیں، اونچی اونچی بلڈنگیں بنانے لگیں، دین بیچ کر دنیا سمیٹنے لگیں، رشتے داروں سے بدسلوکی ہونے لگے، انصاف کمزور ہوجائے، جھوٹ سچ بن جائے، لباس ریشم کا ہوجائے، ظلم، طلاق اور ناگہانی موت عام ہوجائے، خیانت کار کو امین اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے، تہمت تراشی عام ہوجائے، بارش کے باوجود گرمی ہو، اولاد غم و غصے کا موجب ہو، کمینوں کے ٹھاٹھ ہوں اور شریفوں کا ناک میں دم ہوجائے، امیر وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں، امین خیانت کرنے لگیں، سردار ظلم پیشہ ہوں، عالم اور قاری بدکار ہوں، جب لوگ بھیڑ کی کھالیں (پوستین) پہننے لگیں، ان کے دل مُردار سے زیادہ بدبودار اور لوہے سے زیادہ سخت ہوں، اس وقت ﷲ تعالیٰ انہیں ایسے فتنے میں ڈال دے گا جس میں وہ یہودی ظالموں کی طرح بھٹکتے پھریں گے اور (جب) سونا عام ہوجائے گا، چاندی کی مانگ ہوگی، گناہ زیادہ ہوجائیں گے، امن کم ہوجائے گا، مصاحف کو آراستہ کیا جائے گا، مساجد میں نقش و نگار کیے جائیں گے، اونچے اونچے مینار بنائے جائیں گے، دل ویران ہوں گے، شرابیں پی جائیں گی، شرعی سزاؤں کو معطل کردیا جائے گا، لونڈی اپنے آقا کو جنے گی، جو لوگ (کسی زمانے میں) برہنہ پا اور ننگے بدن رہا کرتے تھے وہ بادشاہ بن بیٹھیں گے، زندگی کی دوڑ میں اور تجارت میں عورت مرد کے ساتھ شریک ہوجائے گی، مرد عورتوں کی اور عورتیں مردوں کی نقالی کرنے لگیں گی، غیراللہ کی قسمیں کھائی جائیں گی، مسلمان بھی بغیر کہے (جھوٹی) گواہی دینے کو تیار ہوگا، جان پہچان پر سلام کیا جائے گا، غیر دین کے لیے شرعی قانون پڑھا جائے گا، آخرت کے عمل سے دنیا کمائی جائے گی، غنیمت کو دولت، امانت کو غنیمت کا مال اور زکوٰۃ کو تاوان قرار دیا جائے گا، سب سے ذلیل آدمی قوم کا حکمران بن بیٹھے گا، بیٹا اپنے باپ کا نافرمان ہوگا، ماں سے بدسلوکی کرے گا، دوست سے نیکی کرے گا اور بیوی کی اطاعت کرے گا، بدکاروں کی آوازیں مسجدوں میں بلند ہونے لگیں گی، گانے والی عورتیں داشتہ رکھی جائیں گی اور گانے کا سامان رکھا جائے گا، سرِراہ شرابیں اڑائی جائیں گی، ظلم کو فخر سمجھا جائے گا، انصاف بکنے لگے گا، پولیس کی کثرت ہوجائے گی، قرآن کو نغمہ سرائی کا ذریعہ بنالیا جائے گا، درندوں کی کھال کے موزے بنائے جائیں گے اور امت کا پچھلا حصہ پہلے لوگوں کو لعن طعن کرنے لگے گا، اس وقت سرخ آندھی، زمین میں دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے اور آسمان سے پتھر برسنے جیسے عذابوں کا انتظار کیا جائے۔“
اسی لیے ہمیں چاہیے کہ اس پُرفتن دور کے آلات سے حتی الامکان بچ کر چلتے ہوئے اپنی عاقبت کی فکر کریں۔ اپنے کل کے لیے اپنے آج کو بہتر بنائیں۔ کیونکہ حدیث ِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ وہ شخص مومن نہیں جس کا آنے والا کل اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہو۔ اپنی عاقبت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کو بھی آگ سے بچانے کا اہتمام کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے تمام میل جول رکھنے والوں سے باہم محبت و اخوت رکھتے ہوئے دین کو آگے پھیلانا ہے، ورنہ ہمارے لیے کفار کے تمام نیزے اور مورچے تیار ہیں۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے“۔
سمیہ ایک عزمِ مصمم لیے دادی کے کمرے سے نکل رہی تھی، کیونکہ اسے ظلمت ِ شب میں اس خورشید کی کرنوں کا اہتمام کرنا تھا جس کی ضیاء سے تمام جگ روشن ہوجائے۔ کیونکہ اس نے اپنی امی سے یہ شعر سنا تھا:۔
شکوئہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے