کیا منظر ہوگا جب ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ لاہور میں سید ابو الاعلی مودودی کی دعوت پر ایک مقام پر اکھٹے ہو رہےہوں گے ؟
عام طور پر لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں کے ہاں شادی بیاہ کی تقاریب میں جانے کے لیے اتنی دور کا سفر کرتے ہیں یا پھر کوئی سرکاری اہلکار اپنے فرائض منصبی نبھانے کے لیے یا پھر تاجر اپنی تجارتی سرگرمیوں کے لیے بھاگ دوڑ کرتے دور دراز کے سفر پر نکلتے ہیں۔
یہ عجیب سفر تھا جو نہ شادی بیاہ میں شرکت نہ سرکاری فرائض کی انجام دہی اور نہ ہی کسی بھی قسم کی تجارت نہ ذاتی منفعت کے لیے۔سوچتا ہوں کہ کیسی راہ کے کیا مسا فر ہوں گے ؟ جنہوں نے 26 ؍ اگست 1941 ء سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں تھا۔
ایک ایسے آدمی کی دعوت پر ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے موجودہ پاکستان کے شہر لاہور چلے آئے ، جس سے ان کی سوائے تحریر کے جان پہچان ہی نہ تھی۔ مگر اس بلانے والے پکارنے والے کی آواز میں اتنی جان تھی کہ سینکڑوں تو نہیں پھر بھی 75 قیمتی ترین آدمی جنہیں اللہ رب العزت نے ایک خاص مقصد کے لیے ایک دوسرے کے قریب کردیا تھا لاہور میں جمع ہوچکے تھے۔ معلوم نہیں کس نے کتنی مسافت طے کی ہوگی ؟ کوئی بمبئی سے کوئی مشرقی پنجاب جالندھر سے تو کوئی حیدرآباد دکن سے کوئی بنگلور تو کوئی خاص دلی سے الغرض رسالہ ترجمان القرآن سے تعلقات کی استواری کاجو سفر شروع ہوا تو پھر جماعت اسلامی کے قیام اور پھر اپنی جان کی امانت خالق حقیقی کے سپرد کرنے تک یہ سفر جاری ہی رہا۔
اس اجلاس میں جماعت اسلامی کے قیام کا اعلان ہوا گرچہ یہ اس جماعت کا خاکہ سب کے ذہنوں میں پہلے ہی مولانا مودودی کی تحاریر اور دلائل کی بنیاد پر موجود تھا کہ ’’ تم میں سے ایک جماعت تو ایسی ہونی ہی چاہیے جو نیکی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے ‘‘( القرآن )۔
ظاہر ہے کہ جو ابتدائی تاسیسی اراکین وہاں جمع تھے چونکہ وہ سب تحریر و بیان کی نسبت سے مولانا کے گرد مجتمع ہوئے تھے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ عام افراد نہیں بلکہ جید عالم ,اعلی تعلیم یافتہ تھے ، مگر ان میں کچھ ایسے بھی تھے جن کے پاس روایتی ڈگریاں تو نہیں تھیں مگر قلب سلیم کی دولت سے ما لا مال تھے۔ یہ وہ تاریخی دن تھا جب اس پورے خطے میں جسے برصغیر کہا جاتا ہے کوئی ایسی جماعت موجود نہیں تھی جس کا نصب العین ‘ اللہ تعالی کی حاکمیت کو دنیا پر غالب کروانا ہو۔ الحمد اللہ یہ عظیم کام اللہ رب العزت نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒکے ہاتھوں پورا کروایا۔
گرچہ ترجمان القرآن میں کئی شماروں سے اس جماعت کے قیام کی ضرورت ظاہر کی جاتی رہی اورعام مسلما نوں کو اس کی دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریے کو قبول کرکے اس طرز پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں و ہ دفتر کو مطلع کریں، پرچہ چھپنے کے کچھ ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو جماعت اسلامی کی تشکیل اور قیام و بقا کے لیے جدوجہد پر آمادہ ہیں، چناچہ مشاورت کے بعد25 اگست 1941 اجتماع کی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ اس تاریخ کو صبح آٹھ بجے دفتر میں پہلا اجتماع ہوا اللہ کے نظام کو غالب کرنے والوں کی جماعت کا نام ’’جماعت اسلا می‘‘ ‘ تجویز ہوا اور مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کو اس جماعت کا امیر منتخب کرلیا گیا۔
بنیادی نکتہ جو سمجھنے کا ہے وہ یہ کہ جماعت اسلامی کا قیام کوئی حادثاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ شعوری بنیادوں پر ہو ا تھا یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے چند نفوس پر مشتمل جماعت برصغیر ہی نہیں بلکہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔
اس موقع پر مجروح سلطان پوری کا شعر خاصی حد تک صادق آتا ہے کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ جو مولانا کے اکیلے چلنے کا سفر تھا اس سے مراد ان کے وہ مضامین ہیں جو اس وقت کے دینی رسالے ‘الجمیتہ میں تواتر کے ساتھ فرنگی سازشوں کی قلعی اتا ر رہے تھے ، اس سے قبل ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس نے ہندو مسلمانوں کے مابین شدید ترین کشیدگی پھیلا رکھی تھی۔ یہ اہم واقعہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ تھا۔ اس سانحے نے پورے ہندوستان کی سیاسی فضا کو بھی متاثر کیا اور برصغیر میں آزادی کے جذبے کو بھی پروان چڑھایا۔
اسی دوران ہندؤں کی شدت پسندی نے معاملات اور انگریزوں سے آزادی کی مشترکہ جدوجہد کو بڑا نقصان پہنچایا، ہندؤں کی جانب سے شدھی کی تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم عروج پر تھی۔ اس تحریک کا بانی’’ شردھانند‘‘ تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کی کمزوری اور فہم کا عالم یہ تھا کہ بعض مسلمان شرھا نند کو پکڑ کر دہلی کی جامع مسجد لے گئے۔ مسلمان مشتعل تھے شردھانند کو قتل کردیا گیا،اس واقعے کے ساتھ ہی ہندوستان میں شدید نفرت کی لہر پروں چڑھی اور ہندوں کے راہنما گاندھی جی کے اس پروپیگنڈے نے جلتی پر تیل کا کم دیا کہ ’’اسلام تو درحقیقت تلوار کے زور سے پھیلا ہے‘‘۔ اس پروپیگنڈے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو شدت پسند اور ظالم قرار دلوایا جائے۔
اس مذموم سازش کو سمجھتے ہوئے مولانا محمد علی جوہر نے جا مع مسجد دہلی میں اپنے خطبے کے دوران مسلمانوں کو صبر اور برداشت سے کام لینے کی تلقین کی اور ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسلام کے تصورِ جہاد کو دلائل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرے! اس کے بعد مولانا نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ پر کام شروع کرکے اسے مکمل کیا۔
یہی وہ تصنیف تھی جب اس کے بارے میں جس پر علامہ اقبال نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’اسلام کے نظریہ جہاد اوراس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے‘‘۔
مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ” 1926 میں جب میں نے اپنی کتا ب’الجہاد فی الاسلام‘ لکھی ، میرے دماغ میں یہ تصور پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کا اصل نصب العین اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے – آپ لکھتے ہیں کہ میرا نصب العین ایک قومی حکومت کا قیام نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جو دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرے ، جس کی تہذیب و ثقافت ، جس کا معاشرتی نظام ، جس کا معاشی نظام ، جس کا اخلاقی ماحول ، جس کی عدالت ، جس کی پولیس ، جس کے قوانین ، جس کی فوج جس کی سفارت غرض جس کی ہر چیز دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کرنے والی ہو ، جس کو دیکھ کر دنیا یہ جانے کہ اسلا م اور کفر میں کیا فرق ہے ؟ اور اسلا م ہر حیثیت میں کتنا بلند ہے۔اسی چیز کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا۔اور اسلا م کی اصطلا ح میں اس کا نام اقامت دین ہے۔‘‘
جدوجہد کے ابتدائی مرحلے کی بابت کیا کہہ رہے ہیں آپ کہتے ہیں کہ جب میں نے حیدر آباد (دکن – ہندوستان )سے 1932 میں رسالہ ترجمان القران کی ابتدا کی اس وقت کا م کی جو ترتیب میرے ذہن میں تھی وہ یہ تھی کہ سب سے پہلے مغربی تہذیب و افکار کے اس غلبے کو توڑا جائے جو مسلمانوں کے ذہین طبقے پر مسلط ہورہا ہے – یہ بات ان کے ذہن نشین کی جائے کہ اسلام اپنا ایک نظام زندگی رکھتا ہے ، اپنا ایک نظام فکر اور نظام تعلیم رکھتا ہے اپنا ایک نظام تہذیب رکھتا ہے ، اپنا ایک سیاسی نظام رکھتا ہے جو ہر لحاظ سے مغربی تہذیب اور اس کے متعلقات سے فائق ہے۔یہ خیال ان کے دماغ سے نکالا جائے کہ تہذیب و تمدن کے معاملے میں انہیں کسی سے بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت ہے – ان کو بتایا جائے کہ اپنا ایک پورا نظام زندگی موجود ہے جو دنیا کے تمام نظا موں سے بہتر ہے – بھرپور تنقید کر کے ان پر واضح کیا جائے کہ مغرب کے جس نظام سے وہ مرعوب ہیں وہ اپنے ہر پہلو میں کیا کیا کمزوریاں رکھتا ہے۔
جماعت اسلامی کے قیام کے حوالے سے بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ ” جو چیز جماعت کی تشکیل کے وقت میرے پیش نظر تھی وہ یہ تھی کہ جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف عقیدے میں مخلص ہوں بلکہ اپنی انفرادی سیرت و کردار میں بھی قابل اعتماد ہوں – میرے بائیس سال کے مشاہدات یہ بتا رہے تھے کہ مسلمانوں کی جماعتوں اور تحریکوں کو آخر کار جس چیز نے خراب کیا وہ اچھے لوگوں کے ساتھ بہت سے نا قا بل اعتماد لوگوں کا شریک ہوجانا تھا۔… تحریک خلافت میں بڑے بڑے نیک اور فاضل اور بہترین اخلاق کے لوگ شامل تھے لیکن ایک کثیر تعداد ایسے کارکنوں کی بھی آکر شامل ہوگئی تھی جو سیرت و کردار کے لحاظ سے نا قص تھے … لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز صدابصحرا ثابت ہورہی ہے تو پھر دوسرا قدم جو میری سمجھ میں آیا ‘ یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کرنی چاہیے جو صاحب کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے جو آگے نظر آرہے تھے – جس وقت تحریک پاکستان اٹھی اور 1940 میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی …اس وقت کوئی شخص بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ملک یقینا تقسیم ہوجائے گا – اور پاکستان بن جائے گا – حتی کہ 1947 کے آغاز تک بھی یہ بات یقینی نہیں تھی کہ واقعی پاکستان بن جائے گا – اس وقت جو اہم ترین سوالات میرے سامنے تھے وہ یہ تھے کہ حالت جس رخ پر جارہے ہیں ان کی ایک شکل تو یہ پیش آسکتی ہے کہ پاکستان کے لیے کوشش کرکے مسلم لیگ ناکام ہوسکتی ہے اور ہندوستان میں انگریز واحد ہندوستانی قومیت کی بنا پر ایک جمہوری حکومت قائم کرکے چلا جائے – اس صورت میں کیا کرنا ہوگا ؟
دوسری شکل یہ پیش آسکتی ہے کہ مسلم لیگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے اور ملک تقسیم ہوجائے ، اس صورت میں جو کروڑوں لوگ ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کا کیا کیا جائے،ان کا کیا حشر ہوگا ؟ اور خود پاکستان میں اسلام کا کیا حشر ہوگا ؟ – جس قسم کے عناصرپاکستان کی تحریک میں شامل ہورہے تھے ان کو دیکھتے ہوئے میں یقینی طور پر سمجھ رہا تھا یہ عناصر ایک ملک تو بنا سکتے ہیں لیکن ان عناصر سے یہ امید نہیں لگا ئی جا سکتی کہ یہ ایک اسلامی حکومت بنا لیں گے۔
مولانا مزید لکھتے ہیں کہ میرے سامنے تین مسئلے تھے –
1۔اگر ملک تقسیم نہ ہوا تو جو مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کے لیے کیا کیا جائے ؟
2۔اور آزادی کی صورت میں جو ملک مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کیسے بچایا جائے ؟
3۔اور آزاد ملک کی حکومت کو اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے ؟
آپ نے لکھا کہ ’’کئی سال سے میں جن خیالات کی اشاعت کر رہا تھا ، اگرچہ ان کی بنا پر مختلف حلقوں کی طرف سے مجھے گالیاں بھی دی جارہی تھیں ، لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو ان خیالات سے متفق تھے اور سمجھتے تھے کہ حق بات یہی ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔انھی لوگوں کے اتفاق و اشتراک سے یہ جماعت قائم کی گئی – ‘‘۔
مولانا مودودی کا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو معذرت خوا ہا نہ انداز میں پیش نہیں کیا جیسے کہ مولانا سے پہلے کے کچھ مفکرین نے کرنے کی کوشش کی تھی۔بلکہ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اسلامی نظریہ حیات کی طرف دعوت دی اور انتہائی قلیل عرصے میں ان تمام شکوک و شبہات کے نقوش مٹا دئیے جو جدید پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام اور اسلامی نظام کے بارے میں موجود تھے – مولانا مودودی کے افکار نے امت مسلمہ کو اس کے مقام و منصب سے روشناس کرایا۔ –
اس میں کوئی دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ ’’جدید دور میں جن مسلم مفکرین و مصلحین نے فکر و نظر کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے ان میں مولانا مودودیؒ کا نام سرفہرست ہے – آپ نے فکری رہنمائی ہی نہیں دی بلکہ عملی میدان میں بھی حیات آفرین کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں – آپ کی فکر نے حیات ملی کے جن گوشوں کو متاثر و منور کیا ہے ان میں سے ایک اہم شعبہ ’سیاست ‘ بھی ہے – مولانا مودودیؒ نے برصغیر کی آزادی کے مختلف مراحل سے لیکر اپنی جان جا ن آفرین کے سپرد کرنے تک ( 1979 ) ایک اسلامی سیاسی مفکر، ایک اصول پسند سیاستدان ، اور امت مسلمہ کے ایک حقیقی مصلح کے طور پر اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کیا ہے ، وہ اس لحاظ سے پہلے مفکر اسلام ہیں جنہوں نے اسلامی نظا م زندگی کو مربوط و منظم انداز میں پیش کیا – اسلامی ریاست کے ایک مکمل نقشے ( روڈ میپ ) کو امت کے سامنے رکھا – اور پھر اس نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے’جماعت اسلامی ‘ کی صورت میں ایک عظیم الشان اسلامی تحریک بھی شروع کی۔‘‘
چلتے چلتے یہ منظر بھی ذہن نشین کرلیںجب ایک نوجوان مولانا مودودی کو گستاخ سمجھ کر قتل کے ارادے سےمولانا کے گھر اچھرہ میں عصری مجلس میں خامشی کے ساتھ آیا1970ء کے وسط میں زاہد اقبال نامی نوجوان نے ضلع خوشاب میں جمعیت علماے اسلام (ہزاروی گروپ) کے مولانا ضیاء القاسمی کی تقریر سنی جس میں انھوں نے مولانا مودودی کو گستاخ رسول قرار دیا۔ یہ نوجوان قیمہ بنانے والا چھرا لے کر 6 ستمبر کو 5 اے ذیلدار پارک پہنچا۔ اپنی کپڑوں کی گٹھڑی برآمدے میں اترنے والی سیڑھیوں کی دائیں طرف والے بڑے گملوں کے درمیان چھپادی اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس روز اتفاق سے مولانا باہر نہیں نکلے۔
کافی انتظار کے بعد عصر کے وقت مولانا باہر نکلے اور سبزہ زار میں نماز کی امامت کرائی یہ نوجوان بھی جماعت میں شریک ہوا۔ مولانا کی عصر کی مجلس شروع ہوئی۔ اس نے کسی سے پوچھا کہ مولانا کون ہیں؟ اس نے میر محفل کی طرف اشارہ کیا۔ اب یہ نوجوان گملوں کے درمیان رکھی اپنی گٹھڑی کے پاس پہنچا، چھرانکال کر اپنی شلوار میں اڑس لیا اور کسی نے اسے نہ دیکھا۔ نوجوان آکر مولانا کی کرسی کے پیچھے کھڑا ہوگیا، اس نے مولانا کے چہرے کو دیکھا تو خیال آیا کہ یہ آدمی تو گستاخ رسول نہیں ہوسکتا۔ اسی کشمکش میں یہ حملہ کرنے پر سوچتا رہا اور مولانا کی مجلس بھی برابر جاری رہی اور لوگ سوالات پوچھتے رہے۔ کسی نے مولانا سے پوچھا:۔
’’مولانا! یہ جمعیت علما اسلام (ہزاروی گروپ) والے اپنے جلسوں میں آپ کو صبح شام گالیاں دیتے ہیں، آپ انھیں جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘۔
نوجوان سوال کا جواب سننے کےلیے چوکنا ہوگیا، کیوں کہ وہ بھی اسی کی تحریک سے یہاں پہنچا تھا۔ مولانا نے جواب دیا:۔
’’ بھئی! ہمارا کام یہ نہیں کہ گالیوں کے جواب میں گالیاں دیں۔ اس صورت میں ہم میں اور ان میں کیا فرق باقی رہ جائے گا۔ یہ فقرہ اس نوجوان کےلیے ضرب کلیم ثابت ہوا۔‘‘
یہ نوجوان کہتا ہے:’’جب میں نے مولانا کی چند باتیں سنیں اور ان کے چہرے پر نورانیت دیکھی تو میں ان سے بے حد متاثر ہوا اور خود بہ خود میرے دل میں کلمے کی آواز نکلنے لگی۔ میرا دل گواہی دینے لگا کہ یہ شخص حضور اکرمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔‘‘
مولانا لوگوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے اور کہ یہ نوجوان مولانا کی کرسی کے پیچھے سے ہٹ کر ان آپ کے سامنے آکھڑا ہوا اور کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا: ’’مولانا ! میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
مولانا نے سمجھا کہ شاید نوجوان سوال پوچھنا چاہتا ہے اور رعب مجلس مانع ہے، اسے تھوڑی سی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ چناں چہ مولانا نے فرمایا: ڈرنے کی کوئی بات نہیں، آپ کہیے۔ تو نوجوان نے کہا: ’’میں معافی چاہتا ہوں‘‘۔
مولانا نے فرمایا:’’آپ نے کوئی قصور نہیں کیا تو پھر معافی کا کیا سوال؟ آپ اطمینان سے بتائیں کہ کیا بات ہے۔
ساری محفل کی توجہ اس انوکھی صورت حال کی طرف تھی۔ نوجوان کی ڈھارس بندی، اس نے شلوار کے نیفے سے چھرے کو نکالا جو لمبائی کے رخ نیفے میں اس طرح اڑسا ہوا تھا کہ چھاتی تک جاتا تھا۔ نوجوان نے چھرا میز پر رکھا اور خود زمین پر بیٹھ کر کہا:۔
’’مولانا، میں تو آپ کو قتل کرنے آیا تھا۔‘‘
یہ بات سن کر مولانا گھبرا اور سٹپٹا نہیں گئے، ٹھٹک اور سمٹ نہیں گئے۔ انھوں نے بہت اطمینان کے ساتھ فرمایا:۔
۔’’ تو پھر قتل کردو‘‘۔
جب اس نوجوان نے سارا واقعہ سنایا کہ مجھے کہاں سے تحریک ملی اور یہاں پہنچا تو لوگ مختلف سوالات کرنے لگے۔ چوں کہ یہ دوپہر سے یہاں موجود تھا تو مولانا نے پوچھا:۔
آپ نے دوپہر کا کھانا بھی کھایا ہے یا اسی بھاگ دوڑ میں رہے ہیں۔
نوجوان نے جواب دیا کہ وہ دو پہر سے بھوکا ہے، مولانا نے اسے کھانا کھلایا۔ جب اہل لاہور کو اس واقعے کو پتا چلا تو ’’چٹان‘‘ کے مدیر شورش کاشمیری اور ’’ندائے ملت‘‘ کے مدیر مجید نظامی اچھرہ پہنچے پھر پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔ ٹیلی ویژن والے کیمرے اور لائٹیں لے کر آگئے۔ ’’وفاق ‘‘ کے مدیر مصطفیٰ صادق جب پہنچے تو لگتا ہی نہیں تھا کہ یہاں ارادۂ قتل کا واقعہ پیش آیا ہے۔ جس منظر نے مصطفیٰ صادق کو آب دیدہ کردیا، وہ یہ تھا کہ وہ مولانا کے کمرے میں داخل ہوئے تو اس واقعے سے قطعی کوئی اثر لیے بغیر ’’تفہیم القرآن‘‘ لکھنے میں منہمک تھے۔
(ہفت روز آئین 11 ستمبر 1970)
یہ ہے میری جماعت اسلامی یہ کردار تھا میرے سیدی کا !۔
کیوں نہ پھر دل سے نکلے۔۔ میری جان جماعت اسلامی
حوالہ جات :۔
برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں
( مقالہ – برائے – پی ایچ۔ڈی ‘ سید مودودی اور ان کے سیاسی افکار۔عصری افکار کے تناظر میں ‘ مقالہ نگار – فرید احمد پراچہ )