موت بھی تو زندگی کی گواہی ہوتی ہے۔
سینکڑوں لوگ سوشل میڈیا پر گواہی دے رہے ہیں کہ اطہر ہاشمی ان کے لیے استاد کا درجہ رکھتے تھے۔
کسی مقصد کو عزیز رکھنا ایک بات ہے اور اس کے لیے زندگی کھپانا دوسری بات۔۔
انھوں نے ایک نظریاتی اخبار سے وابستہ ہوکر جس طرح معیار کا نمونہ پیش کیا، جس طرح معیار قائم رکھا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
ہزاروں کے استاد تھے۔
اردو سے پیار کرنے والا، اردو کو اوڑھنا بچھونا بنانے والا ایک فرد ہم میں نہیں رہا۔ ایک عظیم نقصان ہے۔
وہ اردو کے بارے میں اتنے حساس کیوں تھے؟
اس لیے کہ سچے ہاکستانی تھے۔۔۔
فرائیڈے اسپیشل میں ان کا کالم ”خبر لیجے زباں بگڑی“ کے نام سے چھپتا تھا۔
ان کے کالم میں جن اخباری مضامین، ادبی رسائل پر تبصرے ہوتے اور زبان و بیان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی وہ نشاندہی کرتے تھے اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کتنی باریک بینی سے پڑھتے ہیں۔۔۔
اور کتنا کچھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔
ہماری طرح بس کے مسافر کی مانند نہیں کہ نظروں کے سامنے سے بہت سے منظر یونہی گزرتے چلے جاتے ہیں۔
وہ ایک جراح کی طرح سرجری کٹ میں تمام تر حساسیت کے ساتھ اردو زبان کو لگنے والے زخموں کی جراحی کرتے تھے۔
بڑے ادیبوں اور شاعروں کی بھی اصلاح کرتے اور لغت سے، گرامر سے الفاظ کی ساخت، ان کے وزن، ان کے برمحل اور بے محل استعمال پر توجہ دلاتے۔ عربی اور فارسی لغت سے بھی واقف کراتے جاتے تھے۔
نہ صرف پرانے شعراء کا کلام انھیں ازبر تھا بلکہ وہ اس کو محض اپنی تحریر میں حسن بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے، بلکہ اردو زبان و ادب کا مان رکھتے تھے، ان حوالوں کو دلیل بناتے تھے۔
ایسا نہیں کہ وہ صرف ادبی رسائل پر نگاہ رکھتے ہوں، وہ کئی اخبارات کی غلطیاں پیش کرتے، یہاں تک کہ ٹی وی کے خبرناموں اور پروگراموں کے میزبانوں کے تلفظ کی بھی غلطیوں کی اصلاح کرتے کہ یہ غلط تلفظ ہے، اس کو عام نہیں ہونا چاہیے۔
تلفظ کی غلطیوں پر وہ بہت آزردہ ہوتے تھے کہ الیکٹرانک میڈیا نے اچھا سلوک نہیں کیا اپنی مادری زبان کے ساتھ۔
کئی برس میں نے جسارت کے ادارتی صفحے پر ”نویدِ فکر“ کے نام سے کالم لکھے۔
میں کالم بھیج دیتی، جب چھپ جاتا تو اپنی خوش بختی پر رشک کرتی کہ وہ باریک باریک غلطیوں کی بھی اصلاح کرتے۔
کہتے: کالم چھپنے کے بعد توجہ سے پڑھ لیا کیجیے۔
وہ چھپنے والا ہر لفظ اسی توجہ سے پڑھتے ہوں گے۔
کبھی فون کرکے کہتے کہ کل کا کالم بہت عمدہ تھا۔
اتنے بڑے استاد کا یہ تبصرہ کسی صدارتی تمغے سے کم نہ ہوتا۔
ان کی شاگردی زندگی کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
ساتھی میگزین کی سالانہ تقریب آرٹس کونسل میں تھی، وہ اسٹیج پر براجمان تھے۔
مجھے اظہارِ خیال کا موقع ملا۔
میں نے انھیں ”استاذ الاساتذہ“ کہہ کر مخاطب کیا۔
جب ان کی باری آئی تو بولے: افشاں نوید اپنے کہے کی خود ذمہ دار ہیں۔ میں اس تہمت سے بری الذمہ ہوں۔
وہ بلا کی حسِ مزاح رکھتے تھے۔
دنیا کو زندوں کی طرح دیکھتے اور دوسروں کو دیکھنے کا سلیقہ سکھاتے تھے۔
وہ اردو مزاح لکھنے والوں میں چوٹی کے ادیبوں میں تھے۔
ادارتی صفحے پر ”بین السطور“ ان کے کالم کا عنوان ہوتا۔
بظاہر وہ سیاسی کالم ہی ہوتا مگر اعلیٰ درجے کا ادبی شہ پارہ۔
استعارے کی زبان کے وہ بادشاہ تھے۔
بین السطور کے تمام کالم ایک جگہ جمع ہو کر چھپنے چاہئیں۔
سنڈے میگزین میں علی خان کے نام سے طویل عرصہ لکھا۔ سب سے جان دار ان کا کالم ہوتا تھا۔
ایم کیو ایم کے زمانے میں انھوں نے الطاف حسین اور ان کی پارٹی کو جس لطافت کے ساتھ بیان کیا متواتر مضامین میں، وہ خاصے کی چیز ہے۔
ان تحریروں کو کتابی شکل میں محفوظ نہ کرنا صحافیانہ کے ساتھ ادبی خیانت بھی ہوگی۔
جسارت جیسے نظریاتی اخبار کا اداریہ جس طرح انھوں نے نبھایا وہ ان کا نام تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
ایک مرتبہ میں نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جسارت کے اداریوں کا جو اعلیٰ ادبی معیار ہے ان کو گزرے دن کے اخبار کے ساتھ ردی کی ٹوکری میں نہیں جانا چاہیے۔
اس پر وہ بولے: میں نے اور ٹیم نے تو اپنے حصے کا کام کردیا۔
اخبار تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جسارت جیسے اعلیٰ اداریے پاکستان کے کسی اخبار کے نہیں ہوتے۔
شدید ترین تنقید میں بھی تہذیب وشائستگی پر حرف نہیں آتا۔ بروقت اور برمحل رہنمائی کرتے اداریے۔
میں نے کہا: آپ کے مزاحیہ کالمز اور اردو کے حوالے سے آپ کی گراں قدر کاوشوں پر کتاب آنا چاہیے۔
بولے: بی بی کتاب چھپوانے جیسا مشکل کام میرے بس کا نہیں۔
کون خریدے گا، پڑھے گا کون؟ کیوں ردی کے ڈھیر میں اضافہ کروں؟
میں نے ایک بار پوچھا کہ سنڈے میگزین میں کیوں لکھنا چھوڑ دیا؟ ہم اچھے مزاح سے محروم ہوگئے۔
بولے: مجھ سے تو کسی نے اس محرومی کا ذکر نہیں کیا۔
انھیں مختصر کلامی میں کمال حاصل تھا۔ اسی طرح حاضر جوابی میں۔
میری خوش بختی کہ میری دونوں کتابوں کے پیش لفظ انھوں نے لکھے۔
ماقبل انھوں نے مسودہ طلب کیا۔ میں نے کہا: آپ اخبار و رسائل میں جو پڑھتے ہیں اسی کا انتخاب ہے۔
بولے: کن مضامین کا؟
سامنے ہو تو تبصرہ کروں۔
واقعی جب ان کی تحریر سامنے آئی تو مجھے لگا کہ ہر مضمون کو پڑھ کر پیش لفظ لکھا ہے انھوں نے۔
وہ ایک مکتب تھے۔
استاد۔۔۔ شاگردوں پر بہت سے قرض چھوڑ جاتے ہیں۔
تحریک اور ادارۀ جسارت ان کی یاد میں تعزیتی نشست رکھ کر، مضامین چھاپ کر اس قرض سے جان نہ چھڑائے۔
ان کے کام کو کتابی شکل میں لا کر اگلی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جائے۔
اب اس بگڑی زبان کو سدھارنے کے لیے ان کے تلامذہ کو سامنے آنا چاہیے۔
ان کے چھوڑے ہوئے اثاثے کے ہم امین ہیں۔
جسارت ایک اخبار نہیں ایک تحریک ہے۔
اس ادارے سے وابستہ لوگ مجاہدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔
جہاں صحافی راتوں رات پلاٹوں اور بنگلوں کے مالک بن جاتے ہوں وہاں ہمیں جسارت جیسے ادارے سے وابستہ افراد کی قدر کرنا چاہیے۔
جو صحافت کو اس چکا چوند میں بھی ایک مشن کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔
اللہ ہمیں قدردان دل دے۔ ان کے خلا کو غیب سے پُر کردے۔۔
ان کی جدوجہد کو قبول فرما کر
ان کی لحد کو ماں کی گود جیسا پُرسکون بنائے۔
ان کی آگے کی منزلیں آسان فرمائے۔ آمین یارب العالمین