یوم پاکستان منانا ہمارا قومی فریضہ ہے‘ پروفیسر شاداب احسانی

610

۔13 اگست کو وومن کنونشن سینٹر فیڈرل بی ایریا گلشن شمیم میں مہاجر رابطہ کونسل (پاکستان) اور بزم بانیانِ پاکستان کے زیر اہتمام یوم آزادیٔ پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی اور اے کیو بندھانی مہمانِ اعزازی تھے، جب کہ سلطان صدیقی اور حامد علی سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ یہ مشاعرہ ساڑھے سات بجے شروع ہوا جس میں سید اعظم علی نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی اور نظر فاطمی نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ اس موقع پر تقریب کے میزبان سلیم عکاس نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں کہا گیا کہ ہم بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں، ہمیں پاکستان سے محبت ہے، ہمارا مرنا جینا پاکستان کے لیے ہے، ہمارا قلم پاکستان کے لیے رواں دواں ہے لیکن ہمارے حقوق ہمیں نہیں مل رہے، اس سلسلے میں ہماری کوششیں جاری ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ بانیانِ پاکستان کی اولادوں کے لیے بھی خوش حالی کے دن آئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرہ ہماری ادبی تہذیب کا نمائندہ ہے، یہ ادارہ تفریح طبع اور ہماری معلومات میں اضافے کا ضامن ہے، ہم نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کی تقریب کا اہتمام کیا ہے کہ آپ یوم پاکستان کی اہمیت و احوال کے ساتھ ساتھ مشاعرے سے لطف اندوز ہوں۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ ہم آج یومِ آزادیِ پاکستان کے حوالے سے ایک جگہ جمع ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مشاعرہ بھی ہورہا ہے۔ علم و عمل کی باتیں ہمارے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی بیانیہ ہمارے لیے زندگی و موت کا سوال ہے، جن قوموں نے اپنا بیانیہ متعین کرلیا ہے وہ ترقی کررہی ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم انگریزوں کے سائے تلے دبے ہوئے ہیں، ہم اپنی زبان و ادب سے جڑے ہوئے نہیں ہیں، اس طرف بھی توجہ دیجیے اور پاکستانی بیانیہ اپنایئے۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ تہذیب ہماری طاقت ہے جس کے ذریعے ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے آبا و اجداد نے پاکستان کے لیے بے شمار قربانیاں دیں جس کا احوال تاریخ میں رقم ہے۔ پاکستان کو خوش حال رکھنا ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ ہم پوری ذمے داری کے ساتھ اپنے ملک کے ساتھ ہیں۔ آج کی تقریب بھی ہمارے عزم کی گواہی دے رہی ہے۔ آج کی محفل میں شعرا نے اپنی غزلوں کے علاوہ پاکستان کے لیے بھی اشعار سنائے، یہ بات پاکستان سے محبت کا اظہار ہے۔ ہم نے 1940ء میں پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا اور سات سال میں پاکستان عالمِ وجود میں آگیا، لیکن ہم آج تک پاکستان بنانے کا مقصد نہیں پاسکے، آج بھی ہم ننگے پائوں چل رہے ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ ہم اپنا مقصد حاصل کرلیں گے۔ مہمانِ اعزازی اے کیو بندھانی نے کہا کہ ہم تمام لوگوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر مشاعرے کو کامیاب بنایا۔ میں شعرائے کرام کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آج بہت عمدہ کلام پیش کیا۔ اس موقع پر قمر منصور کی جانب سے یہ اعلان بھی ہوا کہ وہ تواتر کے ساتھ شعری نشستوں کا انعقاد کریں گے، جب کہ خالد مقبول صدیقی چاہتے ہیں کہ طرحی مشاعرے بھی کیے جائیں، ہم ان شاء اللہ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ آج کا اجلاس اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہاں زندگی کے تمام شعبوں کی نمائندگی موجود ہے۔ مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی، اختر سعیدی، عظیم احمد راہی، خالد معین، اجمل سراج، سلمان صدیقی، نثار احمد، صفدر علی انشاء، وجیہ ثانی، نظر فاطمی، ضیا شاہد، تبسم صدیقی، صاحبزادہ عتیق الرحمن، حامد علی سید، م۔م۔ مغل، ناہید عزمی، سلیم عکاس اور فرحان حیدر پیکر نے اپنا کلام پیش کیا۔

گلنار آفرین ایک قابل ِ قدرشخصیت ہیں‘ رضوان صدیقی

’’ہمارے عہد کی معتبر افسانہ نگار اور معروف شاعرہ گلنار آفرین کی ادبی تخلیقات بہت اہم ہیں۔ ہمارے لیے وہ قابلِ قدر شخصیت ہیں۔ وہ اردو کی غالباً واحد خاتون ہیں جنہوں نے اصل نام کے بجائے ادبی نام اختیار کیا، جب کہ مردوں میں تو کثیر تعداد ایسے شاعروں کی ہے جن کا ادبی نام اصل نام سے مختلف ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار رضوان صدیقی نے شاہدہ عروج کی منعقدہ تقریب میں کیا جس کے صدر رفیع الدین راز تھے، جب کہ یہ تقریب گلنار آفرین کے اعزاز میں سجائی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلنار آفرین کی دو افسانوی کتابیں اور پانچ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، یہ ان خوش نصیب شاعرات میں شامل ہیں جنہوں نے بیس بیس ہزار سامعین کی موجودگی میں اپنا کلام پیش کیا اور خوب داد وصول کی۔ انہوں نے پاکستان اور بیرونِ پاکستان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ تحت اللفظ میں ان کے پڑھنے کا انداز ہمارے دل میں اتر جاتا ہے، ان کی شاعری میں نظمیں بھی شامل ہیں، ایک نظم قائداعظم پر بھی ہے جس کو سن کر سامعین آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے یہاں ہجرت کے علاوہ زندگی کے تمام مسائل موجود ہیں۔ رضوان صدیقی نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں مزید کہا کہ آج کی محفل کے صدر رفیع الدین راز اردو ادب کے گراں قدر شاعر و ادیب ہیں۔ آج کل یہ امریکا میں مقیم ہیں، یہ جب بھی کراچی آتے ہیں ان کے اعزاز میں مشاعرے ہوتے ہیں، یہ اردو ادب کی ترویج و ترقی کے لیے وقف ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔ رضوان صدیقی نے مہمانِ خصوصی رونق حیات کے بارے میں کہا کہ وہ نیازمندانِ کراچی کے پلیٹ فارم سے قلم کاروں کے لیے کام کررہے ہیں، جب کہ آج کی تقریب کی میزبان شاہدہ عروج کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ منظرعام پر آگیا ہے، یہ ہر مہینے اپنے گھر پر مشاعرہ کراتی ہیں تاہم کورونا وائرس کے سبب یہ سلسلہ ڈسٹرب ہوا۔

مشاعروںسے شعور بیدار ہوتا ہے‘ سعیدالظفر صدیقی

کورونا وائرس کے باعث طویل وقفے کے بعد 14 اگست کو بزم تقدیسِ ادب پاکستان کراچی کی جانب سے چند افراد پر مشتمل ایک مشاعرہ بزم کے جنرل سیکرٹری احمد سعید خان کی قیام گاہ شادمان ٹائون میں منعقد ہوا جس کی صدارت سعیدالظفر صدیقی نے کی، جب کہ اختر سعیدی مہمانِ خصوصی تھے۔ نظامت کے فرائض احمد سعید خان نے ادا کیے، تلاوتِ کلام پاک سے آغاز کے بعد معروف آر جے حیدر رضا نے نعتِ رسولؐ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بعدازاں پروفیسر منظر ایوبی مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ ناظم مشاعرہ کے علاوہ شعرائے کرام میں امتیازالملک، آسی سلطان، ضیا حیدر زیدی، نسیم شیخ، کشور عدیل جعفری، عبدالوحید تاج، خالد میر، ڈاکٹر نثار احمد نثار، فیاض علی فیاض، سید آصف رضا رضوی اور مسند نشیانِ گرامی نے کلام سناکر خوب داد پائی۔ مشاعرے میں ادب دوست شخصیت نفیس صاحب بھی شریک تھے۔ مشاعرہ گو کہ چند افراد پر مشتمل تھا مگر یہ ہر لحاظ سے کامیاب اور بھرپور مشاعرہ تھا۔ بزمِ تقدیس ادب کی روایات کے برعکس شعرا کی مختصر تعداد کی وجہ بھی پابندیوں کی پاسداری رہی، کیوں کہ کورونا ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور سب کی صحت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دی گئی ہدایات کی پابندی ہم سب پر لازم ہے۔ امید ہے کہ تمام احباب ہمارے مؤقف سے اتفاق کریں گے۔

بزمِ نگارِ ادب متحرک ادبی تنظیم ہے‘ رونق حیات

گزشتہ ہفتے بزمِ نگارِ ادب پاکستان نے فیڈرل بی ایریا میں رونق حیات کی صدارت میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جس کے مہمانِ خصوصی فیاض علی فیاض اور مہمانانِ اعزازی میں جمیل ادیب سید اور احمد سعید خان شامل تھے۔ واحد حسین رازی نے نظامت کی۔ اس موقع پر صدر، مہمانِ خصوصی، مہمانانِ اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ طالب رشید، مرزا خضر حیات، سید شائق شہاب، یاسر سعید صدیقی، کاشف علی ہاشمی، سخاوت علی نادر، عبدالمجید محور نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس موقع پر تمام لوگوں کے لیے باربی کیو اور کولڈ ڈرنک کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نادر علی سخاوت نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہر زمانے میں قلم کاروں نے معاشرے کو متحرک کیا ہے، نیز شاعروں نے اپنے اشعار کے ذریعے زندگی کے مسائل اجاگر کیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ شعرا کے ذمے یہ کام بھی ہے کہ وہ ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور مظلوم کی حمایت کریں، جہاں پر بھی یہ عمل رک جاتا ہے وہاں معاشرہ روبہ زوال ہوجاتا ہے۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ بزم نگارِ ادب پاکستان ایک متحرک ادبی تنظیم ہے جس میں پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں، یہ ادارہ بڑے تواتر کے ساتھ ادبی پروگرام ترتیب دے رہا ہے، آج بھی بارش کے باوجود کافی سامعین موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ادب کی خدمت کے لیے حکومت نے جو ادارے بنائے تھے وہاں ستائشِ باہمی کی بنیاد پر کام ہورہا ہے۔ حق داروں کو حق نہیں مل رہا، ہم اس سلسلے میں تمام قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کررہے ہیں تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ ہمارے ہاتھ مضبوط کریں۔

حصہ