غزل

318

بہت ہی منفرد سا یہ کمالِ رشتۂِ جاں ہے
خمارِ زندگی ہے‘ اور وصالِ نشۂ جاں ہے
عجب ہے خیر و شر کا معرکہ اس دل کی دنیا میں
بظاہر مطمئن لیکن وبالِ تشنۂ جاں ہے
میں جب سے گردشِ دوراں کے ہوں کامل تصرف میں
ہر اک دھڑکن پہ پہرا ہے ہے مثالِ کوفۂ جاں ہے
ترے قبضے میں دل ہے دھڑکنیں ہیں اور کیا دوں میں
تو پھر آنکھوں میں اب کاہے سوالِ کاسۂ جاں ہے
عجب سی بُو الہوسی ہے مزاجِ قلبِ یاراں میں
سنبھل کر رکھ قدم اے دل جمالِ کوچۂ جاں ہے
گلِ امید سے خوشبو چُرا تو لائے ہو لیکن
ذرا یہ سوچنا کہ یہ رومالِ فتنۂ جاں ہے
نظرؔ فریاد پر مائل ہے ربِّ دو جہاں تجھ سے
رہے توقیر، جب تک یہ مآلِ گوشۂ جاں ہے

حصہ