۔”اچھا بھئی اب ہم تو چلے”۔

468

روزنامہ جسارت کے مدیرِ اعلیٰ اور آسمانِ صحافت کے نجمِ تابناک سید اطہر ہاشمی اُردو زبان کی آبیاری کرتے کرتے دائمی نیند سو گئے۔ہاشمی صاحب کی جائے پیدائش بہاولپور تھی جبکہ آباء و اجداد کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ضلع سہارن پور کے علاقے انبھٹہ سے تھا جوتقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ہاشمی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنی جنم بھومی اور اعلیٰ تعلیم لاہور،اسلام آباد کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ والہانہ عشق کے باعث اُردو زبان پر کامل عبور حاصل تھا ۔فارسی،عربی،ہندی،سنسکرت،پنجابی اور سرائیکی زبان سے بھی آشنا تھے۔ان تمام زبانوں کے بے شمار اشعار،مقولے،محاورے،ضرب الامثال،کہاوتیں،حکایتیں انھیں زبانی ازبر تھیں جنھیں وہ کبھی لکھ کر اور کبھی موقع محل کے حساب سے تکلم کی صورت زندہ رکھتے اور سامع کو فیض یاب کرتے تھے۔ہاشمی صاحب کا حافظہ بھی کمال کا تھا۔تاریخ،ادب،مذاہب،سیاسیات،نفسیات سمیت کسی بھی موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے تھے۔گفتگو بھی لطیف طنز و مزاح کے پیرائے میں اس شگفتہ انداز سے کرتے تھے کہ سننے والوں کی دل چسپی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ برقرار رہتی۔بلاکے ذہین بھی تھے۔ دفتر میں بعض اوقات بروقت درست فیصلہ کرکے نازک صورتحال کو معمول کی صورتحال میں بدل دیتے تھے۔عجز،انکسار، صبر،رحم دلی،سادگی اوروسعت قلبی و نظری ان کی شخصیت کی نمایاں صفات تھیں۔ صاحب ِ علم ہونے کے باوجود انہوں نے نرگسیت،خود پسندی اور خود نمائی سے ہمیشہ اپنا دامن بچا کر رکھا۔کئی مواقع ایسے آئے جب خود نمائی ناگزیر تھی مگر انہوں نے ان مواقعوں پر بھی اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیا۔ایسے مواقع جب بھی آتے تو مجھے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی لائق بیٹی زیب النساء کا شعر یاد آجاتا کہ

از قضا آئینہِ چینی شکست
خوب شد اسبابِ خود بینی شکست

(شہزادی کے لیے چین سے منگوایا گیا خصوصی آئینہ جب چکناچور ہوا تو اورنگزیب نے بے ساختہ پہلا مصرع پڑھا کہ ’’ قضاکے ہاتھوں چینی آئینہ ٹوٹ گیا‘‘ جس پر شہزادی نے فی الفور مصرعِ ثانی’’ اچھا ہوا خود نمائی کے اسباب کا خاتمہ ہوا‘‘ لگا کر شعر مکمل کردیا) ۔
ہاشمی صاحب بظاہر خود کو رعب دار اور گرم مزاج کے حامل شخص کے طور پر پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے احباب اُن کے قریب جانے سے کتراتے تھے مگر جب بھی کوئی اُن سے ایک دو بار مل لیتا تو وہ جان لیتا کہ یہ تو اندر سے بہت شفیق اور مہربان شخص ہیں۔

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چھوکر نہیں دیکھا

مقناطیسی شخصیت کے باعث ہر شخص اُن کی قربت کا خواہاں ہوتا اور اس شعر کی مثل بن جاتا کہ

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

اب ہاشمی صاحب نہ تو قیس تھے اور نہ ہی جنگل میں بیٹھے تھے کہ ہر کس و ناکس سے گپ شپ کرکے اپنا وقت برباد کرتے۔اُن کے کاندھوں پر قلم کاری کی کئی ذمہ داریاں تھیں جنھیں خوش اسلوبی سے ادا کرنے کے لیے تنہائی ناگزیر تھی۔خلقِ خدا کی بے جا آمد کے دھارے کا رخ موڑنے کے لیے ہی ہاشمی صاحب خود کو سخت گیر شخص کے طور پر متعارف کرواتے تھے۔
نامعلوم وجوہات کی بنا پر پہلی سے آخری ملاقات تک مجھ پر ہمیشہ شفیق اور مہر بان رہے اور میں بھی اس متبحرِ علمی سے خوب فیض اُٹھاتا رہا۔مولانا رومی نے کیا خوب کہا ہے۔

صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند

(نیک شخص کی قربت نیک اور بُرے شخص کی قربت بُرا بنادیتی ہے)

جب ادارہ ِ جسارت میں داخلہ مل گیا تو پہلے دن سے ہاشمی صاحب نے پوچھنا شروع کردیا کہ فیضِ عالم دل لگا تمھارا؟جب تک میں نہیں کہتا رہا وہ ہر روز پوچھتے رہے اور جس دن ہاں کہہ دی تو چہرے پر ملکوتی مسکراہٹ دکھائی دی اور اس دن سے پوچھنا چھوڑ دیا۔ آج کے اس دورِ نا پرساں میں ڈھونڈے سے بھی کہاں ملتے ہیں ایسے گوہرِ نایاب کہ دفتری امور کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی ایک ادنیٰ کارکن کی اتنی دل جمعی سے خبر گیری کریں۔اتنا مزاج آشنا ہوںکہ بندے کی حساسیت کو مدنظر رکھ کر اس سے اُس کی طبیعت کے موافق احسن سلوک کریں۔بقول رومی

ہمنشینی مُقبلاں چوں کیماست
چوں نظر شاں کیمائے خود کجاست

(رب کے مقبول بندوں کی ہم نشینی سونا ہے اور ان لوگوں کی نظر کے مقابلے میں تو سونا خود بھی کچھ نہیں)

ہاشمی صاحب کا زبان کی درستی کے حوالے سے فرائیڈے اسپیشل میں چھپنے والا کالم ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ بہت مقبول تھا جسے کئی اخبارات، ویب سائٹس اور ادبی جریدے شکریہ کے ساتھ شائع کرتے تھے ۔ ادبی حلقوں میں یہ کالم زیرِ بحث بھی رہتا تھا۔اُردو زبان سے والہانہ عشق کے با وصف صحتِ الفاظ کے حوالے سے بہت محتاط رہتے تھے۔کوئی اگر غلط لفظ استعمال کرلے تو کبھی دھیمے غصے اور کبھی افسوس کا اظہار کرتے ۔اخبارات،جریدے،کتابیں جو بھی ان کے ہاتھ لگا اُسے پڑھ کر بیمار لفظوں کو نشان زد کرتے رہتے تھے۔ایک بار مفتی منیب الرحمان کاکالم پڑھ کرچند لفظوں کی درستی کرکے اپنے کالم کا حصہ بنالیا تو مفتی منیب الرحمان صاحب نے وہ کالم پڑھ کر ہاشمی صاحب کو ایک طویل خط لکھا جس میں علمی بحث کے ساتھ ہاشمی صاحب کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ انھیں اپنا استاد بھی مان لیا۔
دفتر میں جب کسی خبر میں کوئی غلط لفظ نظر سے گزرتا تو نیوز ایڈیٹر سے پوچھتے’’ کون ہے اس کا مصنف ‘‘؟نیوز ایڈیٹر کی کوشش ہوتی کہ نام نہ لے مگر جب دو تین بار پوچھتے کہ’’ ابے یار بتادے‘‘ تو پتا چلنے پر کبھی کبھار اُس کو بلالیتے ،تھوڑا سے ڈانٹتے اور پھر اس غلط لفظ کو درست کرکے اُس کے پس منظر سے بھی مختصراً آگاہ کردیتے۔اسی کلاس لینے کے عمل کے دوران ہاشمی صاحب کی ایک اور خوبی نمایاں ہوکر سامنے آتی جو میں نے آج تک کسی دوسرے فرد میں نہیں دیکھی کہ جب کسی کو ڈانٹتے تو انھیں فوری احساس ہوجاتا کہ زیادہ ڈانٹ دیا ہے، اس کی دل آزاری ہوگئی ہے، تو مزاح سے بھرپور کوئی ایسا جملہ یا حکایت یا لطیفہ سنادیتے کہ ڈانٹ کھانے والا مسکراتے ہوئے اپنی سیٹ پر چلا جاتا۔میں اس حوالے سے خوش نصیب تھا کہ مجھے کبھی ڈانٹا نہ کبھی پیشی پر بلایا۔جب کوئی غلطی کرتا اور میرا نام سامنے آتا تو ’’اوہ‘‘ کرکے خاموشی اختیار کرلیتے،مگر میری اصلاح ضرور کرتے ،موقع پر نہیں رات گئے فرصت کے کچھ لمحات میسر آتے تو باتوں باتوں میں پوچھ لیتے کہ وہ لفظ ٹھیک کرلیا تھا؟جی کرلیا تھا۔جب یہ سنتے تو فوری پوچھتے کیا ہے درست لفظ؟۔میں بتادیتا تو تصدیق کردیتے ہاں ٹھیک ہے، اگر کبھی غلط ہوتا تو کہتے’’ اوہ ابے یہ نہیں یہ ہے درست،خیر اب تو چلا گیا جانے دو‘‘۔میں جب کہتا کہ آپ بتادیتے یا لکھ دیتے درست لفظ تو مسکرانے لگتے مگر بولتے کچھ نہیں۔دوسرے ساتھیوں کی خبروں میں غلط لفظ کو نشان زد کرکے آگے درست لفظ لکھ دیتے ،میری خبروں میں غلط لفظ کو نشان زد کرکے آگے سوالیہ نشان بناکر واپس کردیتے تھے۔ میں سمجھ جاتا کہ یہ چاہتے ہیں میں خود درست لفظ لکھوں ،مجھے پہلے لگتا تھا کہ وہ مجھے آزماتے ہیں مگر اب اُ ن کے جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ میری تربیت کے لیے کرتے تھے۔مجھے وہ کچھ نہ کچھ لکھنے پر شگفتہ انداز میں ’’اُکساتے‘‘ رہتے تھے۔ کبھی کہتے کہ اداریہ لکھنا شروع کردو،کبھی کالم نگاری پر زور دیتے،کبھی تنقیدی مضامین لکھنے کو کہتے ،کبھی قطعہ نگاری ،تو کبھی غزل نظم کہنے پر مائل کرتے۔اُن کے کہنے پر سب لکھا۔لکھ کر اُن کو دکھاتا تو بہت خوش ہوتے اور اصلاح کرکے کہتے اب اس سلسلے کوجاری رکھنا۔مگر میرے جیسا سیلانی طبیعت کا مالک یکسانیت سے اُکتا کر کچھ دن بعد پھر ٹھنڈا پڑجاتا۔ہم تھے کہ لکھتے لکھتے طبیعت اُوب جاتی تھی وہ تھے کہ لکھنے کی طرف راغب کرتے رہتے تھے۔ کئی بار کہاکہ زبان کی درستی کے حوالے سے کالم لکھو یہ جو میں کالم لکھتا ہوں اب تم لکھنا شروع کردو ۔ایک بار تو بہت سنجیدگی سے کہا اورکہہ کرتمام تکنیک بھی بتانے لگے اور بتاکرکہا کہ کوئی مشکل نہیں ہے لکھو۔میں نے پوری بات سُن کر جواب دیا کہ اتنی مغز ماری آپ ہی کریں میرے بس کی بات نہیں ہے۔افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہنے لگے فیضِ عالم تم اپنا ٹیلنٹ ضائع کررہے ہو۔آج سوچتا ہوں کہ مجھ جیسے سست الوجود سے ہاشمی صاحب نے کیا کچھ لکھوالیا۔
(جاری ہے)

حصہ