یہ حقیقت ہے کہ تعلیم و تہذیب اقوام کو عروج کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ یہ علم و تحقیق ہی تو ہے جس کی بدولت تہذیب پنپتی ہے اور قومیں عظمت کو پا لیتی ہیں۔ ہمارے قائد محمد علی جناح نے اپنی علمی قابلیت و ذہانت کی بدولت طویل رکاوٹوں کو زیر کیا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قائداعظم کے نزدیک استحکامِ پاکستان علمی بصیرت کے بغیر ناممکن تھا۔ آج تعلیم کی کیا صورتِ حال ہے، اس سلسلے میں ہم نے شعبۂ تعلیم سے متعلق مختلف خواتین سے گفتگو کی اور معلوم کیا کہ آج ہمارا تعلیمی نظام بانیِ پاکستان کے تصورِِ تعلیم کے مطابق ہے؟ اس کے علاوہ اپنے تعلیمی مسائل کی جڑ کے بارے میں بھی گفتگو کی جو یہاں قارئین کی آگہی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
سوالات
1)آپ کے خیال میں آج کا تعلیمی نظام قائد کے وژن سے مماثلت رکھتا ہے؟
2) تعلیمی اداروں کی بہتات کے باوجود تعلیم کا معیار گراوٹ کا شکار ہے، وجہ؟
3) کون سی کوتاہیاں ہیں جو ہم گزشتہ 73برس سے اس شعبے کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں؟
4) علمی میدان قوموں کی اٹھان میں کتنی اہمیت کا حامل ہے؟ کچھ تجاویز؟
…٭…
صبوح طلعت (لیکچرار اسلامیات فہم القرآن)۔
1) وژن سے مماثلت کی بات تو تب ہو جب ہم قائد کے وژن پر یکسو ہوں۔ یہاں تو آج تک قائداعظم کے تصورِ پاکستان کو، جو کہ اسلامی اصولوں پر تجربہ گاہ پر مشتمل ہونے کا متفقہ وژن تھا، اسی کو توڑ مروڑ کر سیکولر پاکستان سے جوڑا جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیمی، معاشی، سیاسی نظم کی مماثلت تو اگلا مرحلہ ہے۔ لہٰذا یہ کنفیوژن نہ صرف موجود ہے بلکہ سرکاری سرپرستی میں اس کی آبیاری بھی کی جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر یکسو ہوگئے تو قوم بن جائیں گے اور بہت سوں کی دکان بند ہوجائے گی۔
2) دیکھیں معیارِ تعلیم کے لیے مقصدِ تعلیم کی بہت اہمیت ہے۔ اگر مقصدِ تعلیم واضح اور مربوط نہ ہو، توآپ کا کیا خیال ہے کہ معیار بہتر ہوگا؟ لہٰذا میرے نزدیک اس کی وجہ تعلیمی اداروں کا محض معاشی نقطہ نظر سے قائم ہونا ہے۔ ویسے بھی ہمارے یہاں تعلیم کا عمل بغیر مقاصد کے آٹو پر لگا ہوا ایک سسٹم ہے۔ آنا، بیٹھنا،کچھ لکھ پڑھ لینا اور چلے جانا، ایسے میں معیار نہیں بنتا۔ جب تک آپ سوچنے والا ذہن تیار نہیں کریں گے، اُس کی حوصلہ افزائی، اس کو سمت کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اُس وقت تک نشتن،گفتن، برخاستن ہی رائج رہے گا، معیار تعلیم بہتر نہیں ہوگا۔
3) حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ 73 سال میں ہم نے تعلیم پر فوکس ہی نہیں کیا۔ اس کی اہمیت کو گردانا ہی نہیں۔ جب ایک شے کی وقعت کا اندازہ ہی نہیں تو ایسے میں کوتاہیوں کے انبار ہوں گے۔
4) میں سمجھتی ہوں کہ قوموں کے بننے کے عمل میں فکری ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ قومی ترقی ہر دور میں علم و تحقیق اور تربیت و اخلاق کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ آج بھی یہی دو بنیادیں ہیں۔ جائزہ لے کر دیکھ لیں ہم کہاں کھڑے ہیں، خود ہی سمجھ میں آجائے گا۔
تعلیمی میدان کو زرخیز بنانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں مقصد اور وژن کی ضرورت ہے۔ مقصد بھی ایسا جو نہ صرف واضح ہو بلکہ پالیسی سازوں سے لے کر اساتذہ، طلبہ بلکہ پوری قوم اس مقصدِ تعلیم پر یکسو اور واضح ہو، جو ظاہر ہے آج تک مبہم ہے۔ اگر ہم تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں تو شاید ہمیں ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، مگر افسوس کہ تعلیم قوم، ریاست اور حکومت کی ترجیحات نہیں بنتی۔ پاکستان میں سیاسی نظام جن بنیادوں پر ٹکا ہوا ہے اس میں کٹھ پتلیاں اس نظام کی ضرورت ہیں۔ ایسے اندھے، بہرے، گونگے لوگ جو غلام ہوں۔ ظاہر ہے بہتر تعلیمی نظام تو شعور دے گا اور سیاسی اشرافیہ کو اسی شعور سے خوف لاحق ہے۔ لہٰذا منصوبہ بندی کے تحت تعلیم کو ترجیح بننے ہی نہیں دیا جاتا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مختلف طبقات کے لیے مختلف تعلیمی نظام مروج ہیں جو مزید مختلف طبقاتِ فکر پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ان کا طریقۂ تدریس اور نصابِ تعلیم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ میرے خیال سے مختلف و متضاد فکر و نظر کے لوگ معاشرے میں تقسیم کا عمل گہرا کررہے ہیں، اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یکساں نظامِ تعلیم اور مواقع بہت ضروری ہیں۔
عالیہ زاہد بھٹی (لیکچرار معاشرتی علوم)۔
1) میرے نزدیک پاکستان میں قائد کے نظریے سے کھلی غداری کی گئی ہے، یہاں تک کہ ہماری وہ آئیڈیالوجی جس کی بنا پر ہم نے ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا، وہ تک کھو دیا۔ ہم نے اپنی درس گاہوں سے پہلے اس نظریے کو غیر محسوس انداز میں ختم کیا، ہندوستانی معاشرہ اپنے اندر جذب کیا، بھارتی گانوں پر تھرکتے ہوئے ننھے شہباز و شاہین کی اک اک حرکت اقبال وجناح کی روحوں کو تڑپاتی رہی اور ہم اپنے نظامِ تعلیم کو’’ماڈریٹ‘‘ ہوتا دیکھ کر اپنے بچوں کی ’’خ‘‘ کو ’’کھ’’ اور ’’غ‘‘ کو ’’گین‘‘ میں بدلتا دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔
2) وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم معیار نہیں، تعداد کے لیے کام کررہے ہیں، ہمیں برکت والی نسل نہیں، شاید آپ کو مناسب نہ لگے مگر ہمیں پیسوں کی خاطر جوتنے کے لیے ’’گدھے‘‘ درکار ہیں، سو مجھے لگتا ہے شاید معاشرتی، سماجی، تہذیبی ہر طرح کی گراوٹ کے بعد کاغذی روپوں کے گراف کی اونچائی من حیث القوم ہمیں بھانے لگی ہے۔
3) اس حوالے سے شاید میرے خیالات ذرا مختلف ہوں۔ محض ایک وجہ نہیں ہے اس زبوں حالی کی۔ میرا تجربہ یہی کہتا ہے کہ ہم سے اخلاص کہیں کھو گیا اور نظریہ ہم نے ڈبو دیا۔ بچوں اور اساتذہ کے مابین محبت کے رشتے کو ہم پامال کرچکے۔ یہ سب ہوتے ہوتے نتیجہ تعلیمی نظام کی زبوں حالی پر منتج ہوا۔
4)یہاں میرے ذہن میں ایک مصرع آرہا ہے ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی‘‘، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عمل نہیں تو محض جذبات اور الفاظ سے آپ چائے کی پیالی میں طوفان نہیں لاسکتے تو بھلا قومی سمندر میں کہاں اسٹینڈ کریں گے آپ؟
مجھ سے پہلے اقبالؒ مشورہ دے گئے، ان کا مشورہ ہی مان لیجیے۔ میں کچھ کہوں، اتنی جرأت میں اپنے اندر نہیں پاتی۔ ہمارے شاعر مشرق اقبال کی بات ہی سن لیں کہ
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
طاہرہ محبوب (لیکچرار فزکس)۔
1) میرے خیال سے آج کا تعلیمی نظام قائد کے وژن سے یکسر مختلف ہے، بالکل بھی مماثلت نہیں رکھتا۔ ہمارے قائد نے یکساں تعلیمی نظام پر ہمیشہ زور دیا اور اسی کی تلقین بھی کی، جبکہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام عدم مساوات کا شکار ہے اور وسائل کی کمی سے احساسِ کمتری اور دیگر منفی جذبات جنم لے رہے ہیں۔
2) بدقسمتی سے آج کا تعلیمی نظام کاروبار کا ذریعہ بن چکا ہے، اداروں میں اصلاح اور تربیت مفقود ہوکر رہ گئی ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے انگریزی کو تعلیمی معیار بنا لیا ہے جس سے ہم شاید ’’انگریزی یافتہ‘‘ ہوجائیں لیکن تعلیم یافتہ نہیں بن سکیں گے۔
3) میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ پہلی کوتاہی تو یہی ہوئی کہ ہم نے تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کردیا، اور پھر ان اداروں کی طرف سے عدم توجہی کے رویّے نے بھی ہمارے تعلیمی سیکٹر کو زوال پذیر کیا۔ دوسری طرف زبان کی طرف سے کنفیوژن سے مسائل درپیش ہوئے۔ آج تک ہم اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ کس زبان کو ذریعۂ تعلیم ہونا چاہیے؟ اس سے معاشرے میں دوریاں بڑھ گئیں، وہ تعلیمی نظام جسے قوم کو یکجا کرنا تھا، بانٹنے کا آلہ کار بن گیا۔
4) تعلیم قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جو قومیں اپنے تعلیمی نظام کو مستحکم اور بہتر کرنے کی کوشش میں ہیں وہی زندگی کے ہر شعبے خواہ سائنس و ٹیکنالوجی ہو، علم و فنون ہو یا معاشیات و سیاسیات… سب میں کامیاب ہیں۔ میرے خیال میں یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کی ازحد ضرورت ہے اور نچلے طبقے تک تعلیم کے برابر مواقع دیے جائیں۔ بچوں کو نظریاتی بنیادوں سے جوڑا جائے تاکہ ان کی بہتر خطوط پر تربیت ہوسکے۔کم از کم وہ اپنا مقصدِ حیات تو جان سکیں۔
عابدہ احمد علی (اسکول پرنسپل)۔
1) قائداعظم نے اپنی پوری زندگی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کے نزدیک تعلیم ہی قومی آزادی کی حفاظت کی کنجی ہے اور بحیثیت قوم مضبوط کرتی ہے، انسانی کردار کو منظم انداز میں پیش کرتی ہے۔ مگر آج کا تعلیمی نظام ان کی سوچ کے برعکس ہے اور قائد کے مشن کی عکاسی نہیں کرتا۔ جس تعلیمی نظام کو انہوں نے قوم کے منظم ہونے کی ضمانت قرار دیا، وہی آج تتر بتر ہے۔
2) پہلے زمانے میں اسکولوں کی تعداد کم تھی، بیشتر گورنمنٹ اسکول ہوتے تھے، نجی اسکول کا نام و نشان نہ تھا، تعلیم ایمان داری سے دی جاتی تھی، اساتذہ عبادت سمجھ کر آسانی کے ساتھ شاگرد کو وقت دیتے اور فرائض کی انجام دہی کرتے تھے۔ مگر گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کا تعلیمی معیار گرتا چلا جارہا ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعداد بڑھنے کے ساتھ قوم کے ہر بچے تک تعلیم پہنچتی، مگر افسوس اب یہ مقدس پیشہ صرف ذریعۂ روزگار بن کر رہ گیا ہے۔ نہ نصاب بنانے والے سنجیدہ ہیں اور نہ پڑھانے والے۔ تعلیم اور تعلیمی ادارے سب کھلواڑ بن گئے ہیں۔
3)کتنی عجیب بات ہے کہ ہم تعلیمی سیکٹر کو پیغمبرانہ پیشہ تو کہتے ہیں مگر اس کے ساتھ مخلص نہیں۔ فریضے کی انجام دہی میں جو خلوص، محبت، لگن، محنت درکار ہے، وہ ناپید ہوگئی ہے، آج کل ہمارے ادارے اساتذہ کی تربیت سے بھی غفلت برت رہے ہیں، نتیجتاً استاد میں وہ لگن نہیں رہی کہ آنے والی نسلوں پر شعور کے در وا، اور انہیں تحقیق کی جانب مائل کردے۔ گزشتہ73 برسوں سے ہم نے محض چند رٹے رٹائے سوال اور انہی کے جواب کتاب پر نشان لگواکر ذمے داری سے سبکدوشی کی ہے جس سے استاد اور شاگرد دونوں میں جستجو اور لگن ختم ہوچکی۔کس کس کو روئیں! والدین بھی اس طریقہ تعلیم پر مطمئن ہیں۔
4) ہٹلر نے کہا تھا ’’میری قوم کے اساتذہ کو بچاؤ، یہ کل کا سرمایہ ہیں‘‘۔ مگر ہم کیا کررہے ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو اساتذہ کی تکریم کے معنی ہی باور نہیں کروا سکے۔ استاد کی عزت کو صرف چند پیسوں سے پابند کرلیا ہے۔ ذریعہ تعلیم روزگار دیتا ہے، اگر بہترین روزگار ہوگا تو محنت بھی ہوگی اور لگن اور خلوص بھی دکھائی دے گا۔
…٭…
مختلف معلمات اور ماہرینِ تعلیم سے گفتگو کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قائداعظم کے وژن میں ہی مضبوط اور مستحکم پاکستان پنہاں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ذاتی عناد اور مفادات سے بالاتر ہوکر علم و تحقیق، مشاہدے و تخلیق کی منازل کو طے کرنا ہوگا۔ 73 برسوں کی خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اب بھی وقت ہمارے ہاتھ سے نہیں پھسلا۔ آج اگر ہم عہد کرلیں تو اپنے زورِ بازو سے اس پاک سرزمین کو علم و فن اور تحقیق و جستجو کی وادی میں نہ صرف تبدیل کرسکتے ہیں بلکہ بحیثیت قوم دنیا کے لیے نیا تعارف بھی بن سکتے ہیں۔