وطنِ عزیزکی خاطر ہمارے بزرگوں نے اپنا سب کچھ لٹا دیا… اپنے مال، اولاد، ماں باپ، بھائی بہن، نئی نویلے اور برسوں ساتھ نبھانے والے محبت کرنے والے ازدواجی رشتے۔ ان بزرگوں کی قربانیوں کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسی ہی ایک بے مثال داستان میری نانی کی بھی ہے جنہوں نے اپنی نظروں کے سامنے اپنے عزیزوں اور اپنی نئی نویلی شادی شدہ زندگی کے ہم سفر کی شہادت دیکھی۔
آہ…کیا گزری ہوگی ان کے دل پر۔ چلیں میں آپ کو نانی کی آپ بیتی اُن کی اپنی زبانی پیش کرتی ہوں۔ کس طرح دکھی دل کے ساتھ نانی پاکستان پہنچیں اور پھر ان کی دوسری شادی میرے نانا سے طے پائی۔
’’یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ہندو مسلم سب ایک ہی علاقے اور گلی محلے میں مل جل کر رہتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتے تھے۔ ان ہی دنوں میرا رشتہ طے ہوگیا اور گھر میں شادی کی سیدھی سادی تیاریاں شروع ہوگئی، اور میں بیاہ کر سسرال آگئی۔ شادی کے شروع میں ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک الگ وطن کی تحریک چل پڑی اور ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ وہی ہندو جو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، مسلمانوں اور ان کی بہن، بیٹیوں کی عزت اور خون کے درپے ہوگئے۔ میرے شوہر، سسر، دیور نے تحریکِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ اللہ رب العالمین کی رحمت اور مسلمانوں کی انتھک محنت سے آخرکار پاکستان کی آزادی کا پروانہ ملا۔ جب ہندوئوں کو خبر ہوئی تو وہ ڈنڈوں، چھروں اور چاقوئوں سے لیس ہوکر مسلمانوں کے گھروں پر حملے کرنے لگے۔ باپ بھائیوں کو شہید کرکے ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو اٹھاکر لے جاتے اور ان کی آبرو ریزی کرتے… آہ۔
پاکستان کی آزادی کا مژدہ سنتے ہی میرے سسر نے ہمیں ہجرت کے لیے ضروری سامان باندھنے کو کہا، گھر کے باقی لوگ پہلے ہی نکل چکے تھے۔ وہ سب میرے میکے والوں کے ساتھ پاکستان جانے والے قافلے کے ساتھ ہمارا انتظار کررہے تھے۔
میں اور میری ساس سامان باندھ ہی رہے تھے کہ باہر سے آوازیں سنائی دیں… ’’ایک کو بھی نہ چھوڑنا، سب کو کچل ڈالو، مار ڈالو… آزادی چاہتے ہیں… آزاد کردو ہمیشہ زندگی سے…‘‘
وہ ہمارے گھر کا دروازہ پیٹنے لگے، بلکہ توڑنے لگے۔ میرے سسر کو میری فکر ہوئی کہ جوان بچی کی عزت کو محفوظ کرنا ہے، چاہے ہماری جان چلی جائے۔ انھوں نے مجھ سے کہا ’’بیٹی! تم باورچی خانے کے اوپر مچان میں جاکر چھپ جاؤ اور چاہے کچھ بھی ہوجائے، یہ کافر ہماری بوٹی بوٹی بھی کردیں، تمہیں نیچے نہیں آنا۔ ہمیں اپنی جان سے زیادہ تمہاری عزت پیاری ہے۔‘‘
میں تو رونا شروع ہوگئی۔ وقت کم تھا، میری ساس نے مجھے گھسیٹتے ہوئے مچان پر چڑھا دیا۔ خوف کے مارے میرے تو قدم بھی نہیں اٹھ رہے تھے۔ اسی اثناء دروازہ توڑتے ہوئے وہ سب اندر گھس آئے۔ ہائے کتنا دل خراش منظر تھا وہ، آج بھی سوچتی ہوں تو خوف اور دکھ سے دل بھر آتا ہے۔ ایک ایک کرکے وہ میری نظروں کے سامنے سب کو بے دردی سے شہید کررہے تھے۔ میرے شوہر کو مجھ سے چھین رہے تھے۔ پے درپے چاقو کے وار… آہ میں کتنی بے بس اور مجبور تھی۔ میں ان کا دفاع بھی نہیں کرسکتی تھی۔ ان ظالموں نے دیکھتے ہی دیکھتے سب کو ختم کردیا اور گھر کا سارا قیمتی سامان لے کر اور بھی بہت سے گھروں کو برباد کرنے نکل گئے۔
میرے حلق میں توجیسے آواز پھنس گئی اور وجود بکھر گیا ہو… خود کو سنبھالتے ہوئے مچان سے نیچے آئی۔ اپنے شوہر سمیت سب کو دیکھا۔ آنسو تھے کہ رک ہی نہیں رہے تھے۔ ہمت کرکے سب کی سانسیں چیک کرنے لگی اس امید پر کہ شاید کوئی تو زندہ ہوگا۔ شوہر کو دیکھ کر گزرے دنوں کی یاد آئی۔ وہ خوشیوں بھرے دن اور مستقبل کی پلاننگ… آہ کچھ باقی نہ رہا۔
اپنی ساس کی طرف گئی تو دیکھا کہ ان کے پیٹ میں بڑی بے دردی سے چاقو کے وار کیے گئے تھے جس سے ان کی آنتیں باہر آگئی تھیں، لیکن ان کی سانسیں چل رہی تھیں۔ میں نے ان کو پکارا تو انہوں نے بمشکل اپنی آنکھیںکھولیں۔ مجھے امید کی کرن نظر آئی۔ میں نے ہمت کی، ان کی باہر نکلی آنتوں کو پھر سے پیٹ میں ڈالا اور دوپٹے سے پیٹ باندھ دیا۔ انہیں پانی پلایا تو اللہ کے کرم سے وہ ہوش میں آگئیں۔ واہ میرے مولا تیری شان۔
ہوش میں آئیں تو کہنے لگیں ’’بیٹی تو یہاں کیا کررہی ہے! جا بھاگ جا ورنہ یہ درندے تجھے برباد کردیں گے‘‘۔ میں نے کہا ’’کچھ بھی ہو، میں آپ کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گی، آپ تھوڑی سی ہمت کریں‘‘… میری ضد کی وجہ سے انہوں نے ہمت کی، اور اللہ کی مہربانی وکرم سے ایک مسلمان مددگار کی صورت میں مل گیا، اور ہم بچتے بچاتے اللہ کی مدد سے مہاجروں کے قافلے تک پہنچ گئے جہاں میرے باقی عزیز و اقارب ہمارے منتظر تھے۔ اپنے عزیزوں کی شہادت پر سب نے بہت صبر سے کام لیا۔
ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے، اور ہجرت کے بعد میری ساس کئی سال زندہ رہیں۔ واقعی یہ ان کے صبر کا پھل تھا کہ انہوں نے تکلیف برداشت کرتے ہوئے ہندوستان سے پاکستان کا سفر طے کیا، پاکستان کی سرزمین پر اپنے وطن کے اپنے پن کو محسوس کیا، اس کی کامیابی و ترقی کے لیے ڈھیروں دعائیں کیں۔ اللہ نے قسمت میں دوسری شادی لکھی تھی۔ گھر بسایا، اولاد کی نعمت عطا ہوئی۔ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں بھی دیکھیں۔ اللہ کسی کی بھی جائز قربانی رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ مجھے بھی میرے صبر کا پھل ملا ان بے شمار نعمتوں کی صورت میں۔‘‘
یہ تھی میری پیاری نانی جان کی آپ بیتی۔
اس داستان میں ہمارے بزرگوں کی کتنی عظیم قربانیاں ہیں، مگر افسوس ہمیں ان کی کوئی پروا نہیں۔ آج کی نئی نسل کو آزادی تھالی میں رکھ کر دی گئی ہے، اس لیے اس آزادی کو حاصل کرنے میں کتنی قربانیاں دی گئیں،کیا کیا دعائیں مانگی گئیں، اس کے پرچم کی سربلندی کے لیے کتنے سر قلم کیے گئے، ان سب باتوں سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ ہر سال 14 اگست کو ہی وطن سے محبت جاگتی ہے، اس کے پرچم سے اور جھنڈیاں گھر میں سجا کر وطن سے محبت کا دکھاوا کرتے ہیں، بعد میں یہی پرچم اور جھنڈیاں پیروں تلے روندی جاتی ہیں۔ کچھ دن پہلے میں نے دیکھا کہ کچھ بچے جھنڈیوں سے تاش کھیلتے ہوئے نظر آئے تو کچھ بچے اسے لٹا رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر افسوس کے ساتھ ساتھ آج کے بچوں کی اس حوالے سے تربیت میں کمی بھی نظر آئی۔
اپنے بچپن میں ہم ایک بھی جھنڈی کو گرنے سے بچانے کے لیے دوڑ پڑتے تھے اور 14 اگست گزرنے کے بعد ان جھنڈیوں کو بڑے احترام سے ایک تھیلے میں قرآن مجید کے اوراق کی طرح سنبھالتے تھے۔
ہمیں اپنے بچوں کی اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ تربیت کرنا ہوگی، انھیں بزرگوں کی قربانیوں کی داستانیں سنانا ہوں گی، ان میں اسلام اور وطن سے محبت کو اجاگر کرنے کے لیے صرف ایک دن نہیں بلکہ آخری سانس تک قربانی، احترام کو اجاگر کرنا ہے۔
اور ہاں اگر جھنڈیاں سجانے کے بعد سنبھالنا مشکل ہے تو صرف پرچم لگائیں اور کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’ہمارا پرچم سبز ہے توسبزہ اُگائیں‘‘۔ پاکستان کو ہمیشہ ہرا بھرا رکھیں۔ اس کی شان اور خوبصورتی بڑھائیں۔