یہ ہے الخدمت

390

خدمت تو کرنے سے آتی ہے، دعووں سے نہیں۔
آپ خدمت کرکے دل جیت لیتے ہیں، اگلے چاہتے ہیں کہ انھیں بھی وہی پذیرائی اور اعتماد ملے، تو انھیں جاننا چاہیے کہ خدمت کیسے کرتے ہیں، کس لیے کرتے ہیں۔
یہاں خدمت نہ معاوضے کے لیے کی جاتی ہے، نہ ووٹوں کے لیے۔
اگر یہ سیاست ہوتی تو ہر الیکشن کے بعد خدمتی دائرہ سکڑتا چلا جاتا، کہ جب لوگ ہمیں اقتدار کے قابل نہیں سمجھتے تو ہم کیوں ان کی خدمت میں ہلکان ہوں!
مگر یہاں الحمدللہ خدمتی دائرہ نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ عوامی اعتماد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
یہاں الیکشن میں شمولیت بھی ذاتی مفاد یا سیٹوں کے حصول کے ذریعے کسی خاندان، برادری یا قبیلے کو فائدہ پہنچانا نہیں، بلکہ حجت تمام کرنا ہے کہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ اچھے امیدوار ہوتے تو ہم انھیں ووٹ دیتے، یا دفعہ 62،63 پر پورے اترنے والے سیاسی میدان سے کنارہ کشی کرلیں اور سیاست کو چنگیزیت کے لیے چھوڑ دیں۔
یہاں خدمت اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ عبادت ہے۔
الخدمت کا بہترین نظم ونسق جماعت اسلامی کی تربیت ہے۔
یہ معیار ایک دن میں نہیں بن گیا۔
برسوں کی مشقت اور تجربات سے الخدمت آج اس مقام تک پہنچی ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ اس کی خدمات کا اعتراف کررہے ہیں کہ جب حکومت نے آن لائن قربانی پر زور دیا تو بہت سے شہسوار میدان میں آگئے، اور ثابت ہوا کہ خدمت دعووں کا نام نہیں ہے۔
کیسے ہو پاتا ہے یہ سب؟ ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:
چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی ماشاءاللہ ڈاکٹر ہے۔ بروز عیدالاضحی میں نے کہا اُسے فون دو، اُسے بھی عید کی مبارک باد دے دوں۔
بہن بولی: ارے آپ کو تو علم ہے وہ تو بمشکل ناشتا کرکے نکلتا ہے۔ تینوں دن کھالیں جمع کرنا، پھر قربانی کیمپ پر ذمہ داری۔۔۔ کچھ پتا نہیں ہوتا رات کو بھی آئے گا کہ نہیں۔ کہتا ہے رات گئے تک میٹنگز چلتی ہیں، شکایتوں کے جائزے، اگلے دن کی منصوبہ بندی۔
پندرہ برس سے قربانی کی کلیجی، پکتے کھانوں کی مہک… ان تین دن تو ہم وڈیو پر دکھاتے ہیں کہ یہ مہمان آئے ہیں، یہ ٹیبل لگی ہے۔ سچ ہے یہ بھی سعادت ہے۔ ماں نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
اگلی کال میں نے امریکا کی، عید کی مبارک باد دیتے ہوئے پوچھا: بھائی جان کو کورونا ہوا تھا، کیا حال ہے؟
بولیں: وہ تو ٹھیک ہوکر پاکستان سدھارے کہ بقرعید تو اپنے دیس کی بھلی لگتی ہے۔ وہ علاقے میں قربانی کیمپ کے انچارج ہوتے ہیں۔ کھالیں خود لینے جاتے ہیں کہ جو میرا حلقہ احباب ہے اسی بہانے سلام دعا ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب ہر سال امریکا سے کھالیں جمع کرنے اور کیمپ پر ڈیوٹی دینے آتے ہیں۔
یہ اُس وقت بھی آتے تھے جب الخدمت کا بیج لگانا کلاشنکوف کا نشانہ بننے کے لیے کافی تھا۔ جب شہر یرغمال ہوتا تھا اُن کے ہاتھوں جن کو منزل نہیں رہنما درکار تھے۔
یہ تو عید کی صبح کی دو فون کالز کا ذکر ہے۔
جب فیس بُک پر آن لائن قربانی کا حال پڑھا۔ لاک ڈاؤن میں لوگ بزنس سمجھ کر کود پڑے اس فیلڈ میں۔ لوگوں کی خطیر رقم ضائع ہوئی۔ کسی کو صبح کی بکنگ کا گوشت رات کو پہنچا تو انھوں نے بجائے دھونے، پکانے کے بوری میں بند کوڑے دان کی نذر کردیا کہ سڑی بو برداشت سے باہر تھی، کسی کو چار بکروں کے 8 پائے پہنچے تو موصوف نے استفسار کیا کہ کیا اب دو پاؤں والے بکرے بھی آنے لگے ہیں منڈی میں!
کوئی کہہ رہا ہے دو گائیں ڈیڑھ لاکھ میں بک کرائی تھیں، ایسی تیسی کردی گوشت کی، وہ عدالت سے رجوع کرے گا۔ کوئی کہہ رہا ہے تین بکروں کا صرف بیس کلو گوشت موصول ہوا۔
کچھ اسکرین شاٹس ذیل میں دیے جارہے ہیں:
ہمارے گھر مغرب کے بعد گوشت پہنچا الخدمت کی مہر لگی صاف ستھری پلاسٹک کی ٹوکریوں میں۔ تازہ قرینے سے بنا گوشت… نہ پکانا مشکل، نہ محفوظ کرنے میں مشقت۔
ہم گھر قسائی بلا کر جو قربانی کراتے تھے اس گوشت کو صحیح حالت میں لانے، بانٹنے میں پورا دن لگ جاتا تھا۔
جس سے پوچھو قسائی سے گلہ۔ قسائیوں کی غیبت سے ان کے سال بھر کے گناہ دھل جاتے ہوں گے!!!۔
اصل میں تیز چھری ہاتھ میں لینے والا ہر ایک تو قسائی نہیں ہوتا۔ یہ برساتی قسائی قربانیوں کے گوشت کو بےدردی سے ٹھکانے لگا کر مزدوری لے کر یہ جا وہ جا۔
پرسوں دن کا بیشتر وقت میاں الخدمت کیمپ پر رہے۔
بولے: ٹیلی فون کالوں کا تانتا۔ ہر ایک کی خواہش کہ الخدمت والے کھال وصول کرلیں۔ رضاکاروں کی نئی کھیپ آتی وہ روانہ کردی جاتی۔ پھر مزید ورکر کال کیے جاتے۔
ذرا دیر میں الخدمت کی جیکٹ پہنے نوجوان موٹر سائیکل پہ برآمد ہوتے۔ ان کو روانہ کردیا جاتا۔ ہاتھ بھی حرکت میں اور دماغ بھی۔
کیمپ کا ڈسپلن کسی تربیت یافتہ فوج کے سپاہیوں جیسا۔
آج سویرے ٹی وی پر فوج کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا کہ وطن کے لیے عید اپنوں سے دور محاذ پر گزاری۔
دل نے کہا: محاذ تو اور بھی ہیں۔ سپاہ بھی جدا جدا… یہ بھی تو سپاہی ہیں، رضاکار، ہزاروں کی تعداد میں… گھر میں پیاروں اور کچن کی خوشبو سے پرے۔۔
کس لیے،کس معاوضے پر…کیا کسی ستائش کی تمنا یا لفافے کی چاہت؟
یہ کسی تب و تابِ جاوداں کی راہوں کے راہی ہیں۔
یہ دیہاڑی کی طلب میں چوک چوراہوں سے پکڑ کر لائے ہوئے بے روزگار، غیر تربیت یافتہ ہجوم نہیں ہیں۔
ان جوانوں کی تربیت باپوں نے اپنے ساتھ اس طرح کی مہمات پر بچپن سے کی ہے۔
ان میں ڈاکٹر بھی ہیں، انجینئر بھی، بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈگری یافتہ بھی، تاجر بھی اور صنعت کار بھی۔
یہاں کسی کو اپنی شناخت پر کوئی اصرار نہیں۔
یہ الخدمت کے بیج لگائے، جیکٹ پہنے صرف الخدمت کے کارکن ہیں، اسی پہچان پر فخر ہے کہ خلقِ خدا کی کوئی خدمت کرکے رب کو راضی کرلیں۔
ابھی کورونا مہم میں اربوں کے راشن انھوں نے ہزاروں دہلیزوں پر پہنچائے۔
یہ عوام کی امانتیں ہوتی ہیں جس کی پائی پائی کا وہ حساب رکھتے ہیں۔ امانتوں کا حق عیدِ قرباں ہی پر نہیں، سارا سال ایک پاؤں پر کھڑے رہ کر ادا کرتے ہیں۔
بعد از مہم قربانی ان کی جانب سے خاکی بند لفافہ موصول ہوگا جس میں آپ کی باقی ماندہ رقم، شکریے کے خط کے ساتھ موصول ہوگی۔
قربانی کی تفصیلات درج ہوں گی۔ آپ سے شکایت پوچھی جائے گی، آئندہ کی بہتری کے لیے تجاویز طلب کی جائیں گی۔
ان کی خواتین بھی سارا دن مستحقین کو گوشت پہنچانے اور کراچی، لاہور سمیت دیگر بڑے شہروں سے وصول والے پیسوں سے کہیں سندھ کے پسماندہ دیہات، کہیں خیبر کے کسی دور افتادہ پہاڑی علاقے میں قربانیاں کرانے اور گوشت پہنچانے میں مصروف رہتی ہیں۔
یہ عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی۔
یہ ”الخدمت“ہیں۔
زندگی تو سب کو ایک بار ہی ملی ہے، یہ اپنے لیے نہیں مشن کے لیے جیتے ہیں۔
لوگ فیس بک پر ایک دوسرے کو مشورے دے رہے ہیں کہ ائندہ قربانی کے لیے الخدمت کا انتخاب کریں، ان کی کارکردگی نمایاں اور لائقِ تحسین ہے۔
جب اپ نے دیکھ لیا، جان لیا کہ ایک سپاہ آپ کے بیچ ہے۔
جو امانتیں آپ سپرد کرتے ہیں وہ حق ادا کرکے آپ کا دل جیت لیتے ہیں۔
دل کانپ جاتا ہے کہ اس قوم سے روزِ حشر حساب نہ ہوجائے کہ پھر تم نے ملک کا انتظام لٹیروں کے ہاتھ میں دے کر کیوں وطن کے ساتھ خیانت کی؟
اگست کا آغاز ہے، سبز پرچموں کی بہار۔۔ یہ پرچم خاموش پیغام ہیں کہ اب شہری حکومت ہو یا قومی… اجتماعی باگ دوڑ خائنوں کو نہ دی جائے۔۔۔ اب کے اگر ہم نے یہ کوتاہی کی تو قدرت انفرادی گناہوں سے تو صرفِ نظر کرتی ہے مگر ملت کے اجتماعی گناہوں کی سخت پکڑ کرتی ہے۔ وہی پکڑ جو ہماری ہورہی ہے اجتماعی ملّی فساد کی شکل میں، جس سے ہم دوچار ہیں۔

حصہ