دسمبر 2019ء کے پہلے ہفتے جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہونا ا شروع ہوئے تو تو دنیا بھر میں اس وباء کے حوالے سے تشویش بڑھی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہی کورونا وائرس کی وباء ایران سے لے کر یورب و امریکا تک پھیل گئی۔ حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کو اس وبائی مرض سے نمٹنے کیلئے تقریبا تین ماہ کا ٹائم ملا مگر ہماری حکومتیں اس وبائی کی روک تھام یا اس کے تدارک کیلئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہ کرسکیں۔ حالانکہ سرحدی راستوں اور ائیر پورٹس پر کوروناء وائرس کی تشخیص کے حوالے سے انتظامات کئے جاتے تو صورتحال کنٹرول کی جاسکتی تھی اور وباء کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا تھا لیکن وہی ہو ا جس کا ڈر تھا۔ 2020ء شروع ہوا تو کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ یہ نیا سال اچانک وباء اور بیماریوں کے سال میں تبدیل ہوجائے گا۔
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26فروری کو کراچی میں رپورٹ ہوا اور چند ہفتوں میں یہ وباء پورے ملک میں پھیل گئی۔ یہ وباء سندھ سے ہوتی ہوئی پنجاب، خیبر پختوانخوہ، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان میں اِس تیزی سے پھیلی کہ ہماری سہل پسند اشرافیہ کو کوئی بھی موثر حفاظتی اقدامات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی اور کوآرڈینیشن کے فقدان کے باعث یہ وباء شہروں، قصبوں، گاؤں اور گوٹھوں تک چند ہفتوں میں پھیل گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس مرض نے ملک کے تمام طبقات کو متاثر کرنا شروع کردیا جس میں عام عوام، طبی عملہ، تاجر حضرات، پولیس اہلکار، سیاستدان اور علما ء اور دیگر شامل ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ تو کیا مگر اس وقت تک یہ وباء پورے ملک کو اپنے لپیٹ میں لے چکی تھی۔ دوسے تین ماہ میں کورونا کے کیسز اتنے بڑھ گئے کہ پورے ملک کا صحت کا نظام بیٹھ گیا اور اسپتالوں میں بیڈز کم پڑگئے جبکہ جان بچانے والی ادویات نایاب ہوگئیں۔ دوسری جانب بڑے بڑے دعوے کرنے والے حکمران اپنی نااہلی چھپانے اور عوام کی توجہ اس بیماری سے ہٹانے کیلئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ایمرجنسی صورتحال لگ سے نمٹنے کیلئے ناقص منصوبہ بندی، ملک میں طبی سہولیات کے فقدان اور ملک کو درپیش مالیاتی بحران نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں گھبراہٹ کے عالم میں اپنے بیشتر وسائل کورونا وائر س کے علاج ومعالجے میں جھونک دیئے مگر بدقسمتی سے دوسری خطرناک بیماریوں جس میں کینسر، ٹی بی، شوگر ایڈز،، گردوں کی بیماریاں، امراض جگر اور ہیپاٹائٹس جیسے موزی امراض یکسر نظر انداز کردیے گئے جو حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ دوسری جانب بچوں میں خسرہ، کالی کھانسی، نمونیا، پولیو، ٹائیفائیڈ اور دیگر بیماریاں بھی بڑ ھ گئیں۔ صوبوں میں بچوں کو پلائی جانے والی ویکسین کی شرح 60 فیصد سے کم ہوکر 25فیصد رہ گئی، جوکہ آنے والے مہینوں میں بچوں کی بیماریوں میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ ملک بھر میں تین ماہ کے سخت لاک ڈاؤن اور اسپتالوں میں او پی ڈی کی بندش اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا جو بیماریوں میں ا ضافے کا سبب بنا۔ طبی حفاظتی سامن کے فقدان اور ناکافی سہولتوں کے باعث طبی عملے کا بڑی تعداد میں کورونا میں مبتلا ہونا اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی سے بھی ملک بھر میں بیمار یوں میں ریکار اضافہ ڈ ہوا۔ طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر امراض کا شکار لاکھوں افراد بر وقت علاج ومعالجے کی سہولیات سے محروم کردیئے گئے جس سے پہلے سے مختلف امراض کا شکار افراد کی بیماریوں اور اس سے متعلق پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا، بہت سے لوگ بروقت طبی سہولیات نہ ملنے سے گھروں میں ہی انتقال کرگئے۔
جس کی تما م تر ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بروقت منصوبہ بندی کرتیں اور طبی ماہرین کی سفارشات پر شروع دن سے عمل کیا جاتا توصورتحال اتنی خراب نہ ہوتی جیسا کہ چاروں صوبے میں اب ہے۔ مگرابھی بھی وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کورونا ایمرجنسی سے نمٹنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل کیلئے لائحہ عمل بنائیں تاکہ آنے والے برسوں میں وبائی امراض اور دیگر بیمار یوں سے بہتر انداز میں نمٹا جاسکے۔ گز شتہ ماہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے پیش کردہ بجٹ میں کورونا وائرس سمیت دیگر وبائی امراض دوسری جانب صحت کے شعبہ کا بجٹ انتہائی کم ہے جس کو بین الاقوامی ادارہ برائے صحت کی کم ازکم مقرر کردہ حد تک بڑ ھایا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی ناگہانی ایمرجنسی صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹا جاسکے اور قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے۔ طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے پیدا ہونی والی ہولناک صورتحال کے سبب دیگر امراض ہٹنے کے بھی مستقبل میں خطرناک نتائج برامد ہوسکتے ہیں۔