وباؤں، جنگوں اور قدرتی آفات نے نہ صرف انسانی سماج کے معاشی نظام کو بہت تیزی سے متاثر کیا ہے بلکہ علمی زاویوں اور ادبی رویوں میں بھی بہت زیادہ تغیر پیدا کیا ہے، لیکن انسانی ذہنِ رسا کا کرشمہ رہا ہے کہ ہمیشہ ایسی صورتِ حال میں سماجی رابطوں، علم و ادب کی پرورش اور اس کے فروغ و اشاعت کے راستے نکال ہی لیتا ہے۔ اس سال کورونا کی مہلک وبا نے پوری دنیا کے نظامِ معاشرت، معیشت اور ثقافتی میل جول کے سارے پیمانوں کو تہس نہس کردیا، لیکن اس کے باوجود معاشی سرگرمیاں اور سماجی رابطے کسی حد تک جاری رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ادبی سرگرمیوں کے لیے ایک متبادل راستہ نکال لیا گیا۔ میں یہاں یہ بھی کہوں گا کہ وباؤں،جنگوں اور قدرتی آفات کے بپا ہونے کے بعد انسان نے سائنسی آلات اور سائنسی ترقی کے ذریعے ذہنی میکنزم کی کارکردگی کو بہت بڑھایا، بالکل ایسا ہی کورونا وبا کے زمانے میں ادبی رویوں اور ادبی محافل کے حوالے سے ہوا۔ آن لائن مشاعرے، آن لائن ادبی سرگرمیاں بالکل ایسی ہی افادیت کی حامل ہیں جیسے کہ کورونا وبا کے ان ایام میں آن لائن تدریس کا نظام شروع کیا گیا۔ گو کہ اس آن لائن تدریس کا لطف باقاعدہ تدریس جیسا تو نہیں ہے لیکن طلبہ کو مصروف رکھا گیا، ان کو گھر کا کام دیا گیا اور نفسِ مضمون سے ان کو ہمہ وقت منسلک رکھا گیا تاکہ ان کی تعلیمی یادداشت پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں، اور وہ تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے کسی نہ کسی طریقے سے کچھ ترقی کرتے رہیں اور کارکردگی میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور ہو-
بالکل یہی حال آن لائن مشاعروں کا ہے۔ باقاعدہ نشستوں اور مشاعروں سے جو کچھ سامعین، شعراء، ناقدین اور شعر و ادب کے طلبہ حاصل کرتے ہیں آن لائن مشاعروں کا لطف وہ تو نہیں، تاہم یہ بہرطور کسی نہ کسی صورت ادبی سرگرمیوں کے اجراء اور اس کی ترقی کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور کرتا ہے۔ کم از کم یہ شعراء کے درمیان رابطہ برقرار رکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوا ہے، اور وبا کے دنوں میں آن لائن مشاعروں، آن لائن ادبی ترقی اور سرگرمیوں کے حوالے سے سائنسی ترقی اور سوشل میڈیا کی افادیت دوچند ہو گئی۔ اس حوالے سے مجلسِ فخرِ بحرین کا کردار بہت قابلِ تعریف رہا ہے۔ محترم شکیل احمد صبرحدی اس حوالے سے ہمہ وقت ادبی سرگرمیوں کے اجراء اور ان کے انعقاد کے لیے سرگرم رہے۔ جوں ہی وبا کی وجہ سے باقاعدہ نشستوں اور مشاعروں کا سلسلہ منسوخ ہوا تو آن لائن مشاعروں اور نشستوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، اور انتہائی حسن و خوبی سے ان مشاعروں کا، ان نشستوں کا آغاز کیا گیا۔ گزشتہ دنوں مجلسِ فخرِ بحرین کے زیرِاہتمام ایک آن لائن عیدملن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت محترمہ ڈاکٹر نصرت مہدی نے فرمائی۔
مہمانِ خصوصی ڈاکٹر شعیب نگرامی تھے۔ آپ عربی ادبیات کے استاد اور اسکالر ہیں-
نظامت کے فرائض جناب عزیز نبیل اور جناب خرم عباسی نے ادا کیے۔
اس عید ملن مشاعرے میں شریک شعراء کے نام یہ ہیں: ۔
صدرِ مشاعرہ ڈاکٹر نصرت مہدی، جناب اجمل سراج، جناب شکیل اعظمی،جناب افضل خان، جناب آلوک سری واستو، جناب عزیز نبیل، جناب سالم سلیم، جناب سہیل ثاقب، جناب شیراز مہدی ضیاء، محترمہ غزالہ کامرانی، جناب احمد عادل، جناب رخسار ناظم آبادی، جناب احمد امیر پاشا، جناب سعید سعدی،جناب اسد اقبال۔
شعراء کے کلام کی ایک جھلک یہاں پیش کی جاتی ہے:۔
ڈاکٹر نصرت مہدی
رقصاں ہیں دعاؤں کے شجر عید مبارک
ہے نغمہ سرا برگ و ثمر عید مبارک
وہ لوگ جو بیٹھے پسِ دیوارِ اَنا ہیں
جا کہہ دے صبا جا کے ادھر عید مبارک
اجمل سراج
اس نے ہر صبح سے ہر شام کے قابل رکھا
یعنی آغاز سے انجام کے قابل رکھا
پھر مجھے گردشِ ایام میں ڈالا اس نے
پھر مجھے گردشِ ایام کے قابل رکھا
شکیل اعظمی
نہیں کسی کی نہیں ہے، نہیں کسی کی نہیں
سبھی کو جانا ہے اک دن زمیں کسی کی نہیں
یہ دنیا ایک عبادت کدہ ہے اور یہاں
تمام سجدے ہیں اس کے جبیں کسی کی نہیں
افضل خان
سوجھتا کچھ بھی نہیں جیب تراشی کے سوا
یعنی سب ٹھیک ہے حالاتِ معاشی کے سوا
تنِ برہنہ جو قطاروں میں لگے ہیں سن لیں
کچھ نہیں ہو گا یہاں جامہ تلاشی کے سوا
آلوک شری واستو
جن باتوں کو کہنا مشکل ہوتا ہے
ان باتوں کو سہنا مشکل ہوتا ہے
اس دنیا میں رہ کر ہم نے یہ جانا
اس دنیا میں رہنا مشکل ہوتا ہے
عزیز نبیل
سبھی رشتوں کے دروازے مقفل ہو رہے ہیں
ہمارے بیچ جو رستے تھے دلدل ہو رہے ہیں
ابھی تو دشت آئے گا پھر اس کے بعد جنگل
ابھی سے کیوں تمھارے پاؤں بوجھل ہو رہے ہیں
سالم سلیم
شہرِ ارزانی سے مجھ کو وہ نکالے گا مگر
کیا خبر تھی بے سر و سامان کر دے گا مجھے
منجمد کر دے گا مجھ میں آ کے وہ سارا لہو
دیکھتے ہی دیکھتے بے جان کر دے گا مجھے
سہیل ثاقب
میر کے شعر کو سینے سے لگاتے ہوئے تم
اچھے لگتے ہو محبّت کو سمجھتے ہوئے تم
وہم و ادراک گماں شک کی سبھی تاویلیں
میں تمہیں اور مجھے اتنا سمجھتے ہو تم
شیراز مہدی
میرا نہ برا مان یہ فطرت میں ملا ہے
لے دے کہ فقط گُر ہی وراثت میں ملا ہے
نیچے تو گرا ہے وہ مگر اب بھی ہے اونچا
ایک ابر کا ٹکڑا مجھے پربت میں ملا ہے
غزالہ کامرانی
مجھ کو بے حد تھی بے قراری رات
میں تو میں ہی نہیں تھی ساری رات
اس کے لہجے کی کاٹ ایسی تھی
بات ہر ایک تھی کٹاری رات
احمد عادل
وہ میرے ساتھ چلنے پر اگر تیار ہو جائے
بھلے دنیا کی جانب سے مجھے انکار ہو جائے
مرا فنِ اداکاری نمایاں ہو کے ابھرے گا
ذرا تیری کہانی میں میرا کردار ہو جائے
رخسار ناظم آبادی
جب ہمیں کوئی کام ہوتا ہے
تب دعا اور سلام ہوتا ہے
جو رہائش ہو عارضی اس میں
مستقل کب قیام ہوتا ہے
احمد امیر پاشا
ہم فقط دیکھنے کے خوگر ہیں
آنکھ کے پار بھی تو منظر ہیں
آؤ ملتے ہیں ایسے لوگوں سے
جن کی پیشانیاں منور ہیں
سعید سعدی
ہے ترے عشق کے خمار میں دل
اب نہیں میرے اختیار میں دل
اک زمانہ تھا دل کی سنتے تھے
اب کہاں ہے کسی شمار میں دل
اسد اقبال