آنسو

305

ہر طرف خوشی نظر آرہی تھی… پرندے چہچہا رہے تھے‘ پھولوں کی خوشبو دل کو بہا دینے والی تھی‘ ہری بھری گھاس‘ نیلا اورسیاہ آسمان‘ ہلکی ہلکی پھوار موسم نہایت ہی خوشگوار تھا۔
لیکن کیا یہ خوشیوں سے بھری زندگی میرے لیے بھی ہے؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتی اِدھر سے اُدھر چلی جارہی تھی‘ آنسو جو ضبط کیے تھے وہ دل پر بوجھ بن چکے تھے۔ اچانک ایک لمحے کو میں رکی‘ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے مجھے آواز دی اور اپنے پاس بلایا ہے۔ لیکن یہ کیا جس نے آواز دی وہ نظر نہیں آرہا تھا… دل میں خوف پیدا ہونے لگا‘سانس اکھڑنے لگی اچانک وہی جملہ میری سماعت سے ٹکرایا۔ اب مجھے یقین ہو چکا تھا کہ کوئی میرے قریب ہے۔ وہ جملہ دوبارہ میرے گوش سے گزرا ’’اے ظالم وقت آگیا ہے لوٹ چلو۔‘‘
میرے قدم جو رکے تھے وہ تیزی سے بڑھنے لگے… لمبے لمبے قدم اٹھاتے…بادل مزید سیاہ ہو گئے‘ اندھیرا‘ درختوں کی جھر جھری آواز‘ تیز بارش‘ آندھی‘ وحشت ناک ماحول… یک دم ہی فضا خوف ناک ہو گئی‘ وہ خوب صورت ماحول جس سے سکون حاصل کرنے آئی تھی میرے گلے کا طوق بن رہا تھا۔
موسلا دھار بارش‘ دھند جس کے باعث مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا‘ آنکھیں بند ہونے لگیں‘ غشی طاری ہونے لگی‘ اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے بھی سب دھندلانے لگا۔ تاہم اس کشمکش میں کہ یک دم میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور میں ایک گہری کھائی میں گر گئی۔ شور بھی مچایا کوئی مجھے باہر نکالے لیکن کوئی سننے والا نہیں تھا‘ بس وہی آواز میری جانب بڑھتی رہی۔ آنکھیں بند ہونے لگی‘ کھولنا بھی چاہوں لیکن نہ کھول سکی۔
…٭…
آنکھ کھلی تو خود کو اسپتال میں پایا‘ زخموں سے بھرا جسم‘ تھکی ہاری‘ زبان بے جان ہو چکی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے جکڑ لیا ہو‘ ماں کو دیکھا تو آنکھیں بھیگ گئیں… آنسو گال کو چھوتے ہوئے الوداع کہہ گئے‘ زبان سے آخری بار ایک لفظ ادا ہوسکا ’’ماں اندھیرا‘‘ وہی آواز میری کانوں سے ٹکرائی اور مسلسل ٹکراتی چلی گئی۔ یکایک آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی‘ روح فلک میں پرواز کر گئی۔
…٭…
ہول ناک منظر‘ خوف ناک فرشتے‘ اندھیری قبر‘ چیخ اور درد سننے والا کوئی نہیں‘ مایوسی کا عالم… یا خدا کدھر آپہنچی‘کیڑے‘ سانپ‘ بچھو… آہ! مجھے درد ہو رہا ہے‘ کوئی تو مجھے بچائے‘ قیامت کا منظر‘ اعمال نامہ خالی‘ بدی سے بھرا ہوا۔ رب نے پوچھا اے بندی! کیا لے کر آئی؟ جواب میں شرمندگی‘ جان اُس رب کی ملکیت تھی لیکن اس کا استعمال غلط۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

آہ! افسوس مجھ پر۔ رب کا حکم‘ عذاب ہی عذاب‘ زندگی کو تماشا میں نے بنایا‘ رب سے ملاقات کا کبھی میں نے سوچا نہیں۔ لوگوں کی خوشی کبھی مجھے راس نہیں آئی۔ حسد‘کینہ میرے اندر۔ موسیقی‘ ناچ…آہ! عذاب ہی عذاب‘ جہنم کی شدت… کبھی رب کو یاد نہیں کیا‘ کبھی خود بھی خوشی حاصل نہیں ہوئی‘ کتنی نافرمان تھی میں‘ رب کی بھی‘ ماں باپ کی بھی۔
یا اللہ معاف کردے۔ جواب ملا ’’کوئی فریاد سنی نہیں جائے گئی… تو دھتکاری ہوئی ہے‘ تجھے گناہ کرتے ہوئے شرم نہیں آئی‘ لوگوں پر تعویذ گنڈے کرتے ہوئے شرم نہیں آئی‘ تیرے لیے رحمت کے دروازے بند کر دیے گئے‘ اب تو جہنم کا ایندھن بنے گئی‘ یہی تیرا ٹھکانہ ہے۔‘‘
…٭…
آج ہم دنیا کی زندگی میں کتنے ہی مصروف ہوگئے ہیں‘ دنیا کی خواہشات کے پیچھے چلنے لگے ہیں‘ کیا ہم دوزخ کے عذاب کو یاد کرنا بھول چکے ہیں‘ جو ہماری نفس کی خواہشات کے ذریعے ہمارے اعمال میں شامل ہو چکا ہے۔ ہمیں اپنے آپ پر قابو پانا ہوگا کیوں کہ یہ دنیا عارضی ہے باقی رہ جانے والی آخرت ہے۔
تو عزیزو! اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دو‘ اپنے اعمال بہتر بنانے کی کوشش کرو تاکہ آخرت کے عذاب سے بچ سکو…جنت کو پانے کے لیے جدوجہد کرو…یہی فلاح کا راستہ ہے۔ اللہ ہمیں خواہشات کے پیچھے چلنے سے بچائے اور جنت کو ہمارے لیے مسخر کر دے۔ (آمین)

حصہ