’’وقاص! جلدی آئو، اسکول سے دیر ہورہی ہے، ابھی بے بی کو ڈے کیئر چھوڑنا ہے اور مجھے آفس بھی جانا ہے، تمہیں پتا ہے ناں کہ صبح کا ٹائم کتنا تھوڑا ہوتا ہے، جلدی جلدی منہ چلائو، ناشتا کرتے ہوئے تم یہ بھول جاتے ہو کہ آگے سو کام ہیں جنہیں میں نے کم مدت میں پورا کرنا ہے۔‘‘
صائمہ ہر صبح کی طرح وقاص پر چیخ رہی تھی۔ خیر ناشتا ختم ہوا اور صائمہ نے وقاص کو اسکول اور بے بی کو ’’ڈے کیئر‘‘ چھوڑا، پھر خود آفس چلی گئی۔
’’دو بجے لنچ بریک میں وقاص کو اسکول سے لینا ہے اور پھر دونوں کو گھر چھوڑنا ہے۔ ابھی دو بجنے میں آدھا گھنٹہ ہے۔ میں جلدی جلدی کام نمٹا لیتی ہوں‘‘۔ صائمہ نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔ صائمہ شام چھ بجے گھر پہنچی تو کھانا تیار تھا، بے بی سو رہی تھی اور وقاص ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ ماسی نے گھر کا کام کرلیا تھا اور صبح جیسی ہنگامہ آرائی ختم ہوچکی تھی۔ شام اگرچہ اداس تھی مگر صائمہ نے سُکھ کا سانس لیا اور کچھ دیر آرام کے بعد سب نے مل کر کھانا کھایا۔ رات کے کھانے کے برتن دھونا وقاص کی ذمہ داری تھی، چنانچہ وہ بہت مستعدی سے اٹھا اور اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا کر سو گیا۔ زندگی ایک ڈگر پر چلی جارہی تھی۔ یونہی صبح ہوتی اور یونہی شام ہوتی۔ صائمہ کی ذمہ داریاں آہستہ آہستہ بڑھتی جارہی تھیں۔ لڑکی ہونے کے ناتے دفتر میں ترقی کے مواقع بھی زیادہ تھے۔ ترقی ہوئی تو نئی گاڑی بھی آگئی۔
گاڑی کو صاف رکھنا، اس کا پانی دیکھنا، اس کے ٹائروں میں ہوا چیک کرنا اور پیٹرول کی سوئی پر نظر رکھنا وقاص کا کام تھا۔
اسکول سے واپس آکر وقاص گھر کے چھوٹے موٹے کام کردیتا۔ بے بی کے ساتھ کھیلنا، اسے فیڈر بناکر دینا، اس کے کپڑوں کو تہہ کرنا، حتیٰ کہ اس کا ڈائپر تبدیل کرنا بھی وقاص کا ہی کام تھا۔ بے بی کے سر پر بہت اچھی مالش کرتا، اسے مالش کے بعد خوب گہری نیند آتی اور اس دوران وقاص ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام پورے سکون سے دیکھتا۔ ہفتے کو صائمہ وقاص اور بے بی کو لے کر تفریح کا پروگرام بناتی۔ صائمہ بے بی کو اٹھا نہیں سکتی تھی، اس کے کندھے درد کرنے لگ جاتے۔ وقاص یہ ذمہ داری بھی بخوبی ادا کرتا۔
اتوار کا دن کپڑے دھونے اور پورے ہفتے کے لیے سامان جمع کرنے میں لگ جاتا۔ یہ چھوٹی سی فیملی ہمارے پڑوس میں آکر رہی۔ میں نے آج تک وقاص کو نہیں دیکھا، مگر نہ جانے کیوں مجھے اس پر بہت ترس آتا۔ ہر کام کے لیے وقاص کو آواز دی جاتی۔ دودھ اگر اُبل جائے تو وقاص کی شامت آجاتی۔ بے بی اگر کوئی چیز توڑ دے تو وقاص کی لاپروائی کے سر تھوپ دی جاتی۔ وقاص! جوتے پالش کردو، وقاص سبزی لا دو، وقاص پھلوں کو دھو کر فریج میں رکھ دو، موبائل میں کارڈ انٹر کردو وغیرہ وغیرہ۔
میں پہلے ہی چائلڈ لیبر کے خلاف ہوں، روزانہ سوچتی کہ آج صائمہ کے گھر جائوں گی اور اسے سمجھائوں گی کہ وقاص سے اتنا کام نہ لیا کرو، وہ بیمار ہوگیا تو اتنے زیادہ کام کون کرے گا؟ صائمہ کی امی آئی ہوئی تھیں۔ سوچا اس بہانے اس کے گھر چلی جاتی ہوں۔ پہلی دفعہ گھر آئی۔ گھر صاف ستھرا تھا۔ ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ صائمہ کی امی سے سلام دعا ہوئی۔ وہ صائمہ کی بے انتہا تعریفیں کررہی تھیں۔ وہ بتا رہی تھیں کہ جب صائمہ میرے ساتھ ہوتی ہے تو مجھے بہت بے فکری ہوتی ہے، اسے بہت سے راستوں کا پتا ہے، مردوں سے اتنی مہارت سے بات کرتی ہے کہ کیا کہنے۔ بے انتہا پُراعتماد ہے میری بیٹی… میرا جی چاہا کہ وقاص کے بارے میں پوچھوں، مگر خاموش ہوگئی۔ وقاص اور چائلڈ لیبر کا مسئلہ میں نے اگلی ملاقات کے لیے ملتوی کردیا۔ صائمہ کی امی ایک ہفتہ رہیں۔ آج اُن کے گھر سے بہت آوازیں آرہی تھیں۔ صائمہ وقاص کے ساتھ جس طرح سلوک کررہی تھی امی کو وہ ہرگز پسند نہیں آرہا تھا۔ وہ صائمہ پر برس پڑیں۔ میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ آج وقاص کے حق میں بھی کوئی بولنے والا موجود ہے۔ اگرچہ تجسس برا ہے مگر میں نے کوشش کی کہ سنوں کہ وقاص کے حق میں صائمہ کی امی کیا دلائل دیتی ہیں، اور جتنا بھی سنتی گئی، میرے پائوں تلے سے زمین سرکتی گئی۔ وقاص اسکول جاتا ہے کیوں کہ وہ اسکول کے فنانس ڈپارٹمنٹ میں اکائونٹنٹ ہے، وقاص چھوٹا بچہ نہیں بلکہ صائمہ کا شوہر ہے۔ میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی جب صائمہ کہہ رہی تھی کہ امی یہ کماتا ہی کیا ہے؟ بس چند ہزار، اور میری تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہے۔ میں اس کی عزت کیوں کروں؟ جب کہ میں اس کی کم تنخواہ کی وجہ سے نوکری کرنے پر مجبور ہوں۔
اور امی انگشت بدنداں تھیں کہ مجھ سے غلطی کہاں رہ گئی۔ کیا معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے، کیا اخلاقیات اتنے لٹ چکے ہیں، کیا قوّام کی حیثیت قوام (چینی کا شیرہ) جیسی رہ گئی! وہ دور کہاں گیا جب خواتین گھروں میں سکون و اطمینان سے رہتی تھیں اور مرد باوقار طریقے سے نوکری کرکے پیسے کماتا۔ دونوں ہنسی خوشی چٹنی سے روٹی کھا لیتے۔ مرد کا وقار تھا، دبدبہ تھا، رعب تھا۔ مرد کے فیصلے کے آگے کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ سرموانحراف کرسکے۔ وہ مشورہ ضرور کرتا تھا لیکن آخری بات مرد ہی کی ہوتی تھی۔کیا آپ کو بات سمجھ میں آئی؟ صائمہ کی امی اور میں تو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درست فرمایا کہ ’’میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘ (مفہوم)۔ اس فتنے کی ہوس میں پڑ کر اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی فکر میں لگ کر آج مرد اور عورت شانہ بشانہ نوکریاں کرتے ہیں اور مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔ گھریلو اخراجات اتنے زیادہ کرلیے ہیں کہ ان کو پورا کرنا اکیلے مرد کا کام نہیں۔ عورت کو بھی ساتھ دینا پڑتا ہے۔ اس لیے مرد بھی عورتوں کی طرح گھریلو کاموں میں اور بچے پالنے میں عورتوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور عورت کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں۔