یہود سے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

769

باوجود اس کے کہ یہودیوں کو قرآن میں ملعون و مغضوب قرار دے دیا گیا ہے اور کہہ دیا گیا ہے کہ یہ جہاں کہیں بھی ہوں، ان پر ذلت کی مار ہے۔ قرآن کے اس فرمان کی صداقت مسلم، مگر ذرا سی کھٹک یہ پیدا ہوتی ہے کہ یہ غالب کیوں آگئے اور فلسطین کی ریاست کے قیام کی بنا پر عرب و عجم پر ان کا سکہ کیوں چلنے لگا کہ آج پورا عرب شاید ہی ان کے مقابلے میں آسکے۔ آل عمران (۳) کی آیات ۱۱۱ اور ۱۱۲ میرے پیش نظر ہیں۔ یہاں یہ فقرہ بھی موجود ہے: ’’ان پر محتاجی و مفلوکی مسلط کر دی گئی ہے‘‘۔
جواب: أمين أحسن إصلاحي ،قرآن مجید میں یہود کے متعلق کوئی پیشین گوئی ایسی نہیں کی گئی ہے جس کی بعد کے حالات و واقعات سے تردید ہو رہی ہو، لیکن لوگ عام طور پر اپنے ذہن میں کوئی مفروضہ قائم کرتے ہیں اور پھر اس مفروضہ کی روشنی میں حالات کو دیکھتے ہیں اور جب حالات اور ذہنی مفروضہ میں مطابقت نہیں پیدا کر پاتے تو شبہات میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جب قرآن میں پیشین گوئی اس طرح کی گئی تھی تو واقعات و حالات اس کے خلاف کیوں جا رہے ہیں؟ حالاںکہ اختلاف اگر ہو گا تو ان کے ذہنی مفروضہ اور واقعات میں ہو گا، نہ کہ قرآن مجید میں اور تاریخ سے ثابت شدہ حالات میں۔ آپ نے آل عمران کی جس آیت کی بنا پر سوال کیا ہے، وہ آیت قرآن مجید میں اپنے سیاق و سباق کے ساتھ اس طرح ہے:
وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَ کْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ اَذًی وَاِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ۔ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِحَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔ لَیْسُوْا سَوَآئً مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآئَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ۔ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ۔(۳: ۱۱۰-۱۱۵)
’’اگر اہل کتاب (بنی اسرائیل) ایمان لے آتے تویہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ مومن ہیں اور اکثر فاسق ہیں۔ یہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، مگر یہ کہ زبان درازی کر لیں۔ اور اگر یہ تم سے جنگ کے لیے نکلیں گے تو تمھیں پیٹھ دکھائیں گے۔ پھر ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ نکلے گا۔ یہ جہاں کہیں بھی ہیں، ان پر ذلت کی مار ہے، مگر اللہ کے ذمہ کے تحت یا لوگوں کے کسی معاہدہ کے تحت۔ یہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں اور یہ جسارت انھوں نے اس سبب سے کی کہ انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور یہ حد سے بڑھ جانے والے تھے۔ سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان اہل کتاب میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اللہ کے عہد پر قائم ہے۔ یہ رات کے وقتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں۔ یہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہیں اور نیکی کے کاموں میں مسابقت کرتے ہیں، یہ لوگ صالحین میں سے ہیں۔ اور جو نیکی بھی یہ کریں گے، اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اللہ متقیوں کو جانتا ہے۔‘‘
اس پورے سلسلۂ کلام کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر آپ زیربحث سوال پر غور کریں گے تو یہ حقیقت آپ پر واضح ہو گی کہ یہاں یہود کا وہ اخلاقی اور سیاسی زوال بیان ہو رہا ہے جس میں وہ ان آیات کے نزول کے زمانہ میں مبتلا ہو چکے تھے۔ ان یہود کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ تمھارے مقابل میں نہیں آ سکتے۔ اور اگر آئیں گے تو منہ کی کھائیں گے۔ ان کے حوصلے پست ہو چکے ہیں اور ان کی ہمتیں ٹوٹ چکی ہیں۔ ان کی مسلسل بدعملیوں کے سبب سے ان پر ذلت اور پست ہمتی کی موت طاری ہو چکی ہے۔ اب اگر یہ کہیں کھڑے نظر آرہے ہیں تو اپنے بل بوتے پر نہیں کھڑے ہیں۔ یا تو اللہ کے ذمہ نے ان کو امان اور پناہ دے رکھی ہے یا لوگوں کے ساتھ کسی معاہدے کا انھوں نے سہارا حاصل کر رکھا ہے۔
غور کیجیے کہ قرآن مجید نے ان کے بارے میں یہ جو باتیں فرمائی تھیں، وہ حرف حرف کس طرح پوری ہوئیں۔ یہود آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مقابل میں کھلم کھلا میدان جنگ میں اترنے کی جرأت کبھی نہ کر سکے۔ اور اگر پس پردہ کبھی آئے بھی تو انھیں منہ کی کھانی پڑی۔ ان کے جو قبائل مدینہ کے قرب و جوار میں آباد تھے، ان کو یکے بعد دیگرے نہایت ذلت کے ساتھ اپنی بستیاں خالی کرنی پڑیں، یہاں تک کہ حضرت عمر نے ان کو اپنے دور خلافت میں یک قلم جزیرۂ عرب ہی سے جلاوطن کر دیا اور اس کے بعد جہاں بھی ان کو امان ملی یا تو اسلام کے ذمیوں کی حیثیت سے امان ملی یا پڑوسیوں کے رحم و کرم پر انھیں زندگی کے دن گزارنے پڑے۔ کہیں بھی ان کی یہ حیثیت نہیں باقی رہی کہ وہ ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے اپنے بل بوتے پر زندگی بسر کر سکیں ــــ مذکورہ بالا آیات کے الفاظ پر اچھی طرح غور کر کے بتائیے کہ ان میں کون سا لفظ ایسا ہے جس کی صداقت بعد کے واقعات نے ثابت نہ کر دی ہو؟
مذکورہ بالا پیشین گوئی کے علاوہ یہود کے بارے میں ایک اور پیشین گوئی سورۂ اعراف میں ان الفاظ میں وارد ہے:
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُھُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (۷:۶۷ ۱)
’’اور یاد کرو، جبکہ تیرے رب نے فیصلہ کیا کہ ان کے اوپر قیامت تک وہ ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو برے عذاب چکھائیں گے۔ بے شک، تیرا رب جلد پاداش دینے والا ہے اور وہ غفور رحیم ہے۔‘‘
یہ پیشین گوئی جس بات کی خبر دیتی ہے، وہ صرف اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو قیامت تک برے عذاب چکھاتے رہیں گے۔ اس میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ بیچ بیچ میں ان کو وقفے اور مہلتیں نہیں ملتی رہیں گی، بلکہ آیت کے آخری الفاظ ’اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘ سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ خدا ان کی سرکشیوں پر ان کو سزا بھی بھرپور دے گا اور ان کو اپنے قانون کے مطابق مہلتیں بھی عطا فرمائے گا۔
چنانچہ یہود کی تاریخ اور بائیبل ہسٹری کا مطالعہ کیجیے تو آپ اس امر کا اعتراف کریں گے کہ یہود کی تاریخ کا کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس میں انھوں نے اپنی سرکشی کی پاداش میں سوء عذاب کا مزہ نہ چکھا ہو۔ میرے لیے ان کی تاریخ کے اس طرح کے سارے واقعات کا حوالہ دینا اس مختصر جواب میں ممکن نہیں ہے۔ میں صرف ان چند واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں جو یہود کے لیے قومی اور اجتماعی عذاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ سب سے پہلے مصر میں فرعونیوں کے ہاتھوں پامال ہوئے۔ پھر بنو خد نصر (مشہور بخت نصر) کے ہاتھوں ان کی پوری قوم کی قوم کو اسیری اور غلامی کی ذلت نصیب ہوئی۔ پھر ٹیٹس رومی نے ان کو تاراج کیا۔ پھر عیسائیوں کے ہاتھوں ان کو ذلتیں نصیب ہوئیں۔ پھر مسلمانوں نے ان کو ذمی بنایا۔ اب اس دور آخر میں ہٹلر نے ان کو سوء عذاب کا مزہ چکھایا۔
اس مسلسل عذاب کے دوران میں ان کو مہلت کے وقفے بھی ، جیسا کہ عرض کیا گیا ہے، برابر ملتے رہے ہیں اور ان وقفوں میں یہ زور و قوت بھی حاصل کر لیتے رہے ہیں، لیکن یہ زور و دبدبہ جب ان کے مزاج میں فساد پیدا کر دیتا تو اللہ تعالیٰ پھرا ن پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیتا جو ان کا سر غرور کچل کے رکھ دیتے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں یہ بات بڑی وضاحت سے بیان ہوئی ہے، براہ کرم اس پر ایک نظر ڈال لیجیے، اس سے بہت سی گرہیں کھل جائیں گی۔
اب اس سوال پر غور کیجیے کہ کیا فلسطین میں یہود کی ایک سلطنت قائم ہو جانے سے قرآن کے ان بیانات کی کسی نوعیت سے تردید ہوتی ہے جو اس نے آل عمران اور اعراف کی مذکورہ آیتوں میں دیے ہیں؟
آل عمران کی آیت سے متعلق ہم واضح کر چکے ہیں کہ اس کا کوئی تعلق بھی مستقبل سے نہیں ہے، بلکہ صرف حاضر سے ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس کو مستقبل سے متعلق کرنے پر اصرار ہی کرے تو اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس میں یہود کے لیے جس ذلت و مسکنت کی خبر دی گئی ہے، اس میں ’اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ‘ کا ایک استثنا بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی کسی امان کے تحت یا کسی قوم کے ساتھ معاہدے کے تحت ان کو وقتی طور پر اس ذلت سے مہلت بھی مل سکتی ہے۔ چنانچہ سلطنت اسرائیل ہمارے نزدیک اسی طرح کی ایک مہلت کا مولود فساد ہے جو برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ یہود کے ناجائز رشتہ سے ظہور میں آیا ہے۔ اس کو یہود کی اپنی کمر کے زور کا نتیجہ جو لوگ سمجھتے ہیں، وہ اسرائیل کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ اس کا ظہور بھی برطانیہ اور امریکہ کی سازش سے ہوا ہے اور اس کا قیام بھی ابھی تک امریکہ اور برطانیہ ہی کے رحم و کرم پر ہے۔
اسی طرح اعراف کی آیت میں جو پیشین گوئی ہے، اس کے متعلق ہم واضح کر چکے ہیں کہ مختلف عذابوں کے بیچ بیچ میں یہود کو کوئی مہلت مل جانا اس کے منافی نہیں ہے۔ اس طرح کی مہلتیں انھیں پچھلے عذابوں کے بعد بھی مل چکی ہیں، اور اسی طرح کی ایک مہلت اب بھی انھیں ملی ہے۔ بعض لوگوں کا جو یہ خیال ہے کہ یہود کے صحیفوں میں اس امر کی پیشین گوئی موجود ہے کہ ایک طویل انتشار اور ابتری کے بعد یہود آخری دور میں ارض مقدس میں پھر جمع ہوں گے، تو میں اس خیال کی تردید نہیں کرتا۔ قدیم صحیفوں کے بعض اشارات کو اس مفہوم میں لیا جا سکتا ہے۔ میرے استاذ مولانا فراہی بھی فرماتے تھے کہ اس قسم کے اشارات صحف قدیم میں موجود ہیں، بلکہ وہ تو سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۱۰۴ ’وَّقُلْنَا مِنْ م بَعْدِہٖ لِبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اسْکُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا‘ (اور ہم نے اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اس سرزمین پر رہو پس جب آخری بار کا وعدہ ظہور میں آئے گا تو ہم تم کو جمع کریں گے گروہ در گروہ) کی تاویل اس سورہ کی شروع کی آیتوں کی روشنی میں کرتے تھے، اور اس سے یہ اشارہ نکالتے تھے کہ یہود انتشار اور ابتری کے بعد آخری دور میں ایک مرتبہ ارض مقدس میں پھر مجتمع ہوں گے، لیکن ساتھ ہی انھی آیات کی روشنی میں ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اس اجتماع کے بعد ان کی طرف سے جو سرکشی ظہور میں آئے گی، اس کے نتیجہ میں ان کے اوپر خدا کا آخری عذاب نازل ہو گا جو ان کی کمر توڑ کے رکھ دے گا۔ ’واللّٰہ أعلم بالصواب‘۔
آخر میں ایک اور حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا ہم ضروری سمجھتے ہیں، وہ یہ کہ مسلمانوں کو اس طرح کی پیشین گوئی پر قومی نخوت سے اپنے ذہن کو پاک کر کے غور کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی قوم سے اس کے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے نہ نفرت ہے، نہ محبت۔ اس کی نفرت و محبت قوموں سے ہمیشہ ان کے اعمال کی بنا پر ہوا کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جس قوم کو خدا نے مسلمانوں کے ہاتھوں جلا وطن کرایا تھا، اسی قوم کو عین مسلمانوں کے وسط میں دوبارہ اس لیے مجتمع کر دیا ہو کہ مسلمانوں کو تنبیہ ہو کہ اب ان کی نالائقی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ خدا نے ان کو ایک مغضوب قوم کے فتنوں کا نشانہ بنا دیا ہے۔ اگر مسلمانوں نے تنبیہ سے فائدہ اٹھایا تو ان شاء اللہ سلطنت اسرائیل کا آخری قلع قمع مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ہو گا۔

حصہ