پروفیسر عنایت علی خان

370

وہ فاران کلب کی شام یادوں میں محفوظ ہے۔بزم ساتھی کی سالانہ تقریب تھی۔ساتھی رسالے کے مدیر عبد الرحمان مومن نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل میری نئی کتاب” احوال دیگر”چھپی تھی۔وہ کتاب میں مہمان خصوصی ودیگر مہمانان گرامی کے لیے لے کر گئی۔
ہمارے پروگرام چاہے ادبی نوعیت کے بھی ہوں ان میں الحمدللہ اختلاط کی گنجائش نہیں ہوتی۔
خواتین وحضرات کی نشستیں اور خاطر تواضع کے لیے علیحدہ حصے مختص کیے جاتے ہیں۔
ہال کے دائیں جانب مرد حضرات کی نشستیں تھیں۔بائیں جانب خواتین۔
نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔
دوران پروگرام میرے پاس سے ایک بچی گزری میں نے کہا وہ مردانہ حصہ میں پہلی نشست پر جو سفید کپڑوں میں بزرگ ہیں یہ کتاب انھیں دے دو۔
بچی کتاب دے کر دوسرے دروازے سے نکل گئی مجھے فکر رہی کہ کتاب انھیں ہی ملی یا بچی نے کسی اور کو تھما دی۔
اس پیرانہ سالی میں میری کتاب ان کی ترجیحی فہرست میں شامل بھی ہوسکے گی یا نہیں۔بے وجہ ہی خیال آیا۔
یہ بتادوں کہ کسی دعوت نامے پر پروفیسر عنایت اللہ خان کا نام پروگرام کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
کئی پروگراموں میں انھیں کرسئ صدارت پر براجمان دیکھا۔
وہ صرف شاعری مزاحیہ نہیں کرتے تھے۔سراپا شگفتگی تھے۔واقعی ان کی موجودگی پروگرام میں جان ڈال دیتی۔لوگ ان کو سننے کے انتظار میں تادیر محفل میں بیٹھے رہتے۔
مشاعرے عموما رات گئے تک چلتے ہیں۔۔اکثر ان کو آن لائن دیکھنے،سننے کا بھی موقع ملا۔۔وہ نہ بور ہوتے تھے نہ ہونے دیتے تھے۔
ایک شاعر عطیہ خداوندی ہوتا ہے۔
شاعر اپنے شوق سے نہیں بنا جاسکتا۔شاعر ہونا تو ان کی ایک صفت ہے۔ان کی اصل صفت یہ ہے کہ وہ ایک داعی تھے۔ایک مشن رکھتے تھے۔جو مشنری فرد ہوتا ہے اس کا پورا کردار اس مشن کے گرد گھومتا ہے۔
وہ چاہے شاعری کرتے یا نثر لکھتے گفتگو کرتے یا خطاب۔۔ان کی داعیانہ تڑپ دیکھنے کی چیز تھی۔
آسان کام نہیں ہے زندگی کو ایک مشن کے نام کردینا۔
مشن بھی انبیاء کا مشن۔۔جس میں دنیا تنہا کردیتی ہے ۔کبھی آپ کے حصہ میں طائف کی وادیاں آتی ہیں تو کبھی شعب ابی طالب۔
85 برس اس رستے پر جی کر جانا کوئی معمولی بات نہیں۔
مشن بوجھل ہے مگر اس رستے کو ایسے باغ وبہار بنانا کہ لوگ کھنچتے چلے آئیں۔
پروفیسر عنایت ایک نام نہیں تھا وہ ایک استعارہ تھے۔اقامت دین کی جدوجہد کا۔
ان کی شاعری بھی دعوت تھی،تبلیغ تھی۔
ان کی جو عاجزی و انکساری تھی وہ اسی مشن کی دین تھی۔سراپا عجزوانکسار۔
ان کے برابر میں چاہے جتنی قدرآور شخصیت بیٹھی ہو اسٹیج پر وہ مرعوب دکھائی نہ دیتے تھے۔وہ حاضروموجود سے پرے دوسری ہی دنیا کے باسی تھے۔
یہ عاشق جانے کن بستیوں سے آتے ہیں۔اللہ کے یہ ولی بظاہر لوگوں کے بیچ ہوتے ہیں لیکن ان کی اپنی آباد دنیا ہوتی ہے وہ جہاں تک ہر خاص و عام کی رسائی ممکن بھی نہیں ۔
وہ صوفی بزرگ تھے لیکن وہ صوفی نہیں جو جلوتوں سے خلوتوں کی طرف بلاتے ہیں بلکہ وہ صوفی جو خلوتوں سے جلوتوں یعنی انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف دعوت دیتے تھے۔
ایک ہمہ جہت کردار کے مالک۔۔
بچوں کے ساتھ مل کر نظمیں پڑھنے،ان کا تلفظ درست کرنے والے۔کھیل کھیل میں انھیں زندگی کی اعلیٰ قدروں اور روایات سے جوڑنے والے۔۔
سب سے اچھی بات جو ایکسپو سینٹر کتاب میلہ کے پروگراموں میں بار ہا دیکھی وہ ان کا بچوں کو دیکھ کر کھل اٹھنا اور بچوں کے ساتھ بچہ بن جانا تھا۔۔
ہاں تو اس فاران کلب کی تقریب کو دو ہفتے ہوئے ہونگے کہ سنڈے میگزین ہاتھ میں آیا تو میری کتاب پر ان کا تبصرہ بھی شامل اشاعت تھا۔۔
یقین نہ آیا۔ان کے تبصرے نے کتاب کو معتبر کردیا میری نظر میں۔۔جہاں ایک طرف انھوں نے ستائشی کلمات کہے وہاں کمزوریوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔۔اصل محسن وہی ہوتا ہے جو آپ کو غلطیاں بتا کر آگے کی راہ سمجھاتا ہے۔
آپ جانیں کہ کتاب کو سرسری دیکھنا چند ستائشی جملے لکھ دینا اور دوسری طرف پروف کی غلطی پر توجہ دلانا۔کسی شعر میں لفظ آگے پیچھے ہوگیا اس کے وزن کی طرف توجہ دلانا۔بڑا سیر حاصل تبصرہ ان کا۔میں نے سوچا یہی بڑائی ہے دوسرے کو آگے بڑھانا اس کی قدر دانی کرنا۔
میرے تو تصور میں نہیں تھا کہ وہ تبصرہ کریں گے۔اتنے بڑے آدمی سے ایسی توقع زیب بھی نہیں دیتی۔
وہ ہمیں سکھا کر گئے،بتا کر گئے کہ قافلے کیسے ترتیب دیے جاتے ہیں۔
وہ بہت بڑے آدمی تھے،سچے داعی دین۔جس نے ان کا درس قرآن سناہو یا سیرت پاک ﷺ کے پروگرام میں ان کی گفتگو۔۔
ان کی رقت ان کے ایمان کی سچی گواہی دیتی تھی۔
اللہ کا ایک عاشق کم ہوگیا اس دنیا میں۔
ہم نے ان کے بارے میں لکھ دیا،کہہ دیا۔حق ادا ہوگیا؟؟
ایسے لوگ صدیوں میں دوچار ہی پیدا ہوتے ہیں۔
جئے اور خوب جئے اور بتا کر گئے کہ جی داروں کی طرح کیسے جیتے ہیں۔
ایک درویش،فقیر منش انسان تھا،نہ رہا۔
ہونا یہ چاہیے ان کے نام کی اکیڈمی بنے۔
ان کے کام پر تحقیق ہو۔
کوئی ان کی ذات کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع بنائے۔
اشاعتی ادارے ان کے صدقۂ جاریہ کے طور پر ان کی کتابیں چھاپیں۔ ہماری ذاتی لائبریری میں ان کی کتب ہوں۔
ہم تحائف میں ان کی کتب دے کر ان کے نام کو زندہ رکھیں۔
زندہ تحریکیں،زندہ معاشرے اپنی تابندہ شناخت رکھتے ہیں۔
وہ اپنے حصے کے دئے جلا گئے۔ہم میں کتنی سکت ہے کہ ان دیوں کی روشنی کو مدھم نہ ہونے دیں۔

حصہ