صحافت کا درخشاں ستارہ

460

کورونا وائرس کے باعث پچھلے کئی ہفتوں سے میں جسارت کے آفس نہیں گیا۔ اپنے مضامین چونکہ بذریعہ ای میل بھیج دیا کرتا ہوں اس لیے بھی دفتر کا چکر نہ لگ سکا۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ کورونا وائرس کے حملے تھمتے ہی یا اس کی شدت میں کمی آتے ہی دفتر جاکر تمام ساتھیوں خصوصاً مدیراعلیٰ جسارت اطہر علی ہاشمی صاحب سے ملاقات کروں۔ اس سلسلے میں مَیں نے سنڈے میگزین کے انچارج محترم اجمل سراج سے بات کی تو انہوں نے کہا: ٹھیک ہے جیسے ہی حالات اچھے ہوں دفتر ضرور جانا، یہ اچھی بات ہے، اور ویسے بھی ہاشمی صاحب تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
اجمل سراج سے بات کرنے کے بعد میں نے پروگرام بنایا کہ عید کے فوراً بعد دفتر ضرور جاؤں گا۔ سنڈے میگزین کی کاپی جمعرات کو جاتی ہے اس لیے جب اجمل سراج کا فون آیا تو سننے سے پہلے ہی میں نے اندازہ لگا لیا کہ آج دفتر جانا ہوگا۔ لیکن کیا خبر تھی کہ ان کی جانب سے مجھے ایک ایسی افسوس ناک اور رنجیدہ خبر سننے کو ملے گی جسے سنتے ہی میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی۔ آہ، ہاشمی صاحب اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ہاشمی صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ وہ انتہائی نفیس شخصیت کے حامل اور علم و ادب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ گوکہ آج صحافت کا ایک روشن ستارہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا، لیکن ان کی تحریریں رہتی دنیا تک آسمانِ ادب کو منور کرتی رہیں گی۔
مجھے یاد ہے جب میں نے میدانِ صحافت میں قدم رکھا تو ہاشمی صاحب کے ظاہری رعب و دبدبے کی وجہ سے اُن سے کچھ فاصلے پر رہتا اور دور دور سے سلام دعا کرلیا کرتا تھا۔ وہ انتہائی سنجیدہ مزاج رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ مزاح بھی سنجیدہ انداز میں کیا کرتے۔ ان کا معمول تھا کہ دفتر پہنچتے ہی اپنے چیمبر میں جا بیٹھتے اور لکھنے لکھانے میں مصروف ہوجاتے۔ جب لکھنا شروع کرتے تو ان کے چیمبر میں کوئی نہ جاتا۔ یہ اعزاز اجمل سراج کو حاصل تھا کہ وہ ہاشمی صاحب کے پاس اس دوران بھی جا بیٹھتے جب وہ کسی اہم مسئلے پر لکھ رہے ہوتے تھے۔ ایسے میں بھلا میں کیسے پیچھے رہ سکتا تھا! میں بھی ہاشمی صاحب سے ملاقات کے لیے اُن کے چیمبر میں جا بیٹھتا جہاں خاصی دیر تک شعر و ادب کی محفل گرم رہتی۔ مجھے اس محفل سے وہ کچھ سننے اور سیکھنے کو ملا جو شاید میری زندگی کی حسین یادوں میں سے ایک ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں دفتر گیا ہوں اور ہاشمی صاحب سے نہ ملا ہوں۔ ہاں ایک مرتبہ ضرور ایسا ہوا کہ میں دفتر میں موجود تھا اور ہاشمی صاحب کچھ دیر سے آئے جس کی وجہ سے میری اُن سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اگلے ہفتے مجھے اپنے چیمبر میں بلا کر کہنے لگے ’’میاں کہاں غائب ہو، پہلی مرتبہ تم سے ملاقات نہ ہوسکی‘‘۔ ہاشمی صاحب کی جانب سے ادا کیا جانے والا یہ جملہ سن کر میرا دل باغ باغ ہوگیا، میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہاشمی صاحب جیسی شخصیت مجھ ناچیز سے ملاقات نہ ہونے کا ذکر کررہی ہے، یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ میری خوشی کو اُس وقت مزید چار چاند لگ گئے جب اجمل سراج نے کہا کہ ہاشمی صاحب بہت کم لوگوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں اور تم ان میں سے ایک ہو۔ یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ وہ میرے لکھے گئے کالم پڑھا کرتے تھے۔ ایک روز میں ان کے چیمبر میں بیٹھا باتیں کررہا تھا، باتوں کے درمیان میں نے ان سے پوچھا ’’اس مرتبہ لکھا گیا کالم کیسا تھا؟‘‘
کہنے لگے: ’’اچھی تحریر تھی‘‘۔
میں نے کہا: ’’تحریر میں بہتری کے لیے کوئی مشورہ دیں‘‘۔
کہنے لگے: ’’یہ کم ہے کہ میں تمہارا کالم پڑھتا ہوں!‘‘
ان کی جانب سے دیا جانے والا یہ جواب میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ میرے نزدیک یہ ذومعنی جملہ تھا۔ میں نے فوراً کہا: ’’میں کچھ سمجھا نہیں۔‘‘
کہنے لگے: ’’میاں، میں تمہارا کالم پڑھتا ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اچھا لکھ رہے ہو۔ عوامی مسائل پر لکھ رہے ہو، شہر کی خستہ حالی پر لکھ رہے ہو، حکومتِ وقت کی ناقص کارکردگی پر لکھ رہے ہو۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کا تعلق عوام سے ہے، ورنہ میں ہر کسی کی تحریر پڑھ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔‘‘
گاہے بگاہے مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ میں نے اپنے مضمون میں ایک کردار غلام رسول بنایا۔ جب ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ’’میاں یہ غلام رسول نام کہاں سے لے آئے! غلام محمد ہوتا ہے، غلام قادر ہوتا ہے، غلام رسول تو ہم نے نہیں سنا، تم نے یہ نام کہاں سے لے لیا!‘‘ یہ بات اُس دن مجھے پتا چلی کہ تحریر میں ناموں کا بھی بہت خیال کیا جاتا ہے۔ وہ ادب اور شاعری کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے جس کی جھلک ان کے لکھے گئے اداریوں میں نظر آتی ہے۔ ہر موضوع پر لکھنے کے فن سے بخوبی واقف تھے۔ وہ دہائیوں سے صحافت سے منسلک ہونے کے باوجود پریس کلب میں بہت کم آیا جایا کرتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ جب وہ پریس کلب گئے تو سیکورٹی پر مامور افراد نے انہیں روک لیا۔ سیکورٹی اہلکاروں کے روکنے پر انہوں نے کہا ’’میاں ہم تو یہاں چائے پینے آئے ہیں، کیا اس جگہ چائے نہیں ملتی؟‘‘ روکنے والا شخص کہنے لگا کہ ’’نہیں یہ کوئی ہوٹل نہیں ہے‘‘۔ کہنے لگے ’’ہم تو ہوٹل سمجھ کر یہاں آئے تھے۔‘‘ اتنے میں ان کے ایک دوست نے آواز دی اور سیکورٹی والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھائی یہ بہت پرانے ممبر ہیں، ہم ان کے سامنے کے طالب علم ہیں۔ جس پر خاصی دیر تک قہقہہ لگتا رہا۔
جیسے میں نے پہلے ہی کہا کہ وہ مزاح بھی انتہائی سنجیدہ انداز میں کیا کرتے تھے، اس واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا انداز کچھ اسی طرح کا تھا۔ جب بھی کسی کی بات سنتے تو انتہائی غور سے سنتے اور اچھے مشورے دیا کرتے۔ وہ انسانیت دوست تھے، لوگوں کی مالی مدد اس انداز میں کیا کرتے کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص ان کے چیمبر کے باہر آکر کھڑا ہوا۔ میں نے اس کے لیے کرسی چھوڑ دی۔ اس کو دیکھتے ہی ہاشمی صاحب خاموشی سے سے اپنے چیمبر سے باہر چلے گئے۔ چند لمحوں کے بعد جب واپس آئے تو انہوں نے اس شخص کی جیب میں کچھ رقم ڈال دی۔ میں نے پوچھا: ’’ہاشمی صاحب یہ کون صاحب تھے اور آپ نے انہیں کیوں کر اورکتنے پیسے دیے؟‘‘ کہنے لگے: ’’پتا نہیں کون تھا‘‘۔ اور پیسوں کا جواب دیتے ہوئے بولے ’’میاں ہمیں کیا خبر کتنے تھے، جتنے تھے بس دے دیے‘‘۔ خاصے عرصے بعد مجھ پر یہ راز عیاں ہوا کہ یہ شخص ہر ماہ آتا ہے اور ہاشمی صاحب ہمیشہ اسی طرح اس کی مدد کردیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ایسی باتوں کا ذکر نہیں کیا کرتے، لیکن یہاں اس واقعے کو تحریر کرنے کا مقصد فقط لوگوں کو انسانوں کی مدد کی ترغیب دینا ہے، اور پھر میرے نزدیک ایسے واقعات کا ذکر کرنا اچھا عمل ہے۔
ہاشمی صاحب آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی یادیں اور ان کی باتیں ہمارے دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔ ہاشمی صاحب ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے صحافتی میدان میں تنقید برائے اصلاح کو اپنائے رکھا، وہ ایک کہنہ مشق اور اپنے کام سے محبت کرنے والے شخص تھے، جنہوں نے مشکل حالات میں بھی کبھی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا۔ ان کا کسی اخبار کے ساتھ بطور ایڈیٹر وابستہ ہونا اس اخبار کی کامیابی کی دلیل ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں ان کے ہزاروں سے زائد شاگرد مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات سے وابستہ ہیں۔
ان کو صحافتی حلقوں میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اس شعبے سے وابستہ افراد ان کا دل سے احترام کرتے تھے۔ جو لوگ نہیں جانتے تھے وہ بھی، اور ان کے دوست احباب بھی ان کی سچائی اور دیانت داری اور کھری باتوں کی وجہ سے کبھی ان سے ناراض نہیں ہوئے، بلکہ اس سے مل کر ہمیشہ خوشی محسوس کرتے تھے کہ ہاشمی صاحب دہائیوں تک صحافت کے شعبے سے منسلک رہے ہیں۔ انہوں نے مزاحمتی صحافت کو نئی جہت دی اور اپنے نظریے پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

حصہ