ابھی کچھ دیر قبل روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر انچیف سید اطہر علی ہاشمی کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد گھر آکر بیٹھا ہوں، پسینے میں شرابور۔ غضب کی گرمی پڑرہی ہے اور آج ہی سے چندر وز کے لئے کراچی میں شدید بارشوں کی پیشگوئی بھی ہے۔
ہاشمی صاحب میرے گھر کے قریب ہی رہائش پذیر تھے۔ بقرعید کے بعدکئی روز سے ان کے گھر جانے کا سوچ رہا تھا، آج جانے کا ارادہ تھا، لیکن (6اگست 2020کی)صبح واٹس ایپ پر معلوم ہوا کہ وہ توفجر ہی میں عالم بالا چلے گئے۔ ہم سب کو اداس کرکے۔ چنانچہ آج ان کے گھر گیا، مگر وہاں اطہر بھائی نہیں، بلکہ ان کا جست خاکی رکھا تھا۔ آخری دیدار کے وقت چند سسکیوں کا خراج عقیدت میں نے بھی اردو کے اس سپاہی کو پیش کردیا ۔ جن کے کالم “زباں بگڑی خبر لیجئے ” بہت شوق سے پڑھے جاتے تھے۔
چند سال قبل معلوم ہوا کہ ہاشمی صاحب بھی میرے محلے گلستان جوہر میں مقیم ہیں ، ان کا بلاک ۱۲ اور میرا ۱۳ تھا، وہ مجھ سے سینئر جو تھے۔ یہ سن کر میں نے ان کی خدمت میں حاضری دی، وہ چند روز قبل ہی اسپتال سے گھر آئے تھے۔ میرے ذہن میں تھا کہ وہ بستر پر خاموش پڑ ے ہوں گے۔ جب میں ان کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہ کسی شیر کی طر ح صوفے پر براجمان تھے۔ مجھ سے بغلگیر ہوئے اور بیٹھنے کو کہا، میں ان سے برسوں بعد دوبارہ ملا تھا، اس لئے انہوں نے اپنے خاندان اور اپنا مختصر تعارف کرایا اور مجھ سے میرے بارے میں معلوم کیا۔ پھر انہوں نے وہی پرانی شگفتگی کے ساتھ گفتگو کی تو دل میں گدگدی سی ہونے لگی، ان کی گفتگو اور تحریر مزاحیہ نہیں، بلکہ شگفتہ ہوتی تھی کہ آپ صرف مسکرائیں۔ واپسی پر وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آئے اور مجھ سے کہا کہ کبھی کبھی اسی وقت یعنی گیارہ سے ایک بجے کے درمیان آجایا کرو۔ میں تو گھر پر ہی ہوتا ہوں، شام میں آفس جاتا ہوں۔ اور میاں بیل (گھنٹی ) بجانے کی زحمت نہ کیا کرو، میرے دروازے کھلے ہوتے ہیں، بالائی منزل پر پہنچ کر ڈرائنگ روم کے باہر لگی بیل بجاؤ یا مجھے آواز دے دیا کرو۔ اس کے بعد میں کبھی کبھی دوپہر میں ان سے ملنے جانے لگا۔
برسوں قبل 1980کے عشرے میں میں نے چار پانچ سال جسارت میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ شاید یہ 1981کی بات ہے۔ روزنامہ جسارت کے اداریہ نویس اور میرے جامعہ کراچی کے استاد پروفسیر متین الرحمن مرتضیٰ نے مجھے جسارت میں کام کرنے کی دعوت دی، چنانچہ میں روزنامہ جنگ کی ملازمت چھوڑ کر قریب ہی واقع روزنامہ جسارت کے دفاتر چلا آیا۔ جہاں جسارت کے مدیر محترم صلاح الدین شہید نے بہت اپنائیت کا مظاہرہ کیا۔ میرے لئے اتنے بڑے صحافی کے ساتھ کام کرنا ایک اعزاز تھا۔
چند روز بعد ہی ایک ہیرو ٹائپ خوبرو جوان سے ملاقات ہوئے۔ گورے چٹے ، کلین شیو، چہرے پر ہلکی سی مونچھیں، سیاہ بال ۔ سفید کرتہ پاجامہ۔ اور بہت عزت دینے اور عمدہ اور شگفتہ گفتگو کرنے والے۔ میں نے مظفر اعجاز صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں ؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ اتنے دن ہوگئے اور تم انہیں نہیں جانتے ۔ یہ اطہر ہاشمی صاحب ہیں۔ یہ تھی میری ان سے پہلی ملاقات۔ ان کو اردو زبان و ادب پر مہارت تھی، وہ جسارت کے ادارتی صفحے کے انچارج تھے۔ لیکن میں حیران رہتا تھا کہ وہ تیسرے پہر دفتر آنے کے بعد گھر جانے کا نام ہی نہیں لیتے ان کا ادارتی صفحہ شام کو پریس میں چلا جاتا۔ لیکن وہ رات گئے تک آفس میں رہتے۔سگریٹ نوشی بہت کرتے تھے۔ اپنے کمرے میں لکھتے رہتے ۔ میں نائٹ شفٹ میں تھا۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہماری نائٹ شفٹ ڈیسک پر تشریف لاتے اور خوشیاں بانٹ کر چلے جاتے۔ اتنی عمدہ گفتگو، اوراتنی مہارت سے حاضر جوابی کہ اس زمانے میں میں ان سے ڈرتا تھا۔ اس زمانے میں جسارت کے نیوز ایڈیٹر آفتاب سید صاحب تھے۔
اس وقت تک نوری نستعلیق اور کمپوزنگ کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔ بلکہ نائٹ ڈیسک کے سامنے ہی ایک ہال میں کاتب حضرات کے بیٹھنے کا اہتمام تھا۔ وہ لوگ کرسیوں پر نہیں بیٹھتے تھے، بلکہ زمین پر بیٹھ کر لکھنے کے عادی تھے۔ اس لئے چھوٹے سے ہال نما کمرے کے تین جانب ایک چبوترا تعمیر کراکے اس پر دریاں بچھا دی گئی تھیں اور اس پر لکڑی کی چھوٹی چھوٹی ڈیسک رکھی تھیں۔ وہاں تقریباً ایک درجن کے قریب کاتب حضرات بیٹھا کرتے۔
ہاشمی صاحب ان کے پاس بھی جاتے اور ان سے بھی گفتگو کرتے۔ تھوڑا سا آگے انتظامی دفاتر سے بھی آگے سٹی ڈیسک معہ رپورٹنگ روم تھا۔ مجھے وہاں کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہاں بھی ہاشمی صاحب تشریف لاتے۔ کبھی صلاح الدین صاحب سے باتیں اور بحث کرتے ہوئے دیکھتا۔ یعنی ہاشمی صاحب ملک کے سیاسی حالات یا کسی بھی اشو پر صلاح الدین صاحب سے بحث کرتے لیکن دلیل کے ساتھ۔
جب آفس میں غیبت سیشن ہوتا تو میں نے کسی زبان پر ہاشمی صاحب کا نام نہیں سنا۔
رات کو نائٹ شفٹ ڈیسک کو گھر ڈراپ کرانے کے لئے ایک گاڑی تھی، پولیس موبائل جیسی بڑی گاڑی ۔ جس پر ہڈ پڑا تھا اور آمنے سامنے نشستیں۔ روزانہ ہاشمی صاحب کے ساتھ ہی گھر جانے کا اعزاز حاصل ہوتا۔ میں اس زمانے میں فیڈرل بی ایریا بلاک ون شریف آباد ریلوے کراسنگ کے سامنے لب سڑک رہا کرتا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ راستے میں گھر آنے سے قبل میں اپنے بالوں میں کنگھا کرنے لگا تو ہاشمی صاحب نے ہمیشہ کی طرح بڑی سنجیدگی سے کہا کہ آج گھر ہی جارہے ہیں یا کہیں اور ؟ میری بے ساختہ ہنسی نکل گئی اور دیگر ساتھی مسکرا دئیے۔ ایسے تھے ، میرے اطہر ہاشمی۔
اسی لئے جب برسوں بعد ان کے موجودہ گھر میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں حیران رہ گیا، ایک سفید داڑھی والا بوڑھا۔ لیکن وہی آواز اور وہی آب و تاب۔ اگرچہ میں ان کی تصاویر اخبارات میں دیکھتا رہا تھا۔ شاید اس سال جنوری کی بات ہے، میں حسب عادت ان کے ڈرائنگ روم میں گھسا تو وہ صوفے کے بجائے ایک خوبصورت تخت پر بڑی شان سے بیٹھے تھے۔ بہت محبت سے ملے اور اسی انداز میں گفتگو کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ تخت کے نیچے ہاتھ ڈالو، میں نے ازراہِ مذاق کہا کہ کہیں نیچے سانپ تو نہیں؟ میں نے ہاتھ ڈالا تو ایک بھاری کین پر ہاتھ پڑا، اسے نکالا تو اس میں شہد تھا، کہنے لگے کہ میاں شہد کھاتے ہو، میں نے کہا کہ پانچ سال قبل منہ کے کینسر کے بعد اب میرا گزارہ یا تو دودھ میں شہد ، کھجور اور ڈبل روٹی یا ثرید پر ہے۔ فرمایا کہ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ میں نے ان سے پوچھنا چاہا کہ یہ کہاں سے آیا تو برسوں قبل ان کا ایک جملہ یاد آگیا کہ آم کھاؤ ، گٹھلیاں مت گنو۔
اس کے بعد میں مصروف ہوگیا، پھر دو ماہ بیمار اور اب دس بارہ دن قبل اللہ رب العزت کے کرم سے دوبارہ شفایابی کے بعد ان سے ملاقات کا سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اچانک وہاں چلے گئے ، جہاں سے ہم سب آئے ہیں۔ ان کے سفر آخرت میں ان کے صاحبزادے فواد نے بتایا کہ وہ کئی روز سے علیل تھے۔ ہاشمی صاحب جیسے دل والے آدمی کو دل ہی کا عارضہ تھا۔
ہم سب کو وہیں جانا ہے، وہ مجھ سے عمر میں چند سال بڑے ہوں گے۔ ان سے اب عالمِ بالا میں ہی ملاقات ہوگی، ان شاء اللہ