میں تو خبروں میں یہ یہی سنتی آرہی تھی کہ کہیں ڈاکا پڑ گیا ،کہیں چوری ہو گئی‘ ایک انسان نے دوسرے کو قتل کر دیا‘ موبائل چھین لیا گیا تو جائداد کے تنازع پر بھائی نے بھائی کو مار دیا۔ مجھے تو بہت ڈپریشن ہونے لگا تھا’ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب اچھے انسان دنیا میں موجود ہی نہیں رہے۔
لیکن کچھ دنوں پہلے نیا تعلیمی سال شروع ہونے پر ایک گروپ میں کچھ خواتین نے ڈال دیا کہ فلاں کلاس کے لیے ہمیں درسی کتابوں کی ضرورت ہے۔ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ان خواتین کے پاس فون آیا کیا آپ کو اس کلاس کی درسی کتاب چاہئیں؟
خواتین نے کہا جی چاہئیں۔
وہ خاتون کہنے لگیں کہ میں نے پرانی کتابیں دینے اور لینے کا گروپ بنایا ہے اور میرے پاس جیسے ہی مطلوبہ کتابیں آجائیں گی میں آپ کو پہنچا دوں گی۔ بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خاتون کئی سال سے یہ کام کر رہی ہیں اور بلا معاوضہ اس کام کو سر انجام دے رہی ہیں۔ ایک سے کتابیں لیتی ہیں۔ دوسرے کو دیتی ہیں اور دوسرے سے لے کر تیسرے کو دیتی ہیں اور آج وہ تمام کتابیں دینے ان خواتین کے گھروں میں گئیں۔
میں سوچنے لگی کہ اس خاتون کے شوہر کو شیطان نے بہکایا نہیں ہوگا کہ کیوں تھک رہے ہو؟ ایک چھٹی کا دن ہے آرام کر لو یا دل نے کہا ہوگا کہ لوگ بڑے بے حس ہوتے ہیں‘ مطلبی ہوتے ہیں۔ کیا ان کے کام آنا یا ان لوگوں کے پاؤں میں مہندی لگی ہے جو آنہیں سکتے۔ لیکن وہ ایک پاکستانی مرد ایک گھر سے دوسرے گھر اور پھر نہ جانے کتنے گھروں میں وہ کتابیں بانٹتا رہا۔
اور مجھے وہ عورت بھی بہت عظیم لگی کہ جو وزن اٹھائے‘ ایک کو فون کر کے تو کبھی دوسرے کو اور نوٹ کر کے کہ اس کلاس کے لیے یہ کتاب تو نہیں۔ پورے سیٹ بنائے اپنے قیمتی وقت کو لگا کر یہ کام کرتی رہی اور مجھے اس وقت لگا کہ ہاں ’’انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
اور پھر مجھے وہ پوسٹر یاد آیا کہ جس میں کچھ افراد اسٹالز لگا کر کسی سے کتابیں لیتے اور کسی کو دیتے کہ دوسروں کا بھلا ہوجائے اور پھر مجھے لگا کہ ’’ہاں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
اور مجھے وہ ڈاکٹر خاتون یاد آئیں کہ جن کا فون آیا تھا اور پوچھنے لگی تھیں کہ آپ کے پاس بچوں کے چھوٹے کپڑے ہیں ؟اور میں یہ جملہ سن کر حیران تھی کیوں کہ اُن کا تو ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی ڈاکٹر بن رہا ہے ابھی میں اس حیرانی سے نکلی بھی نہیں تھی کہ وہ کہنے لگیں کہ ’’میں پاکستان میں بچوں کے چھوٹے کپڑے بھجواتی ہوں‘‘ اور مجھے لگا کہ ’’ہاں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
پھر مجھے وہ خواتین بھی یاد آئیں جو رمضان کے مہینوں سے پہلے جائے نمازیں ،کام والے اور اچھے سوٹ‘اچھی جیولری وغیرہ پیک کر کے پاکستان بھجواتی ہیں کہ عید کے بعد بہت شادیاں ہوتی ہیں تو ان میں کام آجائیں۔ اور مجھے لگا کہ ’’ہاں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
پھر مجھے وہ خواتین بھی یاد آئیں جو گھر کے زائد سامان کو تھوڑی کم قیمت پر بیچنے کے لیے بچت بازار لگاتیں اور اس میں کھانے پینے کے اسٹالز بھی لگاتیں اور ان سب سے حاصل ہونے والی رقم یتیم، مسکین اورغرباء میں باٹتیں یا ان تمام افراد کی مدد میں خرچ کرتیں اور یہ سب دیکھ کر میرا دل کہتا کہ شاید یہ خواتین صرف شغل کے طور پر یہ کرتی ہیں۔ لیکن پھر دوسری آواز آتی کہ نہیں یہ سارے کام اتنے آسان تو نہیں ہوتے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ کرنا اور تو اور بوڑھی خواتین بھی یہ کام کر تی ہیں اور پھر کہا کہ ’’ہاں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
پھر کورونا کے وقت ان گنت ڈاکٹروں کے پیغامات یاد آئے جنھوں نے اپنے فون نمبرز بھی دیے تھے کہ بغیر فیس آپ ہم سے مشورہ لے سکتے ہیں۔ بس آپ اسپتال اس وقت نہ جائیں اور میں نے اپنی زندگی میں نہ جانے یہ جملہ کتنی بار سنا تھا کہ ڈاکٹرز تو قسائی ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت مجھے لگا کہ ’’ہاں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
اور پھر آج کی ہی بات کہ ایک خاتون کو کچھ کام کہا تو کہنے لگیں کہ آج تو میرا یہ کام کرنا مشکل ہے کہ جمعہ ہے اور مجھے اپنی نابینا جیٹھانی کی بنیادی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں۔ میں تو بہت سی خواتین سے یہ سنتی تھی کہ کہاں لکھے ہیں دیورانی اور جیٹھانی کے حقوق و فرائض اور مجھے اس وقت لگا کہ ’’ہاں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
پھر حرم میں کرین کا گرنے والا واقعہ بھی یاد آیا کہ جس میں شلوار قمیص میں پاکستانی بھائی زخمیوں کو اسپتال لے کر جارہے تھے اور مجھے اُس وقت بھی لگا تھا کہ ’’ہاں انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘
اور پھر نہ جانے کتنے واقعات ذہن میں آتے رہے۔ اور پھر میں کہ اٹھی کہ:۔
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اور پھر میں نے ارادہ کیا کہ میں ان لوگوں کی طرح اپنے حصے کی کوئی شمع جلا ؤں گی… کوئی تو اچھا کام انسانوں کے لیے کروں گی۔کہ ’’انسانیت آج بھی زندہ ہے۔‘‘۔