رات کے تین بجے کے قریب فرح کی آنکھ کھلی۔ اسے کچھ دور سے آوازیں آتی سنائی دیں۔ فرح کمرے سے باہر نکلی تو اسے ڈرائنگ روم میں روشنی نظر آئی وہ ڈرائنگ روم کے قریب پہنچی تو کھانوں کی خوشبو سے وہ چونک گئی۔ دروازہ کھول کر کمرے کے اندر جھانکا تو وہاں کا منظر عجیب تھا۔
فرح کے تینوں بچے‘ بڑا بیٹا سولہ سال کا لیپ ٹاپ پر اپنے دوست سے باتوں میں مصروف تھا تو اس سے چھوٹی تیرہ سالہ بیٹی فون ہاتھ میں لیے ٹائپنگ کر رہی تھی۔ سب سے چھوٹا آٹھ سالہ بیٹا بھی فون میں گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔ سب کے کانوں میں ہیڈ فون لگے تھے۔ برگر اور کولڈ ڈرنک سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جس ڈرائنگ روم کو فرح بہت محنت سے سجا سنوار کر رکھتی تھی۔ بے ترتیبی سے پھیلا ہوا تھا۔
اتنی رات کو یہ دیکھ کر فرح کا غصہ سے برا حال ہو گیا۔ اس نے بچوں کوڈانتے ہوئے کہا ’’یہ اتنی رات گئے تم لوگ کیا کر رہے ہو؟ اور یہ برگر‘ کولڈ ڈرنکس کہاں سے لائے ہو؟‘‘
بچوں نے اپنی مصروفیت جاری رکھتے ہوئے کہا ’’کیا کریں امی چھٹیاں تو ہیں‘ ہمیں کون سا صبح جانا ہے۔ یہ کھانے کی چیزیں آن لائن منگوائی ہیں۔ سارا دن بور ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
آج کل لاک ڈاؤن میں یہ ہر دوسرے گھر کا مسئلہ ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہونے‘ کھیلنے کودنے اور باہر جانے پر پابندی کے باعث سب کی بالخصوص بچوں کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اس صورت حال میں والدین پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔مثلاً آن لائن کلاسوں سے جو بات سمجھ نا آئے۔ اسے بعد میں خود سمجھائیں یا بڑے بہن بھائی مدد کر دیں۔ روزانہ پڑھائی کا وقت مقرر کریں۔
بچوں کو زیادہ ٹی وی دیکھنے یا فون پر گیمز کھیلنے سے دور رکھیں۔
کورس کی کتابوں کے علاوہ بھی مطالعے کی عادت ڈالیں۔
گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں انہیں مصروف رکھیں اور سمجھائیں کہ گھر کو صاف ستھرا اور سمیٹ کر رکھنا چاہیے۔
گھر کے اور دوسرے بزرگوں کی خدمت کا جذبہ پیدا کیجیے۔
بچے بڑوں کے ساتھ بیٹھیں۔بات چیت کریں۔ادب وآداب سیکھیں۔ کسی حد تک کھیل کود بھی ہونا چاہیے۔ گھر کے اندر یا باہرجائیں تو احتیاط کی ساتھ جائیں۔ مذہب سے قریب کریں‘ بچوں کو پیغمبروں کے قصے سنائیں۔انہیں نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں کے مطلب یاد کروائیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کروائیں۔ اگر تجوید میں غلطی ہے تو اسے درست کروائیں۔اگر ہم انہیں یہ سمجھائیں گے کہ وقت کو بے کار ضائع کرنے کی بجائے اچھے کاموں میں صرف کیا جائے تو یہ نہ صرف ان کے لیے بہتر ہو گا بلکہ یہ بچے ہمارے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گے۔