دردِ تنہائی

542

آج تقریباً ایک ماہ بعد وہ تینوں بہنیں میکے آئی تھیں اور آتے ہی ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شہلا اور بچے گھر پر نہیں تھے۔ اشعر کو بھی تھوڑی دیر میں دوستوں کی طرف نکلنا تھا۔ ابو اکیلے اپنے کمرے میں خاموش، آنکھیں بند کیے لیٹے تھے۔ بیٹیوں اور نواسے نواسیوں کو دیکھتے ہی ابو کھل سے گئے تھے۔
’’ابو! آپ یہاں کمرے میں کیوں لیٹے ہیں؟ باہر لائونج میں آجائیں۔‘‘ بڑی بیٹی صوبیہ نے باپ کو دیکھ کر چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ورنہ باپ کو اس طرح بیچارگی اور تنہائی میں دیکھ کر اس کا دل کٹتا تھا۔
’’ایک ہی بات ہے۔‘‘ ابو پھیکی مسکراہٹ سے بولے۔ ’’وہاں بھی کون ہے!‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑائے۔
’‘اچھا باہر آکر بیٹھتے ہیں۔ اور دوپہر میں کیا کھایا؟‘‘ نوشابہ نے موضوع بدلنا چاہا۔
’’شہلا نے قورمہ بنایا تھا، وہ مجھ سے کھایا نہیں گیا، دو تین نوالے لیتے ہی طبیعت بھاری ہوگئی۔‘‘
’’تو… تو پھر کیا لیا…؟‘‘ شہلا سے کہہ کر دلیا بنوا لیتے۔‘‘ منجھلی نوشابہ تڑپ کر بولی۔
’’کچھ نہیں، شہلا کو جانا تھا، اس کو دیر ہورہی تھی۔‘‘ وہ پھر بے بسی سے مسکرائے۔ ’’میں نے بسکٹ کھا لیے تھے۔‘‘
’’بسکٹ سے کیا ہوتا ہے! میں آپ کو چاول بنادیتی ہوں، آپ کو سبزی والے چاول پسند بھی ہیں ناں۔‘‘
’’ارے ابھی تو آئی ہو، اب کہاں باورچی خانے میں جائوگی! میرے پاس بیٹھو۔ تم لوگ بھی اتنے اتنے دنوں بعد آتی ہو۔‘‘ ابو کو بیٹی کا میکے آتے ہی کام کرنا اچھا نہیں لگا۔
’’بس ابو کیا کریں گھر، بچوں کی مصروفیت، بچوں کے امتحان چل رہے تھے… انہی کے ساتھ گھن چکر بنے ہوئے تھے۔‘‘ صوبیہ نے بے چارگی سے کہا۔ دونوں چھوٹی بھی اس کی تائید میں گردن ہلانے لگیں۔
’’عظمیٰ! تم ایسا کرو چاول چڑھا دو، ابھی پھوپھی جان بھی آنے والی ہیں، پھر مل کر چائے پی لیں گے۔ یہ میں گھر سے دہی بڑے بنا کر لائی تھی، راستے سے سموسے اور کیک لے لیا تھا۔‘‘ صوبیہ کہہ رہی تھی۔
’’ارے تم کیوں لے آئیں، میں اشعر سے منگوا لیتا۔‘‘
’’اوہ… ابو! ہم آپ کی بیٹیاں ہیں، غیر نہیں۔‘‘ عظمیٰ بھی بولی۔ پھر ابو نے اشعر سے رول، پیٹس بھی منگوا لیے۔ پھوپھی جان بھی آگئی تھیں۔ بہت عرصے بعد گھر میں رونق ہوگئی تھی۔ ابو بھی سب کے آنے پر بہت خوش نظر آرہے تھے۔ طبیعت بحال لگ رہی تھی۔
…٭…
’’دیکھا تم لوگوں نے اپنے باپ کو!‘‘ تم تینوں کے آنے اور ہنسنے بولنے سے کیسے خوش باش لگ رہے ہیں۔‘‘ مغرب کی نماز کے وقت سب نماز پڑھنے لگے تھے، ابو بھی اپنے کمرے میں نماز پڑھنے چلے گئے تھے۔ پھوپھی جان، سلام پھیر کر اب تسبیح پڑھ رہی تھیں کہ انہوں نے برابر میں بیٹھی صوبیہ سے کہا، جو نماز سے ابھی فارغ ہوئی تھی اور دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔
’’جی پھوپھی جان‘‘۔ صوبیہ اداسی سے بولی۔
’’اب جب سب چلے جائیں گے تو تنہائی پھر ان کی ساتھی ہوگی‘‘۔ پھوپھی جان بولیں۔
’’کیا کریں پھوپھی جان، شہلا سے کہتے تو ہیں کہ ابو کے کھانے پینے اور دوا وغیرہ کا خیال رکھا کرو، لیکن وہ بھی اپنے نام کی ایک ہے، سنی اَن سنی کردیتی ہے۔‘‘
’’گھر بھی دیکھیں کیسا گندا رکھا ہوا ہے، ابھی جب میں باورچی خانے گئی تھی چاول چڑھانے، تو سارا باورچی خانہ بکھرا پڑا تھا، سنک میں گندے برتن بھی تو یونہی پھینک کر چلی گئی، میں نے سارا سمیٹا‘‘۔ عظمیٰ منہ بنا کر بولی۔
’’بیٹا! وہ اس گھر کی بہو ہے، اس کو اپنے شوہر اور بچوں کی پروا ہے۔ وہ کیوں بیمار، بوڑھے سسر کا خیال رکھے لگی یا خدمت کرے گی!‘‘ پھوپھی جان ایک آہ بھر کر بولیں۔
’’آپ کو یاد ہے جب امی زندہ تھیں تو کیسے گھر چمکتا رہتا تھا۔‘‘ نوشابہ بھی پچھلا وقت یاد کرتے ہوئے افسردگی سے بولی۔
’’ہاں بیٹا سب اچھی طرح یاد ہے۔ دو سال ہوگئے تمھاری ماں کو گزرے ہوئے۔ اللہ مغفرت فرمائے بڑی نیک عورت تھی۔‘‘ پھوپھی جان نے توقف کیا۔ ’’گھر، شوہر اور تم بہن بھائی کو کیسے سنبھالا ہوا تھا۔ بیٹا، گھر کا سُکھ عورت کے دَم سے ہے، گھر کو گھر عورت ہی بناتی ہے، ورنہ گھر سرائے خانہ ہے۔ شوہر کی ضروریات کا خیال، اُس کا کھانا پینا، پہنا اوڑھنا، دوا دارو سب بیویاں ہی کرتی ہیں، بہوئیں نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ تینوں ہی پھوپھی جان کی اس بات پر چونک گئیں۔
’’ارے بیٹا! کس بات کا مطلب، میں تو وہی آج پھر کہہ رہی ہوں جو پچھلے سال بھر سے تم بہنوں کو سمجھا رہی ہوں۔ لیکن تم بہن بھائی میرے مشورے پرتوجہ دینے کے بجائے ناراض ہوجاتے ہو۔ آخر کیا برائی ہے دوسرے نکاح میں؟ بیوی آئے گی تو تمھارے باپ کے دکھ سکھ کا خیال کرے گی، وقت پر کھانا، دوا کرے گی۔ تم تینوں تو دس، پندرہ دن میں گھنٹہ بھر کے لیے آئیں، خیریت پوچھی، فکرمندی کا اظہار کیا اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیں۔ اگر باپ کا اتنا ہی خیال ہے تو اس مسئلے کا حل نکالو۔‘‘
’’اور آپ کے نزدیک اس مسئلے کا حل صرف ابو کی دوسری شادی ہے۔‘‘ صوبیہ تلملائی۔
’’مجھے تم یہ بتاؤ کہ یہ کیا خلافِ شریعت ہے؟ کیا اس میں معاشرتی برائی ہے، یا پھر سنت کے خلاف میں نے کچھ کہہ دیا؟‘‘ اب کے پھوپھی جان بھی ناگواری سے بولیں۔
’’مگر آپ یہ تو دیکھیں کہ خاندان والے اور ہمارے سسرال والے کیا سوچیں گے!‘‘نوشابہ بھی تائو کھاتے ہوئے بولی۔
’’ارے ہٹائو لوگوں کو۔ ہفتہ، دس دن کہہ سن کر سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہوجائیں گے۔ اپنے باپ کی فکر کرو، نہ کہ خاندان اور سسرالیوں کی۔‘‘ پھوپھی جان کو بھی غصہ آنے لگا تھا۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں پھوپھی جان! ہم جب آئے تو ابو خاموش، تنہا، اداس لیٹے ہوئے تھے اور بھوکے بھی تھے۔‘‘ عظمیٰ بولی۔
’’ہاں تو کس سے کہیں اپنی تکلیف؟ اس تنہائی نے وقت سے پہلے تو بوڑھا اور بیمار کردیا ہے۔ بس میں نے کہہ دیا، میں نے اپنے جاننے والوں میں ایک خاتون دیکھی ہے، بیوہ ہے، بچے نہیں ہیں۔ تم لوگ بھی میرے ساتھ چل کر دیکھ لو، مجھے تو وہ ہر لحاظ سے اچھی لگی۔ سنجیدہ، بردبار، پڑھی لکھی، اور سب سے بڑھ کر سادہ۔ ہم بات کریں گے تو وہ لوگ راضی ہوجائیں گے۔‘‘ پھوپھی جان تو جیسے سب پہلے سے طے کیے بیٹھی تھیں۔
’’لیکن وہ اشعر، وہ کب چاہے گا!‘‘ صوبیہ نے پھر دبا دبا احتجاج کیا۔
’’اب تم خاموش رہو، اشعر کو بڑا خیال ہے! اب بھی اپنے دوستوں میں چلا گیا، اگر ہم نہ آتے توکیا وہ یہاں ہوتا…؟ نہیں ناں، تو بس اب یہ اعتراض اور شکوے چھوڑو، اپنے باپ کے اکیلے پن، بیماری اور تنہائی کا خیال کرو، عورت آئے گی تو تمھارا میکہ بھی دوبارہ آباد ہوجائے گا۔‘‘
’’ضروری تو نہیں… نہ جانے وہ کیسی ہوں؟‘‘ نوشابہ بددلی سے بولی۔
’’ہر کوئی برا نہیں ہوتا بیٹی! خوبیاں، خامیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں۔ تم لوگ اچھا رویہ رکھو گی، ماں سمجھو گی تو اگلی کیا بے وقوف ہے جو تم سے لاتعلقی اختیار کرے گی!‘‘ پھوپھی جان ان کو تصویر کا روشن رخ دکھانے پر مُصر تھیں۔
’’کیا ابو راضی ہوجائیں گے؟‘‘ نوشابہ نے پھر خدشہ ظاہر کیا۔
’’ہاں ہاں ہوجائیں گے، میں راضی کرلوں گی۔‘‘ پھوپھی جان یقین سے بولیں۔ ’’اصل تو تم بہنوں کی مرضی ہے، پھر تم خود دیکھ لوگی میرا فیصلہ کتنا درست تھا۔ ان شاء اللہ وقت یہ ثابت کردے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پھر جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ تینوں نے مرے مرے لہجے میں کہا۔
…٭…
اور پھر وقت نے یہ ثابت کردیا کہ پھوپھی جان کا فیصلہ کتنا صائب تھا، اور اُن کے خدشے کتنے بے بنیاد۔ ابو کے نکاح کے بعد آنے والی خاتون نے اپنے اخلاق و کردار اور سگھڑ پن سے نہ صرف ابو کا دل جیتا بلکہ گھر کو گھر بنادیا اور ان تینوں بہنوںکے دل بھی جیت لیے۔ واقعی نئی ماں کے آنے سے ان کا میکہ پھر سے آباد ہوگیا تھا۔

حصہ