’’دیکھنا اک دن عنایتؔ جا بسے گا زِیرخاک‘‘

1467

دل یہ کہتا ہے کہ تو مظرابِ سازِ زیست ہے
چل بسا تو سازِ ہستی بے صدا ہو جائے گا
کیسے کیسے لوگ خاموشی سے اٹھ کر چل دیے
میں گیا تو کون سا محشر بپا ہو جائے گا
یہ ہیں بہت ہی محترم اور بزرگ شاعر عنایت علی خان صاحب جو واقعی خاموشی سے اٹھ کر اس دنیائے فانی سے دنیائے باقی کو چلے دیے، کوئی محشر بپا نہ ہوا ،زندگی کے شب و روز ویسے ہی گزر رہے ہیں اس میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی ،ہمارے سارے معمولات حسب ِمعمول ہیں ہاں… اردو ادبی دنیا میں ایک ایسے شخص کی کمی ضرور واقع ہوگئی جسے یاران ِاہلِ سخن مدتوں یاد رکھیں گے… بقول خود
ہم نہ ہوں گے بس ہمارا تذکرہ رہ جائے گا
متن مٹ جائے گا باقی حاشیہ رہ جائے گا
ادھر کچھ عرصے سے عنایت صاحب علیل تھے کبھی اسپتال تو کبھی گھر بہرحال ’’موت سے کس کو رستگاری ہے‘‘ 26 جولائی کی صبح عنایت صاحب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، ان للہ وانا الیہ راجعون…’’ ایک روشن دماغ تھا نہ رہا‘‘ بہت ذہین اور قابل انسان تھے مخلص اس قدر کہ جس کسی سے بھی ملتے اسے اپنا بنا لیتے مشاعرے کی جان ہوا کرتے کسی بھی ادبی نشست میں عنایت صاحب کی آمد وجہء بہار ہوا کرتی تھی گفتگو بے انتہا دلچسپ اور پرمزاح ہوتی ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ‘‘دوران ِگفتگو کبھی کسی شخص کی برائی نہ کرتے حتّیٰ کہ کسی شاعر کی بھی نہیں کسی شاعر کا تذکرہ کرتے تو اس کی تعریف کرتے اور اس کی اچھے اشعار سناتے اپنے کو اس سے برتر نہ سمجھتے، یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی۔ مجھ خاکسار پر ان کا احسان ہے میری کتاب جو عنقریب شائع ہونے والی ہے اس سلسلے میں دو مرتبہ ان کے درِ دولت پر حاضری دی بے انتہا خلوص اور محبت سے پیش آئے میری غلطیوں کی نشاندہی کی۔ کتاب کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو انشاء اللہ کتاب میں شائع ہوں گے۔
کراچی کلب کے مشاعرے کا اپنا ایک خاص معیار ہوتا ہے۔ ہر سال عالمی مشاعرے کے فوراً بعد یہاں ایک خوبصورت محفل سجائی جاتی ہے جس میں پاکستانی شاعروں کے علاوہ دوسرے ممالک خاص طور سے بھارت سے آئے ہوئے شعرا اس مشاعرے کی زینت بنتے ہیں۔ مشاعرہ اپنے عروج پر تھا رات کے کوئی ڈھائی بجنے والے تھے کہ ایک بزرگ ’گھنی اور سفید براق داڑھی‘ سر پر خوبصورت سی جناح کیپ، میرے قریب ہی فرشی نشست پر آ کر بیٹھ گئے میری دوسری جانب ایک خاتون جو گفتگو سے میمن معلوم ہو رہی تھیں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی بڑے غور سے مشاعرہ سن رہی تھیں کہ اچانک ان کے شوہر نے کہا کہ رات کافی ہو چکی ہے اب گھر چلنا چاہیے۔ خاتون نے جواب دیا ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ اور اُن بزرگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ داڑھی والے بابا آ گئے ہیں اب تو ہم انہیں سن کر ہی گھر جائیں گے۔ یہ داڑھی والے بابا کون تھے؟جی ہاں… یہ تھے ملک کے بہترین اور ہر دل عزیز مزاح گو شاعر عنایت علی خان، لوگ انہیں کس قدر پسند کرتے ہیں اس کا اندازہ ان میمن خاتون کی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے کس عقیدت اور احترام سے ’’داڑھی والے بابا‘‘ کہہ کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔
مرزا غالب نے اُس ایرانی کو گلے لگا لیا تھا یہ کہہ کر کہ صحیح داد تو آج ملی ہے جس نے کتب فروش سے کہا تھا کہ مجھے تو غالب ہی کا فارسی کلام چاہیے کہ وہ کمبخت کیا خوب لکھتا ہے۔
عنایت علی خان سے لوگ کیوں محبت کرتے ہیں شاید اس کی وجہ ان کا وہ کلام ہے جو لوگوں کے دلوں کی آواز ہے جسے عنایت علی خان اشعار کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔ کراچی کا عالمی مشاعرہ ہو یا ناظم آباد انّوبھائی پارک کا ،سامعین کھڑے ہو کر پُرزور تالیوں سے ان کا استقبال کرتے تھے، مزاحیہ شاعری عنایت صاحب کی پہچان بن گئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بہت اچھے سنجیدہ شاعر تھے۔ ان کی مزاحیہ شاعری ان کی سنجیدہ شاعری پر غالب ہے۔ ان کی سنجیدہ شاعری سن کر کوئی بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ وہ مزاح گو بھی ہو سکتے ہیں ۔
عنایت علی خان بھارت کے صوبے راجستھان کی ریاست ٹونک میں ۱۹۳۵ء؁ میں پیدا ہوئے، پاکستان بننے کے بعد ۱۹۴۸ء؁ میں ہجرت کی اور حیدرآباد کو مسکن بنایا سلسلۂ تعلیم حیدرآباد ہی میں رہا۔ ۱۹۶۲ء؁ میں اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری اوّل بدرجہ اوّل حیثیت سے جامعہ سندھ حیدرآباد سے حاصل کی اور ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری، علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔ بقول خود …
جو کھوٹے سکّے تھے وہ بھی چلا دیے میں نے
جو اے ایس ایس تھے سی ایس ایس بنا دیے میں نے
شاعری کا شوق ورثے میں ملا، والد محترم حکیم ہدایت علی خان ناظر ٹونکی طنزومزاح کے بہترین شاعر تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حقِ جانشینی کی ادائیگی کی خاطر سنجیدہ شاعری کے ساتھ ساتھ عنایت صاحب طنزومزاح کا دامن بھی تھامے رہے۔انہوں نے اخباروں میں کالم نگاری اور مضمون نگاری بھی کی ہے۔ تحریکی حلقوں میں درسِ قرآن اور درسِ حدیث بھی دیتے نظر آتے تھے نمازِ جمعہ کی تقریر کرتے اور خطبۂ نکاح بھی دیتے ہوئے دیکھے گئے ہیں اور اجتماعاتِ عام میں امامت کرتے ہوئے بھی۔ بہرحال’’تو جہاں پہنچا وہاں عظمت کا طالب ہو گیا‘‘
راقم الحروف کو اس بات کا شرف حاصل ہے کہ متعدد بار عنایت صاحب غریب خانے پر تشریف لائے اور اس خاکسار کو ان کی میزبانی کا موقع ملا۔
پہلا مجموعہء کلام ’’ازراہِ عنایت‘‘ دوسرا ’’عنایات‘‘ تیسرا ’’عنایتیں کیا کیا‘‘ چوتھا جو مشتاق احمد یوسفی کی فرمائش پر مرتب کیا گیا اور انہی کے نام سے منسوب بھی ہے ’’کچھ اور‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ایک اور انتخاب کلام ’’نہایت‘‘ کے نام سے ۲۰۰۵ء؁ میں شائع ہوا۔ عنایت صاحب کے ہر شعری مجموعے کی حلقہ ادب میں خوب پذیرائی ہوئی۔ عنایت صاحب کے حمدیہ اشعار …
مجھے تو نے جو بھی ہنر دیا بہ کمالِ حسنِ عطا دیا
مرے دل کو حُبِّ رسول دی مرے لب کو ذوقِ نوا دیا
میں ہمیشہ اپنے سوالِ شوق کی کمتری پہ خجل رہا
کہ تری نوازشِ بے کراں نے مری طلب سے سوا دیا
اسی قافیہ اور ردیف میں نعت کے چند اشعار بھی ملاحظہ کیجیے
ترے حسنِ خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
یہ میری عقیدتِ بے بصر یہ مری ارادتِ بے ثمر
مجھے میرے دعویٰء عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
’’بہ شوقِ حرم‘‘ میں فرماتے ہیں:
حرم آخر حرم ٹھہرا ازل سے محترم ٹھہرا
مجھے تو رشک ہے خود پر کہ مہمانِ حرم ٹھہرا
مرزا غالب نے عالمِ امکاں کو وسیع صحرا سے تشبیہ دی ہے اور اسے اپنی تمنا اور آرزو کا ایک نقشِ قدم ٹھہراتے ہوئے حیرت سے کہتے ہیں کہ بارِ الہٰ تمنّا کا دوسرا قدم کہاں پڑے گا؟
اپنے مضمون کے اعتبار سے غالب کا یہ شعر بے نظیر ہے…
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
عنایت علی خان نے حرم کی عظمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کس خوبصورتی سے اس شعر کا جواب دیا ہے کہ اگر آج مرزا غالب ہوتے تو عنایت صاحب کے اس جواب سے صرف اتفاق ہی نہیں کرتے بلکہ شعر کی بھرپور داد بھی دیتے، شعر ہے:
جو ہوتا ہمسفر غالب تو میں اس کو یہ بتلاتا
کہ دیکھا ! اس جگہ آ کر تمنّا کا قدم ٹھہرا
عنایت صاحب کا یہ سنجیدہ شعر تو ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر گیا ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اسی غزل کا مطلع بھی قابلِ تحسین ہے…
حوصلے پست تھے فاصلہ دیکھ کر
فاصلے گھٹ گئے حوصلہ دیکھ کر
عنایت صاحب کا ایک ایسا شعر جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ عزم ِمصمّم کا بھرپور اظہار انسان کی کوشش اس کو اس منزل تک با آسانی پہنچا سکتی ہے جس کا وہ طلبگار ہوتا ہے۔ ضرورت ہے پہلا قدم اٹھانے کی اور ہمت و استقلال کی:
آسماں اس قدر بھی دور نہیں
کوئی کھولے تو بال و پر اپنے
زندگی ایک طویل سفر ہے اور یہ سفر ہر کسی کو تنہا ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ وقت اس کا مدِّمقابل ہوتا ہے جو کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، انسان نشیب و فراز سے گزرتا ، موجِ حوادث سے ٹکراتا ہوا منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے اس میں اس کی ہمت اور کوشش کا بہت زیادہ دخل ہوتا ہے اسی خیال کو کس خوبصورت انداز سے عنایت صاحب نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے…
میں ایک تنہا پیڑ کی صورت ہانپ رہا ہوں صحرا میں
وقت کی آندھی پوچھ رہی ہے اب بھی ہمت باقی ہے؟
عنایت صاحب کے چند مزاحیہ اشعار جس میں طنز کی کاٹ نمایاں ہے…
ہم مے کشوں کا کام ابھی زیرِ غور ہے
جوتا چلے کہ جام ابھی زیرِ غور ہے
ان کو تو زیرِ گور ہوئے سال ہو گئے
پنشن کا سارا کام ابھی زیرِ غور ہے
ہر محفلِ سخن میں میں جاتا ضرور ہوں
لیکن مرا مقام ابھی زیرِ غور ہے
اکبر الٰہ آبادی اپنی نظم ’’برقِ کلیسا‘‘ میں ایک ماڈرن حسینہ سے برسرِ تکرار ہیں اور اسے یقین دلانے کی حتیٰ الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ شاعر مذہب ِاسلام کا پیروکار ضرور ہے مگر ساتھ ساتھ روشن خیال بھی ہے مگر حسینہ جھانسے میں آنے والی نہیں ہے اور اسلام کو ایک مشکل ترین مذہب قرار دے کر فرار چاہتی ہے، آخری حربہ کے طور پر شاعر اس سے کہتا ہے:
میرے اسلام کو ایک قصّۂ ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو
شاید اسی قسم کا کوئی واقعہ عنایت صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا ہوگا ان کی مذہب بیزار حسینہ بھی یقین دلانے کے باوجود شاعر کے جھانسے میں آنے سے گریزاں ہے۔ بالآخر شاعر وہی حربۂ اکبر الہٰ آبادی استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے:
تو جو لبرل ہے تو میں بھی نہیں بنیاد پرست
ایک ہی جیسے ہیں ہم دونوں مسلماں جاناں
سیاسی میدان ہو یا معاشرے کی خرابیاںہر جگہ عنایت صاحب کا تیر نشانے پر بیٹھتا ہے۔ خامیوں اور کوتاہیوں کو ایسے خوبصورت انداز سے پیش کرتے تھے کہ سننے والا پہلے ہنستا ہے پھر اس پر غور و فکر کرتا ہے
کہا تھا دوستی اتنوں سے مت کر
بوقتِ عقد پھڈّا ہو گیا نا!
روزمرّہ کے بولے جانے والے محاورے کو کس اچھے انداز سے استعمال کیا گیا ہے۔
بلا میک اَپ اسے دیکھا ہی کیوں تھا
تمنّاؤں کا کونڈا ہو گیا نا!
سیاسی میدان میں بدقسمتی سے ہمارا حال ہمیشہ یہی رہا ہے…
سیاسی کم نگاہی رنگ لائی
ہمیں پھر مارشل لا ہو گیا نا!
ہمارے معاشرے کی ایک اہم خرابی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں…
پارسائی کا پندار اپنی جگہ
فضلِ ربیّ کی جھنکار اپنی جگہ
اس کے آگے فرماتے ہیں…
گھر میں بیوی ہے آفس میں سیکریٹری
نور اپنی جگہ نار اپنی جگہ
رات پھر واپسی پر پٹائی ہوئی
وصل اپنی جگہ مار اپنی جگہ
ایک قطعہ پیشِ خدمت ہے۔ کیا اچھا طنز ہے… ہمارے حکمرانوں کے لیے کہ ان کی دینی کم فہمی کا حال یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دین کا علم رکھنے والوں کی جگہ صرف مساجدو مدارس ہیں…
مولوی مسجد و مکتب سے تعلق رکھے
ہر جگہ ٹانگ اڑانے کی ضرورت کیا ہے
غسلِ میّت کے لیے ہم اسے بلوا لیں گے
پارلیمنٹ میں آنے کی ضرورت کیا ہے
ایک اور مقام پر نشترزنی کر رہے ہیں…
افسری چھوڑ کے مسجد کی امامت کر لو
تم کو ’’پینے‘‘ کی نہ عادت نہ طلب ’’کھانے‘‘ کی
Bar Council میں مشاعرہ تھا ، عنایت علی خان بھی مدعو تھے، وکیلوں کا جم گھٹا تھا، یقینا جج حضرات بھی وہاں تشریف رکھتے ہوں گے یعنی سارے کے سارے قانون کے ہر نکتے سے واقفیت رکھنے والے نکتہ داں، نکتہ شناس مگر عنایت علی خان نے اس موقع پرجس نکتہ سنجی اور برجستگی کا ثبوت دیا وہ قابلِ ستائش ہے۔ قطعہ حاضرِ خدمت ہے آپ بھی داد دیجیے…
یہی جگہ ہے جسے لوگ بار کہتے ہیں
اور ایک بار نہیں بار بار کہتے ہیں
یہاں نہ مے ہے نہ میکش نہ جام و پیمانہ
خدا ہی جانے اسے کیوں یہ بار کہتے ہیں
عنایت علی خان کو زبان اور بیان پر پوری قدرت حاصل تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں بلا کی تاثیر ہے وہ جو کچھ کہتے تھے ان کی بات دل میں اتر جاتی تھی۔ طنزومزاح کہنا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں، بہت سارے شاعر اپنا نام مزاح گو کی فہرست میں شامل کروانا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مزاح اور مسخرہ پن میں بہت فرق ہے ایسی شاعری کس کام کی جس میں مقصدیت نہ ہو۔ عنایت صاحب کا مزاح اپنے اندر طنز بھی رکھتا ہے اور مقصد بھی…
اللہ تعالیٰ عنایت صاحب کو غریقِ رحمت کرے ۔انہی کے ایک شعر کے ساتھ اس مضمون کو اختتام پذیر کرتا ہوں…
دیکھنا اک دن عنایتؔ جا بسے گا زیرِ خاک
اور زمانہ دیکھتا کا دیکھتا رہ جائے گا

حصہ