عید قربان کے نئے تقاضے

628

حمیرا حیدر

2020ء کے آنے سے قبل بہت شور تھا کہ یہ بڑا ہی اہم سال ہوگا (علمِ الاعداد کے حساب سے)، مگر جب سے یہ سال چڑھا ہے بس چَن ہی چڑھ گیا ہے۔ آتے ہی دنیا کو ایسی وبا کا تحفہ دیا ہے کہ معیشت سے لے کر تعلیم، اور زراعت سے لے کر شعر و ادب تک گویا ہر شے پر اس کی واضح چھاپ ہے۔ یہاں تک کہ تہواروں پر بھی جو ملنا ملانا تھا لوگ اس سے بھی محروم ہوگئے۔ باقی مذاہب کی طرح مسلمانوں کے عظیم تہوار بھی عالمی طور پر اس کی نذر ہوگئے۔ عیدالفطر کے شیرخورمے اس دفعہ اپنے منفرد ذائقے سے محروم رہے۔ اب بات ہے بقرعید کی، مگر محسوس یہ ہورہا ہے کہ اس بار قربانی نہیں بلکہ ’’کروبانی‘‘ ہوگی۔ جیسا کہ 2020ء گزشتہ تمام برسوں سے مختلف ہے، اسی طرح یہ عیدِ قرباں بھی مختلف نظر آ رہی ہے۔
اس ’’کروبانی‘‘ نے عوام کو بہت سے دل چسپ نظاروں سے بھی محروم کردیا ہے، جس میں سرفہرست منڈی مویشیاں ہے۔ عام دنوں میں جہاں دھول مٹی اڑ رہی ہوتی ہے، عیدِ قرباں کی آمد کے ساتھ ہی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی ہوتی ہے، لوگ دور دور سے خوب صورت جانور دیکھنے آتے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لی جاتی ہیں۔ مختلف کھانوں کے اسٹال کی موجودگی سے ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔ اِس بار منڈی کچھ الگ شان سے سجی ہے۔ جانور تو حسبِ سابق بہت حسین و جمیل آرہے ہیں، مگر مویشی مالکان اور بیوپاری حضرات کے الگ رنگ ڈھنگ ہیں۔ اِس بار جانوروں کے سینی ٹائزیشن اور فیومیگیشن کے چارجز بھی ہیں۔ لامحالہ اس کا اثر جانوروں کی قیمتوں پر پڑا ہے۔ جو جانور جس قدر زیادہ سینی ٹائز تھا گاہکوں کی نگاہوں کا مرکز بھی وہی تھا۔ یہی نہیں بلکہ مہنگے خوشبودار ایمپورٹڈ سینی ٹائزر بھی استعمال استعمال ہوئے۔ اب اس سے مویشی مالکان پر جو بوجھ پڑا سو پڑا، مگراس بار انسان نہیں، جانور بھی اس عمل سے پریشان دکھائی دیے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ جانوروں سے اس وبا کے پھیلنے کے شواہد نہیں ملے، تاہم کوئی متاثرہ شخص اگر جانور کو ہاتھ لگائے تو جراثیم کھال پر رہ جائیں گے اور کسی دوسرے کو منتقل بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے نہ صرف مویشی مالکان بلکہ جانور بھی محتاط نظر آئے۔
منڈی مویشیاں میں ذوق و شوق سے آنے والے افراد میں بڑی تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہوتی ہے۔ جانور خریدنے جانا گویا عیدِ قرباں کی تیاریوں کا لازمی جزو ہے۔ مگر کیا کریں اس عالمی وبا کا کہ اِس بار 10 سال سے کم اور 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد کا داخلہ ممنوع قرار پایا۔ اس خبر سے ادھیڑ عمر افراد خاصے رنجیدہ خاطر نظر آئے۔ ان کی ماہرانہ رائے کے بغیر اب لڑکے بالے لاکھوں کے سودے کریں گے۔ منڈی میں ماسک اور دستانے لازم قرار دیے گئے۔ یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر افراد ایسی تمام پابندیوں سے آزاد ہی نظر آرہے تھے۔ البتہ جانوروں کو سکون تھا کہ اب ہر ایرا غیرا ان کے دانت چیک نہیں کررہا تھا۔ سماجی فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے بیوپاری کی گنتی (دانتوں) پر بھروسا کرنا مجبوری تھی۔
جانور کی خریداری کے بعد جانور کی نمائش اور ڈبل قیمت بتانے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ عموماً بچوں کو شام میں اپنے بکروں کو نہلا دھلا کر سیر کرانے لے جانا ہوتا ہے۔ جب کہ بڑے جانور کو قابو کرنا بڑوں کا ہی کام ہوتا ہے۔ اس بار محسوس یہ ہورہا تھا کہ جانوروں کی بتائی گئی دگنی تگنی قیمت کو ماننا پڑے گا، بلکہ اس بات کا بھی یقین کرنا پڑے گا کہ جانور اور مالک دونوں کورونا کا ٹیسٹ بھی کرا چکے ہیں۔ بکرے کو باہر لے جاتے وقت اور واپس گھر لاتے وقت اچھی طرح سینی ٹائز کیا گیا۔
اب آتا ہے سب سے اہم مرحلہ یعنی قسائی کی بکنگ۔ 99 فیصد قسائی عید کے دن جُل دے جاتے ہیں۔ ہزارہا فون اور تاکید کے باوجود وقت پر نہیں آتے۔ چونکہ یہ ’’کوروبانی‘‘ ہے تو اب کی بار قسائی بھی ایسا ڈھونڈنا پڑے گا جو کورونا ٹیسٹ کرا چکا ہو، مکمل ایس او پیز کے ساتھ فیس اسکرین بھی لگائے ہو۔ ممکن ہے اہلِ خانہ اسے پہلے غسل اور سینی ٹائز کرنے کے بعد قربانی کے جانور تک جانے دیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ قسائی کہاں کہاں سے قربانی کرکے آیا ہے۔ عید کی نماز سے زیادہ فکر قسائی کی ہوتی ہے۔
گوشت کی تقسیم بھی ایک بہت اہم مرحلہ ہے۔ قربانی کرنے والے افراد ضرور نادار اور غریب طبقے تک گوشت پہنچائیں۔ خاص کر اپنے اردگرد اُن سفید پوش گھروں کی خبر ضرور رکھیں جو دروازے بجاکر مانگ نہیں سکتے۔
اب آتا ہے مرحلہ جس کا سب کو انتظار ہوتا ہے، اور وہ ہے گوشت کھانے کا۔ عیدِ قرباں کلیجی پارٹی سے شروع ہوتی اور پھر تکہ پارٹی، کباب پارٹی، ران پارٹی، چانپ پارٹی، نہاری پارٹی سے ہوتی ہوئی بالآخر سری پائے پارٹی پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ مختلف تراکیب یوٹیوب یا دوسری ویب سائٹس سے حاصل کی جاتی ہیں اور آزمائی بھی جاتی ہیں۔
بیرون ممالک یعنی پردیسیوں کی عید دیس کی عید سے بہت مختلف ہوتی ہے، خاص طور پر عیدالاضحی۔ زیادہ تر افراد تو اپنی قربانی اپنے اہل و عیال کو کرنے کا کہہ دیتے ہیں اور بے فکر ہوجاتے ہیں۔ جنہیں قربانی خود کرنی ہوتی ہے انہیں بہت لمبے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ عید سے پہلے جاکر بکرے کی بکنگ کی جاتی ہے۔ پھر عید کے دن سلاٹر ہاؤس جاکر اپنے بکروں سمیت قطار میں کھڑا ہونا اور باری کا انتظار کرنا۔ یہ سارا کام عصر اور مغرب کے درمیان بمشکل انجام پاتا ہے۔
دیس ہو یاپردیس، یہ سال 2020ء کچھ نئے رنگ ڈھنگ لے کر آیا ہے۔ ہمیں انہی رنگوں سے اپنی زندگی کو سجانا ہے، سنوارنا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے ان رنگوں سے اپنی زندگی کے ڈھنگ درست کرتے ہیں۔
nn

حصہ