آج کی چھوٹی مصیبت کل کی بڑی مصیبت سے بہتر ہے

986

کہتے ہیں کہ ایک دانا نے بادشاہِ وقت کی زخمی انگلی کو دیکھا تو کہا کہ آنے والی بڑی تکلیف سے بہتر ہے ابھی کی یہ چھوٹی تکلیف۔ بادشاہ کو غصہ آگیا اور اس دانا کو قید کردیا۔ اگلے چند دنوں میں بادشاہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا، راستے میں وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر ایک جنگلی قبیلے کے ہاتھ لگ گیا۔ انہوں نے اسے پکڑ کر سردار کے حوالے کیا، جس نے حکم دیا کہ اسے دیوتا کے لیے نذرانے میں ذبح کردو۔ اچانک سردار کی نظر اس کی زخمی انگلی پر پڑی تو وہ چیخ پڑا ’’نہیں… نہیں، یہ نقص والا ہے، ہم اسے اپنے دیوتا پر قربان نہیں کرسکتے۔‘‘ لہٰذا قبیلے نے اسے آزاد کردیا۔ اسے اپنے دانا وزیر کی بات یاد آگئی کہ چھوٹی مصیبت آنے والی بڑی مصیبت سے بہتر ہے۔ خیر وہ کسی طرح اپنی ریاست میں پہنچا اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس دانا وزیر کو آزاد کردیا جس نے دانائی کی بات کی تھی۔
…٭…
ہم اپنے چاروں طرف حالات و واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ چھوٹی تکلیف یا پریشانی یا مسائل آنے والے وقت میں کسی بڑی تکلیف سے خبردار کرتے یا بچاتے ہیں۔
ایک خاتون نے بتایا کہ میری بیٹی کا رشتہ جہاں لگا، شادی سے پہلے لڑکے والوں نے انکار کردیا۔ یہ بات میرے اور میری فیملی کے لیے ایک بڑے صدمے سے کم نہ تھی، خصوصاً میری بیٹی بہت اداس رہنے لگی۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ (لڑکے والے) قادیانی تھے۔ میں نے اور میری فیملی نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اُس نے ہمیں ایک بڑی مصیبت و تکلیف سے بچا لیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ میری ایک اور دوست کے ساتھ بھی پیش آیا۔ بیٹے کی شادی سے صرف چند دن پہلے جب کہ شادی کے کارڈ وغیرہ بانٹے جا چکے تھے، لڑکی والوں نے انکار کردیا، جس سے میری دوست اور اس کے گھر والوں کو بڑی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ میری دوست نے بتایا کہ یہ واقعہ میرے لیے اور خصوصاً میرے بیٹے کے لیے صدمے کا باعث تھا، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہم دنیا والوں کا سامنا کس طرح کریں گے، لوگوں کو کیا وجہ بتائیں گے؟
خیر، کچھ ہی دنوں میں میرے بیٹے کے ایک دوست نے ایک نیک، صوم و صلوٰۃ کی پابند بچی کا رشتہ بتایا۔ ہم نے رب العالمین کے بھروسے پر شادی کردی۔ کیوں کہ میرے گھر کا ماحول بھی دینی ہے اس لیے یہ رشتہ ہمارے لیے مبارک تھا۔، جب کہ کچھ عرصے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ بیٹے کا جو رشتہ ختم ہوا تھا وہ لوگ کافی آزاد خیال تھے بلکہ لڑکی والدین کو منع کرتی رہی تھی کہ میں اس لڑکے سے شادی نہیں کروں گی، شادی سے کچھ دن قبل اپنے مطلب کا ایک لڑکا اُسے پسند آگیا، اُس لڑکی نے اس سے نکاح کرلیا۔ تب میری دوست نے شکر ادا کیا کہ بے شک وہ وقت ہم سب کے لیے بڑا اذیت ناک تھا لیکن اللہ نے ہمیں آنے والے نہایت اذیت ناک انجام سے بچایا۔
…٭…
اکثر اس نوعیت کے واقعات سے انسان دل برداشتہ ہوجاتا ہے اور سوچتا ہے کہ میرے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ لیکن میرے رب کی مصلحتیں وہی جانتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے، انہیںچھوٹی چھوٹی تکلیفیں دے کر آزماتا ہے، بلکہ یہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں بندوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دینے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ انسان ٹھوکریں کھا کر سیکھتا بھی ہے۔
مجھے اپنا یہ واقعہ زندگی بھر یاد رہے گا جس کا اکثر میں ذکر بھی کرتی رہتی ہوں، اس واقعے نے آنے والے وقت میں مجھے بڑی تکالیف اور مسائل سے بچایا بھی ہے۔
اس دن میٹرک کا تیسرا پرچہ تھا، لیکن اکثر ہم جماعت ساتھیوں کے ہاتھوں میں سائنس کی کتابیں بھی تھیں، ہم جماعت دوستوں نے کہا کہ کیوں کہ سائنس کا اگلا پرچہ مشکل ہے اس لیے کتابیں ساتھ رکھ لیں کہ اگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تو ایک دوسرے سے سمجھ لیں گے (ہمارا ہوم اکنامکس گروپ تھا جس میں ہمیں فزکس، بائیولوجی، کیمسٹری تینوں حصوں کا پرچہ دینا تھا)۔ ہم جماعتوں کی اس بات سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اگلا پرچہ یقینا سائنس کا ہے جو دو دن کے بعد تھا۔ خیر، گھر آکر شام کو میں نے بھی سائنس کے مضمون کی تیاری شروع کردی بغیر ٹائم ٹیبل دیکھے کہ اگلا پرچہ کس مضمون کا ہے۔ دو دن بعد بڑی تیاری کے ساتھ سینٹر پہنچی تو سب کے ہاتھوں میں اسلامیات کی کتابیں اور کاپیاں دیکھ کر چونکی، جب پتا چلا کہ آج سائنس کا نہیں بلکہ اسلامیات کا پرچہ ہے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ یااللہ اب کیا ہوگا؟ اماں کے تمام بچوں کی تعلیمی کارکردگی کی سب تعریف کرتے تھے، اب تو اپنے سے زیادہ اماں کی عزت کا خیال تھا۔ صرف دعائیں تھیں جو لبوں پر آرہی تھیں۔ سبحان اللہ یہ دعائیں تھیں اپنی اور اماں کی بھی کہ اسلامیات کا پرچہ بہترین ہوگیا، لیکن اس ایک غلطی نے زندگی بھر کے لیے چوکنا کردیا۔ ہر قدم پر احتیاط، سنبھل کر قدم اٹھانے کی عادت اس ایک غلطی سے ہوئی، اس ایک غلطی نے آئندہ زندگی میں آسانیاں پیدا کیں۔
دیکھا گیا ہے کہ سمجھ دار اور حساس لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات نظر آتے ہیں کہ اللہ کے بندوں نے نقصان اٹھایا تو اپنا محاسبہ کیا کہ کیوں نقصان ہوا؟ کہاں کہاں غلطی سرزد ہوئی؟ کس طرح ان غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے تاکہ آنے والے وقت میں بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
غزوہ احد اسلام اور کفر کا ایک بڑا معرکہ گزرا ہے۔ مسلمانوں کی جیتی ہوئی بازی نے پلٹا کھایا جس سے مسلمانوں کو سخت جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، جس کا افسوس آپؐ اور صحابہ کرامؓ کو تھا، لیکن ایک مثبت پہلو جو اس نقصان سے اجاگر ہوا، جس نے آگے چل کر مسلمانوں کو کامیابیاں نصیب کیں اور کسی بڑے نقصان سے بچایا وہ تھا اپنا محاسبہ اور اپنی غلطیوں کی نشاندہی۔ رب العزت نے اس غزوہ کے ذریعے مسلمانوں کو نصیحت و سبق عطا کیا جو آئندہ ان کے کام آیا۔ اگر اللہ چاہتا تو اس غزوہ احد میں بھی مسلمانوں کو کامرانی دے سکتا تھا، لیکن اس ایک نقصان کے ذریعے رب نے بہت سے ایسے دریچے عالم اسلام کے لیے کھول دیے جن کی آگاہی سے نہ صرف مسلمانوں نے آئندہ احتیاط برتی بلکہ اپنی صفوں کو نئے سرے سے آراستہ کیا۔ (سبحان اللہ)
…٭…
آج کورونا کی وجہ سے پاکستان آزمائش سے گزر رہا ہے، کورونا نے واقعی ایک وبا کی صورت اختیار کرلی ہے جس کا دائرہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ اس موضوع پر لکھتے ہوئے آج کے حالات دماغ میں گردش کررہے تھے کہ لاک ڈائون کی سختی برقرار رہتی، عید پر رعایت نہ دی جاتی عوام الناس کو تو شاید اس قدر خطرناک صورت حال سامنے نہ آتی۔ کہا جارہا ہے کہ لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے لاک ڈائون میں نرمی کی گئی۔ ذرا سوچیں وہ بھوک اتنی خطرناک نہ تھی جتنی آج کی صورتِ حال خطرناک بن گئی ہے۔ مجھے موضوع کی ابتدا میں دانا وزیر کی بتائی ہوئی بات یاد آرہی ہے کہ ’’آج کا چھوٹا نقصان ہمیں کل کے بڑے نقصان سے بچا سکتا ہے‘‘۔ اس لاک ڈائون کو ہٹانے سے بے شک تاجروں اور کاروباری لوگوں کی ہی تجوریاں بھری ہیں، لیکن اس وبا نے آج امیر و غریب ہر ایک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے جس سے نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی بخوبی واقف ہیں۔ ہم سب نے اس چھوٹی مصیبت جو لاک ڈائون کی وجہ سے پیش آئی تھی، کے بجائے بڑی مصیبت اور تکلیف کو خود دعوت دی ہے۔ خدا ہم سب پر رحم فرمائے، اب تو یہی دعا ہے۔
…٭…
والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے بچپن سے ہی ان کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لیے اقدامات کرتے ہیں، بعض اوقات ضرورت پڑنے پر والدین بچوں سے سختی کرنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ اکثر بچے والدین کی اس سختی اور پابندی کو اپنے لیے مصیبت سمجھتے ہیں اور نالاں بھی نظر آتے ہیں، لیکن ایک وقت آتا ہے جب اولاد فخر سے اپنے والدین کے اس طریقہ کار کو سراہتی ہے اور فخر سے کہتی ہے کہ اگرچہ اُس وقت والدین کی یہ مثبت پابندیاں دل پر گراں گزرتی تھیں لیکن آنے والے وقت میں بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے فائدہ مند اور کارآمد ثابت ہوئیں، اور ہمارے والدین یہ طریقہ اور رویہ اگر نہ اپناتے تو ہمارا مستقبل تباہ ہوجاتا جو ہمارے لیے زندگی کا سب سے بڑا نقصان ثابت ہوتا۔ پھر ایسی ہی سنوری ہوئی اولاد اپنی اولاد کی بھی انہی خطوط پر تعلیم و تربیت و پرورش کی کوشش کرتی ہے۔ اسی قسم کے والدین بھی اپنی اولاد کو نیک و صالح دیکھ کر نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ ہم نے اپنے قیمتی وقت اور طریقے سے اولاد کی تربیت کی۔ خدانخواستہ اگر والدین لاپروائی سے دنیا کی راہوں پر بچوں کو بے لگام بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیں تو اس کا خمیازہ آنے والے وقت میں اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے جو ناقابلِ تلافی نقصان کے زمرے میں آتا ہے۔ یعنی والدین کے اقدامات جو اُس وقت اولاد کے لیے تکلیف دہ تھے ، آنے والے وقت میں ان کے لیے بڑے نقصان سے بچائو کے لیے ضروری ہیں۔
…٭…
آج یہ وبا، جو ہم سب کے لیے ایک آزمائش ہے اور کسی عذاب سے کم نہیں، ایک طرح سے آخرت کے بڑے عذاب اور نقصان سے ہمیں بچا سکتی ہے، جس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف دل و جان سے رجوع کریں، یکسو ہوکر اسلام میں داخل ہوجائیں۔ والدین بھی تو بچپن میں ہمارے مستقبل کو سنوارنے کے لیے پابندیاں لگاتے اور کوشش کرتے ہیں، ڈانٹ ڈپٹ اور بعض اوقات ضدی بچوں کی پٹائی بھی کرتے ہیں، کیوں کہ وہ ہمارا بھلا چاہتے ہیں۔ آج ہم اس دوراہے پر آکھڑے ہوئے ہیں جہاں ماضی میں عذاب میں گرفتار ہونے والی تمام قوموں کی برائیاں ہم میں پیوست ہوچکی ہیں۔ میرا رب جو ستّر مائوں سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے، ہم سے محبت کرتا ہے، وہ ہمیں آخرت کے بڑے عذاب سے بچانے کے لیے جھنجھوڑ رہا ہے کہ اس تکلیف اور مصیبت کو اپنے لیے آخرت کے آنے والے عذاب اور مصیبت سے بہتر سمجھو جو تمہیں بچا سکتی ہے آخرت کے عذاب سے، جو نہ ختم ہونے والا ہوگا۔ لیکن شرط یہی ہے کہ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف۔ تو یہ چھوٹا عذاب آخرت کے بڑے عذاب سے بہت کم ہے۔
جیسا کہ سورۃ السجدہ کی آیت 21 میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور اس بڑے عذاب سے پہلے ہم انہیں کم درجے کے عذاب کا مزا چکھاتے رہیں گے، شاید یہ ( ہماری طرف) لوٹ آئیں۔‘‘
جس طرح دانا کی بات بادشاہ کی سمجھ میں آگئی تھی کاش کہ ہم سب کو بھی اس آیت کا مفہوم اور مقصد سمجھ میں آجائے تاکہ ہم آخرت کی بڑی تکلیف سے بچ سکیں، اور تکلیف بھی ایسی ہوگی جس کا اختتام ہی نہ ہوگا۔ اللہ ہم سب کو آخرت کے اس عذاب سے محفوظ رکھے، آمین ثم آمین یارب العالمین۔

حصہ