پہاڑوں کے بیٹے

420

(اٹھارہویں قسط)
زبیر اُس دن چھائونی میں تھا جب زبردست دھماکوں کی آواز آئی تھی۔ سب لوگ اپنے اپنے کمروں سے نکل کر بھاگ رہے تھے۔ کوئی کہیں چھپنے کی کوشش میں تھا تو کوئی دیوانہ وار نامعلوم سمت میں بھاگ رہا تھا۔
زبیر نے بھی باہر کا رخ کیا۔ انٹروگیشن سینٹر کی سمت سے مسلسل دھماکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ زبیر نے دل ہی دل میں بھائی کی کامیابی کے لیے دعا کی۔ یقینا وہ لوگ پہچان لیے گئے ہوں گے اور اب فیروز نے بارود خانے کے ساتھ سینٹر میں لگے مختلف مقامات پر بارود کو آگ لگا دی تھی۔
چند منٹ زبیر دھویں، آگ اور آوازوں کی سمت دیکھتا رہا، پھر جیسے اس کو کچھ یاد آیا، اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، سب پر بدحواسی سی طاری تھی۔ زبیر نے سوچا کہ اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ چھائونی میں تین مختلف مقامات پر اسلحہ کو اسٹور کیا ہوا تھا، اُس وقت روسی بہت تیزی کے ساتھ چھائونی خالی کررہے تھے کیوں کہ اسلحہ میں آگ لگنے کا خدشہ تھا۔
’’صرف ایک کو آگ دکھانا ہی کافی ہوگا۔‘‘ زبیر نے دل میں سوچا، باقی کام تو خودبخود ہوجائے گا۔ وہ تیزی کے ساتھ درمیان میں واقع سینٹر کی طرف بڑھنے لگا۔
وہاں سے نکلنے والے کئی فوجیوں نے اسے وہاں جانے سے روکنے اور خطرے میں نہ جانے کا اشارہ کیا لیکن زبردست ایمرجنسی کے بہانے وہ عمارت میں داخل ہو گیا۔ اسٹور خالی تھا۔ تمام روسی اور افغان فوجی جان بچانے کے لیے نکل چکے تھے۔ اس نے الیکٹرک تار بڑی مہارت کے ساتھ بچھایا اور سرا ہاتھ میں تھام کر باہر نکل گیا۔
ماچس ہاتھ میں لے کر وہ آگ دکھانے ہی والا تھا کہ اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے پلٹا۔
’’ہالٹ…‘‘ ایک روسی کی کرخت آواز گونجی۔ یہ کرنل کارمانوف تھا۔ چھائونی میں اس کے ساتھ زبیر کی کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
’’ہم کو تم پر پہلے ہی شک تھا زووبیر… لیکن اب تم بچ نہ پائے گا۔‘‘ کرنل نے اچانک زبیر کا نشانہ باندھ لیا۔
…٭…
اگرچہ فاطمہ کی خواہش تھی کہ ہلال بھائی کی شادی پورے ارمان سے کی جائے لیکن زینب اور صفیہ دونوں جانتی تھیں کہ خوشیوں کے وہ سارے پیمانے جو دنیا والوں کی نظر میں بے حد اہمیت رکھتے ہیں، اب ان کے لیے ناکارہ ہو چکے ہیں، لیکن ساتھ ہی فاطمہ کا دل توڑنا بھی مناسب نہیں سمجھتی تھیں۔
’’دیکھو فاطمہ! ہم چاہتے ہیں کہ ہلال کی شادی کے فرض سے جلدازجلد سبکدوش ہو جائیں۔ تم جانتی ہو کہ وہ جانے کی ضد کر رہا ہے۔‘‘ زینب نے فاطمہ کو بٹھا کر سمجھایا۔
’’لیکن اماں میں چاہتی ہوں کہ جمال بھائی اور کمال بھائی بھی اپنے کمانڈر سے چھٹی لے کر آجائیں۔ اور بابا! شاید بابا بھی اتنے عرصے میں ہمارے پاس آجائیں۔ آخر یہ ہمارے گھر میں آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی شادی ہے۔‘‘
فاطمہ کے چہرے پر آس و امید کی سنہری کہکشاں بکھر گئی۔ زینب نے بیٹی کو بھائیوں کی شہادت کی خبر سے بے خبر رکھا ہوا تھا۔ وہ امید سے تھی اور اس سے پہلے ایک دفعہ نئی زندگی کی خوشی آتے آتے منہ موڑ کر چلی گئی تھی۔ اس دفعہ ڈاکٹر نے بہت احتیاط کے لیے کہا تھا۔ زینب نے سوچا تھا بعد میں یہ خبر فاطمہ کو سنا دے گی کہ ہے تو پھر بھی خوشی کی خبر ہی ناں۔
زینب نے فاطمہ کی کمزوری پکڑ لی اور یوں فاطمہ بھائی کی جلدازجلد اور سادگی سے شادی کے لیے تیار ہو گئی۔ یوں بھی خیموں کے اس شہر میں شادیاں ایسے ہی سادگی اور خاموشی سے کی جاتی تھیں۔ لٹے پٹے، معذور اور کئی کئی شہدا کے وارث خوشیوں کے مفہوم اور اظہار کے طریقوں سے نا آشنا ہی تھے۔
زینب نے پلوشہ کے لیے کھلتے ہوئے گلاب کا سرخ رنگ کا جوڑا اپنے ہاتھوں سے سیا تھا، جس کے کنارے گوٹے کی چمکدار بیل لگائی تھی۔ درمیان میں گوٹے کے چمکدار پھول بھی خود ہی بنا کر لگائے تھے۔ پلوشہ کی سرخ و سفید رنگت سرخ دوپٹے اور سنہری کنارے کی جھلملاہٹ میں دمک رہی تھی۔
فاطمہ نے اپنے سارے گہنے اس کو پہنا دیے تھے۔ گل جانہ نے بلال سے گلاب کے ڈھیروں پھول منگوا کر اس کے لیے پھولوں کا زیور اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اور باقی بچے ہوئے گلاب کی لڑیاں بناکر ہلال کے بسترکے گرد لگا دی تھیں۔ گلاب کی جھڑنے والی پتیاں بستر پر ڈال دی تھیں۔
نکاح دوپہر کو ہی ہوگیا تھا۔ پلوشہ کا معذور بوڑھا باپ بہت خوش تھا، لیکن پتا نہیں خوشی کے اس موقع پر آنکھوں میں آنسو کیوں بار بار بھر جاتے ہیں۔ وہ بار بار اپنی پگڑی ٹھیک کرتا اور کندھے پر پڑے رومال سے آنکھیں صاف کررہا تھا۔ اس کو آج پلوشہ کی ماں کے ساتھ اس کے بہن، بھائی بھی یاد آرہے تھے۔ اس گلشن کے پھول جو اب جنت کے پھول بن چکے تھے۔
’’بڑی بھاگوں والی تھی تُو کہ شہید بن کر جنت کو سدھاری۔ یارب میرے بھی نصیب میں شہادت کی موت ہی لکھنا۔‘‘ پلوشہ کا باپ دل ہی دل میں بیوی سے باتیں کررہا تھا اور رب سے دعائیں۔
’’ابراہیم خان! تیرا فرض تو اب ادا ہوگیا ناں، تو بس اب میدان کا رخ کر، تیرا معذور وجود دین پر قربان ہوجائے، اس سے بڑھ کر سعادت کیا ہوگی!‘‘ اس کی سوچ یکایک ایک دوسری سمت سفر کرنے لگی۔ ’’ہاں ٹھیک ہے، داماد اور سسر اب ایک ساتھ ہی افغانستان جائیں گے۔‘‘ اس نے دل میں پکا ارادہ کرلیا۔ زینب نے پہلے ہی ہلال کے ارادے کے بارے میں ابراہیم خان کو مطلع کردیا تھا۔
یوں شادی کے کچھ عرصے بعد ہلال ماں کی اجازت سے روانہ ہوا تو پلوشہ کا معذور اور بوڑھا باپ بھی اس کے ہمراہ تھا۔ ہرچند کہ ہلال کے ساتھ ساتھ بلال نے بھی بہت سمجھایا کہ وہاں کمانڈر اس کو آگے جانے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ اگر مجاہد بننا اس کی قسمت میں نہیں تو مجاہدوں کی خدمت تو کرسکتا ہے۔
جہاد کیمپ میں ہلال کا جوش و جذبے کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا۔ یہ اس گھرانے کا پانچواں مجاہد تھا۔ پھر بھی تربیت کے حصول کے لیے اسے کچھ عرصے اسی کیمپ میں رہنا تھا۔ جلد ہی اس نے ہر قسم کا اسلحہ چلانے میں مہارت حاصل کرلی۔ اس کو خاص طور پر بارودی سرنگیں بے کار کرنے اور دشمن کے راستوں پر بارود بچھانے کی تربیت دی گئی اور ساتھ ساتھ اسٹنگر میزائل چلانا بھی سکھایا گیا۔ یہ ایک ایسا ہتھیار تھا جس سے روسی بمبار طیارے انتہائی خوف زدہ رہتے تھے۔ یہ ایک مجاہد اپنے کندھے پر رکھ کر استعمال کرسکتا تھا۔ درست نشانے کے ساتھ لگایا جانے والا میزائل بمبار طیارے کو زمین بوس کرنے کے لیے کافی تھا۔
جہاد کیمپ میں پہلی بار ہلال کو اپنے باپ زبیر کے بارے میں اطلاع دی گئی، لیکن ساتھ ہی ہدایت دی گئی کہ اس سلسلے میں انتہائی احتیاط ملحوظ رکھے اور کسی بھی فرد کو، خواہ وہ کتنا ہی بااعتبار کیوں نہ ہو، اس کے بارے میں نہ بتائے۔ تمہارا باپ جس مقام پر ہے، وہ ایسا ہی ہے جیسے جنگلی ریچھ کے منہ میں اپنا سر دینا۔ وہ وہاں بہت اہم خدمات انجام دے رہا ہے، اس نے اب تک ہمارے بہت سے اہم اور قیمتی مجاہدین کی جان بچائی ہے۔ بس تم دعا کرو کہ خدا اس کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
کمانڈر ادریس کے ساتھ کھڑے مجاہدین کے سربراہِ اعلیٰ اسماعیل خان نے ہلال کو سینے سے لگایا اور کمر پر تھپکی دیتے ہوئے کہا ’’تم ابھی پندرہ دن اور تربیت حاصل کرو گے، اس کے بعد جانے والے مجاہدین کے گروہ میں تم شامل ہوگے، خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔‘‘
محاذ سے کسی اہم اطلاع کی آمد کی خبر پاکر کمانڈر ادریس نے ہلال کو جانے کا اشارہ کیا۔ آنے والی اہم اطلاع انٹروگیشن سینٹر کے علاوہ چھائونی کی تباہی کی تھی۔ چھائونی کے علاوہ اسلحہ کے تین ڈپو بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔
کمانڈر ادریس نے اطلاع لانے والے مجاہد سے زبیر کے بارے میں دریافت کیا۔
’’نہیں زبیر کے بارے میں تو کوئی اطلاع نہیں ملی، چھائونی اور اسلحہ کی تباہی کی اطلاع قریب کے کچھ مجاہدوں نے پہنچائی ہے۔ انہوں نے عمارتوں کو دھماکے کے ساتھ اڑتے اور دھواں اگلتے خود دیکھا تھا۔ کمانڈر ادریس ایک لمحے کو پیغام لانے والے مجاہد کو دیکھتا رہ گیا۔ مجاہد بھی حیران تھا کہ خبر تو خوشی کی ہے لیکن کمانڈر صاحب خوش ہونے کے بجائے فکرمند ہوگئے ہیں۔ اسے کیا پتا کہ کمانڈر ادریس کے نزدیک زبیر کتنا قیمتی مجاہد تھا۔
’’بہرحال اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ اگر زبیر کے لیے اللہ نے شہادت کی خلعتِ فاخرہ سے نوازنے کا یہی وقت مقرر کیا تھا تو پھر وہ خلعت اور تاج یقینا اس کو پہنایا جا چکا ہوگا۔‘‘ کمانڈر ادریس دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ہلکے سے مسکرایا۔
مجاہد کمانڈر ادریس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر دوبارہ حیران ہوا۔ کمانڈر نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نئی خبر ملی۔ یہ شیردل کا کمانڈر عبدالجبار خان لایا تھا۔ وہ زخمی بھی تھا اور تھکا ہوا بھی، لیکن اس کے باوجود چاہتا تھا کہ خود کمانڈر ادریس کو معرکے کی روداد سنائے۔
اس کے کپڑے انتہائی خاک آلود تھے، جوتے مٹی سے بھرے ہوئے اور چمڑے میں جابجا سوراخ تھے۔ سر کا عمامہ خون کے دھبوں اور مٹی سے مٹیالا ہورہا تھا۔ اس نے اپنے کمانڈروں سے ہاتھ ملایا اور کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر سیدھا کھڑے رہنے کی سعی کرنے لگا۔ ادریس خان نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
عبدالجبار کو لانے والے مجاہد نے بتایا کہ اس کی کمر میں زخم ہے جس کے باعث اس کو کھڑے رہنے میں دشواری ہے۔
’’عبدالجبار تم کو طبی امداد کی فوری ضرورت ہے، ہم تمہاری پوری بات وہیں آکر سن لیتے ہیں، ابھی تم میڈیکل کیمپ میں جائو۔ تم جانتے ہو کہ تم ہمارے لیے کس قدر قیمتی ہو۔‘‘
عبدالجبار کی ہچکچاہٹ پر اسماعیل خان نے اس کو فوراً میڈیکل کیمپ میں لے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے کمانڈر کے حکم پر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی خواہش تھی کہ معرکہ کی تفصیلات اور اپنی جان بچ جانے کی صفائی خود پیش کرے۔
لیکن اطاعتِ امیر میدانِ جہاد کا پہلا اصول ہے۔ اس لیے وہ دو مجاہدین کے ساتھ خیمے سے باہر نکل گیا۔ دوسرے دن کمانڈر ادریس اور اسماعیل خان بذاتِ خود اس کی عیادت کو گئے۔ خیموں سے بنے میڈیکل کیمپ میں طبی سہولتیں تو موجود تھیں لیکن ناکافی تھیں، لہٰذا زیادہ تر زخمی مجاہدین کو شہر میں واقع سرجیکل اسپتال بھیج دیا جاتا تھا۔ کیمپ میں ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروف ڈاکٹر موجود تھے جنہوں نے مجاہدین کی خدمت کو اپنا مقصدِ زندگی بنا رکھا تھا۔ شہر کی آسائشوں، سہولتوں اور پُرکشش تنخواہوں کو چھوڑ کر انہوں نے اس پُرمشقت زندگی کو ان سب پر فوقیت دی تھی۔ نہ یہاں نرم گرم بستر تھا، نہ پسند کا مزیدار کھانا، اور نہ ہی معاوضہ… لیکن انہیں معلوم تھا کہ جو کچھ تھا وہ اِس دنیا کی تمام تر آسائشوں اور بلند ترین معاوضوں سے بیش قیمت تھا۔
یہاں ناکافی طبی سہولتوں سے بھی معجزے ہوتے تھے، حیرت انگیز طور پر ہڈیاں جلد جڑ جاتیں اور گہرے زخم مندمل ہوجاتے۔ یہ اللہ کی مدد تھی، جس پر مجاہدین کے دل ایمان پر اور مضبوط ہوجاتے۔ کمانڈر ادریس اور کمانڈر اسماعیل خان عبدالجبار کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
دو دن پہلے جو سیدھا کھڑا ہونے میں مشکل محسوس کررہا تھا، آج تر و تازہ اور مکمل صحت مند نظر آرہا تھا۔ ڈاکٹر اس کے زخم کا معائنہ کررہا تھا۔ وہ خود حیران تھا کہ کل تک جس زخم کی گہرائی اس قدر تھی کہ ہڈیاں نظر آرہی تھیں، آج زخم سوکھنے کے نشانات نظر آرہے ہیں۔ سبحان اللہ… اللہ اکبر۔ (جاری ہے)۔

حصہ