زندگی کس چیز کا نام ہے؟ آرام آسائش اور اطمینان یا کامیابی اور سربلندی کا؟ غم وہم یا تکلیف و آزمائش کا ؟ شاید زندگی ان دونوں میں سے کسی ایک کے خاصے کا نام نہیں بلکہ اتار چڑھاؤ کے ساتھ چلتے رہنے کا ایک پیچیدہ نظام ہے جسے انسان کی ناقص عقل سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ مگر وقت کے ساتھ وہ جان لیتا ہے کہ زندگی آسان نہیں اور ایک دوراہے کا نام ہے جس پر چلنے کے لیے اختیار کیے جانے والے رویے اس سفر کی کا معیار متعین کرجاتے ہیں
’’پس بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے قرآن کا یہ فلسفہ زندگی کے اس فلسفے کی ترجمانی کرتا ہے اس پر یقین رکھتے ہوئے جو چل پڑے اور خوشی و غم کے اوقات میں یہ ذہن نیشن رکھے کہ ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘ تو زندگی سے ملنے والے اسباق اس کے لیے بہترین رہنما بن جاتے ہیں۔
ہر انسان زندگی کو الگ انداز سے برتتا ہے۔ زندگی میں پیش آنے والے کٹھن حالات اور مراحل سے ہر ذی شعور الگ طریقے سے نبرد آزما ہوتا ہے۔
آج ہم نے معاشرے میں موجود اپنے اردگرد لوگوں سے بات چیت کی اور معلوم کیا کہ مشکل لمحات میں انہوں نے زندگی کو کیسا پایا اور کیا جانا۔ ان کے حقیقت سے قریب اور حکمت سے لبریز خیالات یقیناً قارئین کے لیے دل چسپی کاباعث ہوںگے۔
1) آپ کی زندگی کا سب سے مشکل وقت کون سا تھا جب آپ کا دل تڑپ اٹھا ہو اور سب کچھ بند ہوتا محسوس ہوا ہو؟
2) ایسے میں سب سے پہلے آپ کا کیا ردعمل تھا؟
3) اس واقعے سے آپ نے اپنی زندگی کے لیے کیا سبق سیکھا؟
…٭…
ثمینہ( طالبہ کالج)
1)میرے لیے زندگی کا مشکل ترین وہ وقت تھا جب میرے بابا مجھے اور ماما کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔
2) اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ بس ایک چپ تھی۔ ایک خاموشی اور سکتہ تھا۔ یقین ہی نہیں آتا تھا لیکن وقت کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی یقین کرنا ہی پڑا۔ آخر ہمیں اسی دنیا میں جینا تھا۔
3)حالات و واقعات مجھے یہ سمجھا گئے کہ باپ نہ ہو توسب اپنے نقاب اتار پھینکتے ہیں۔ ہم سے بہت سے رشتہ داروں نے ملنا چھوڑ دیا اور جو ملتے تھے وہ ترس کھانے لگے جیسے ہم بہت مظلوم ہوں۔ ایسے مشکل وقت میں اپنے رب سے صبر مانگا اور اس نے عطا کیا کیونکہ وہ المجیب ہے، دعائیں قبول کرتا ہے۔ اب الحمدللہ زندگی پرسکون ہے۔
بختیار (طالبہ کالج)
1) جب میری سپلی آئی اور بورڈ کے کچھ پیپر میں فیل ہو گئی تو وہ وقت بہت کٹھن تھا۔ لوگوں کے رویوں اور طعنوں نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا۔
2) سب سے پہلا رد عمل یہ تھا کہ لوگوں کے رویے اور حالات کی سختی نے مجھے اپنی جان لینے پر آمادہ کرڈالا۔ ایسا لگتا تھا کہ مجھے جینے کا حق نہیں۔ اپنے آپ سے نفرت ہوگئی تھی۔ ایسے میں میرے گھر والوں نے مجھے سنبھالا۔ لوگوں کی باتوں سے میں تنہائی پسند ہوگئی اور اپنے آپ سے دوستی کرلی۔ ہر کسی سے بھروسہ اٹھتا چلا گیا۔
3) وہ وقت تو گزر گیا مگر مجھے یہ سکھا گیا کہ آپ جو ہیں،جیسے ہیں اپنے آپ کو قبول کریں اور یہ کہ اس دنیا میں آپ کے گھر والوں کے علاوہ کوئی آپ کا مخلص نہیں۔ جب آپ اپنی وقعت کو پہچان لیں گے۔ مجھے لگتاہے کہ ذات کو تسخیر کرنے کے بعد ہی زندگی کے باقی تمام مراحل بھی سر ہوتے چلے جاتے ہیں_
ثانیہ متین (فری لانسر)
1)وہ دن مشکل ہوتے ہیں جب میرا بھائی ایک نفسیاتی بیماری ADHD کی وجہ سے منفی اور شدید ردعمل دیتا ہے۔Attention Deficit hyperactivity disorder ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جو بڑی یا چھوٹی کسی بھی عمر میں وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ اس میں انسان بہت جلدی منفی رد عمل دکھانے لگتا ہے۔سو ، ایسے میں بھائی ہر چھوٹی بات پر سخت منفی ردعمل دینے لگا تھا اور ہمیں چپ ہوکر برداشت کرنا پڑتا۔
2) میرا دل کرتا گھر چھوڑ کر کہیں دور چلی جاؤں۔ اکثر خیال آتا اور شکوہ کرتی کہ میری ہی زندگی میں یہ سب کیوں ؟ مگر تھوڑی دیر میں بہت شرمندگی ہوتی کہ اتنے کریم رب سے میں ایسے پوچھنے کے قابل کہاں؟ رجوع کرتی اور اپنے رب سے صبر مانگتی۔ میرے بھائی کا رویہ کسی بھی ایسی بات سے جو اسے بری لگ جائے سخت ہوجاتا مگر لوگ جانتے ہوئے بھی اس سے ان موضوعات پر بات کرتے۔ اس وقت تووہ چپ رہتا مگر سارا غصہ ہمارے اوپر نکالتا۔
3) ان تمام معاملات سے یہ سبق سیکھا کہ کسی کو تکلیف دینے والا عمل مذاق میں بھی نہ کریں۔ہم نہیں جانتے آپکی ایک بات دوسروں کی کتنی راتوں کی نیندیں برباد کردے۔گناہ سے نفرت کرنا سیکھیں گناہ گار سے نہیں اور بھی بہت سے اسباق سیکھے جن میں یہ سب سے اہم ہیں۔
نیہا(یونیورسٹی کی طالبہ)
1) یونیورسٹی میں دنیا کا اصل چہرہ، لوگوں کا دورخہ منافقانہ رویہ دیکھنا بہت تکلیف دہ تھا۔
2)رد عمل بس یہ تھا کہ اتنے اچھے اور قریبی دوستوں کی طرف سے مجھے ایسے رویے کی قطعی امید نہیں تھی۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ کوئی اتنا خودغرض بھی ہوسکتا ہے مگر کسی نے کیا سچ کہا ہے کہ یہ دنیا جھوٹی لوگ لٹیرے! یہی دیکھا بس۔
3) اس تمام عرصے میں، میں نے جان لیا کسی پر انحصار تو بالکل نہیں کرنا۔ جو کرنا ہے اللہ کی مدد سے اپنے بل بوتے پر کرنا ہے اور ان اندھیرے وقتوں میں جب ہر جگہ سناٹا ہوتا ہے اور آپ اپنے آپ کو اکیلا اور کھویا ہوا محسوس کرتے ہیں اللہ تعالی وہاں سے آسانی کے راستے پیدا کرتے ہیں جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا۔
مدیحہ
1)بالکل ایسا وقت میری زندگی میں آیا‘میرے ابو اور امی کی جب علیحدگی ہوئی اس واقعہ نے مجھے پارہ پارہ کردیا۔ میں سوچتی ہوں کہ کوئی باپ اتنا خودغرض اور سخت دل کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنے بال بچوں کو لاوارث چھوڑ کر چلا جائے۔
2) ان حالات کو تسلیم کرنا بہت مشکل تھا۔ میں روتے ہوئے ہلکان ہوکر سوجاتی یا بے ہوش ہوجاتی کیوں کہ میں اپنے ابو سے بے تحاشہ محبت کرتی تھی۔
3) مشکل وقت میں واقعی سبق پنہاں ہوتا ہے‘ یہ واقعہ میری زندگی کو اسباق سے مالا مال کر گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھا۔شاید آپ کو عجیب لگے لیکن مجھے اپنے تجربے سے لگتا ہے کہ ہر ماں، ماں اور ہر باپ، باپ نہیں ہوتا۔۔ کبھی کبھار خون کے رشتے بھی قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ قابل اعتبار تو صرف اللہ اور بندے کا تعلق ہے۔ حالات تو گزر گئے اور اب بہت بہتر وقت ہے مگر وہ لمحات میرے دل پر یہ نقش ہو کر رہ گئے۔
ماہرہ (ہوم بیسڈ بیکر)
1) جب میں نے اپنے جوان کزن کی موت کا سنا تو وہ لمحہ جیسے مجھے ساکت کرگیا۔
2) ان لمحات میں میرا رد عمل بے یقینی اور غم کے احساسات سے بھر جانا تھا۔آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ رب سے شکوہ سا ہونے لگا مگر یہ درد ایک تلخ حقیقت سکھاگیا۔
3) مجھے اس بات کا گویا یقین ہوگیا کہ کسی نے بھی ساری زندگی یہاں نہیں رہنا۔ یہ عارضی دنیا ہے اور صحت پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی۔ پس اس کی قدر کریں اور اس کا استعمال کریں جیسا کہ اس کا حق ہے!
عائشہ انور(رائٹر)
1) جب یہ معلوم ہوا امی کے دونوں گردے ناکارہ ہوچکے ہیں تو گویا وہ زندگی کا سب سے بڑا دھچکا تھا جس نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ امی وقت کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی تھیں اور ڈائلسس انہیں گویا چوس رہا تھا۔ بہرحال وہ سخت ترین وقت گزر گیا۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد اب وہ صحت مند زندگی بسر کر رہی ہیں۔
2) یہ سب جان کر میں اپنے رب کریم کے آگے گڑگڑائی۔ بہت دعائیں کیں اور خوف بھی طاری ہوا کہ نجانے اب کیا ہوگا مگر اللہ تعالی پر کامل یقین تھا اور اس ذات نے گمان سے بڑھ کر عطا کیا۔
3) ان حالات میں پیدا کرنے والے کی حکمت کو جانا اور اس کی محبت کو پہچانا یقین ہوگیا کہ اگر اسے خالص ہوکر پکارا جائے تو وہ کبھی اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔
سعدیہ ظفر (لیکچرار)
1) جب میں 13 سال کی تھی تو بیک بون سرجری زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا۔ خوف تھا کہ سرجری کوئی بھی نتیجہ لاسکتی ہے۔
2)اس وقت اللہ تعالیٰ کا مضبوط ترین سہارا تھام کر ان لمحات کو گزارا۔ اسی سے ہمت و حوصلہ بھی ہوا۔
3) اس واقعے نے مجھے پہلے سے زیادہ مضبوط کردیا اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنا سکھایا۔ یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ نیک گمان رکھنا چاہیے۔ہمیں ہمارے گمان کے مطابق ہی ملتا ہے_آج الحمدللہ پرائیویٹ کالج میں لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن سینٹر کو بھی چلا رہی ہوں۔
روحی اقبال ( کالج لیکچرار)
1) ماں کا اس دنیا سے جانا میرے لیے کٹھن لمحوں میں سے تھا،جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
2) جب ڈاکٹروں نے ان کی وفات کی خبر سنائی تو میں انہی پر برس پڑی تھی‘ بعد میں اس رویے پر شرمندہ بھی ہوئی۔
3)سبق یہ ملا کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں ہم مداخلت کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ ہم چاہے کسی سے کتنی ہی محبت کیوں نہ کرتے ہوں ایک نہ ایک دن جدائی لازمی ہے !
زینب انور (طالبہ )
1) جب میری پھوپھی کا کینسر سے انتقال ہوا وہ لمحہ میری زندگی بدل گیا۔ میں ان سے بہت قریب تھی۔ دیکھ رہی تھی کہ مال کی کثرت بھی انہیں کینسر جیسے موذی مرض سے نہ بچا پائی۔وہ اپنی قضاء کو مات نہ دے سکیں۔
2) اس وقت میں نے سوچا کہ دیکھا جائے موت کے بعد کی کیا زندگی ہوتی ہے۔ پڑھا تو دل ہل کر رہ گیا۔ اعمال بد ترین تھے۔ دنیا میں مست زندگی گزاری تھی ایسے میں رب سے ملاقات کا تصور تو کہیں تھا ہی نہیں۔
3) وہ دن میرے لیے سب سے بڑا سبق تھا۔ اس دن سے میں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اب زندگی اپنے رب کے لیے وقف کرنی ہے_
مختلف شعبہ ہائے زندگی کی خواتین سے یہ بات کر کے یہ بہت واضح ہوتی ہے کہ حالات میں اتار چڑھاؤ آتے ہی رہتے ہیں جن کا مقصد ہمیں جانچنا اور پرکھنا ہوتا ہے کہ کون ہمت سے کام لے کر زندگی کو بامقصد بناتا ہے اور کون ان آزمائشوں سے گھبرا کر فائدہ اٹھانے میں کوتاہی برتتا ہے۔وہ لوگ جو اندھیری رات میں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتے،طلوع ہوتی صبح ان کی زندگی کو روشنی سے منور کردیتی ہے۔